آصف جاوید ۔ ٹورنٹو
میں سماجی علوم کا طالبِ علم ہوں، اکثر سماجی تجربات اور مشاہدات کرتا رہتا ہوں، بے مقصد سڑکوں پر آوارہ گردی، مساجد ، گوردواروں، مندر وں کا پھیرا، کمیونٹی تقریبات کے چکّر، دوستوں اور کمیونٹی لیڈرز سے بے مقصد گفتگو، میرا وقت بھی گزر جاتا ہے، مطالعہ و مشاہدہ بھی ہوجاتاہے، میرا اس سلسلے میں مشاہدہ ہے کہ کینیڈا کے صوبائی و فیڈرل الیکشن میں حصّہ لینے کے اِن شوقین مزاج لوگوں کی اکثریت نے آج تک سوشل ورک سے اپنے کام کی ابتدا نہیں کی ہے، اکثریت نے کونسلرز کے انتخابات سے شروعات نہیں کی۔
میں اکثر الیکشن میں حصّہ لینے کے خواہشمندوں امیدواروں سے غیر محسوس انٹرویو بھی کرلیتا ہوں، موقعہ ملنے پر گاہے بہ گاہے گفتگو کرتا رہتاہوں، مجھے زیادہ تر لوگوں کے مائنڈ سسٹم ، اور ان کی سوچ، اور اُن کی فہم و فراست کا علم ہے۔ یہ لوگ سیاست کو عوامی خدمت، یا اجتماعی خدمت کا پلیٹ فارم سمجھنے کی بجائے، طاقت اور فخر کے اظہار کا پلیٹ فارم سمجھتے ہیں۔ اِن میں سے زیادہ تر لوگ اقتدار اور طاقت کے بھوکے ہیں۔ زیادہ تر خواہشمند وں کا تعلّق پاکستان کی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہوتاہے۔ وہی اِن خواہشمندوں کی پہلی و آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔ وہیں سے یہ اڑان بھرتے ہیں، پہلی سپورٹ بھی انہیں وہیں سے ملتی ہے۔
اِن کی سیاسی فہم و فراست کا یہ عالم ہوتا ہے کہ گلوبل پالیٹکس ، اکانومی، فارن افیئرز کی اِن کے ذہنوں میں کوئی جگہ یا اہمیت نہیں ہوتی۔یہ لوگ کشمیر کے مسئلے کو کینیڈا کا سیاسی مسئلہ سمجھنا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں، اِن میں سے ہر ایک کے ذہن میں انڈیا سے پاکستان کی دشمنی ، کینیڈا کی خارجہ پالیسی کا حصّہ ہونے کی شدید ترین خواہِش ہوتی ہے۔
ان لوگوں کی اکثریت کو تو کینیڈا کے سوشل اینڈ پولیٹیکل سسٹم کا بھی پتا نہیں ہوتا، کینیڈا کی سوشل اینڈ پولیٹیکل ڈائنمکس پر اکثریت کی کوئی نظر نہیں ہوتی، ایک صاحب کے مطابق کینیڈا نے اپنا سوشل سسٹم اسلامی تعلیمات سے اخذ کیا ہے، ریاستِ مدینہ کی نقّالی کی ہے۔ دوسرے صاحب کے مطابق کینیڈا کا سارا سوشل سسٹم، سوشلسٹ نظام حکومت کا چربہ ہے، باقی زیادہ تر لوگ اسے سرمایہ دارانہ نظام سمجھتے ہیں۔
خواہشمند امیدواروں میں سے زیادہ تر سرمایہ دارانہ نظام اور فری مارکیٹ اکانومی کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں،۔ میں دعوی‘ سے کہتا ہوں کہ اگر آپ ان سے سوشلسٹ نظامِ حکومت اور سوشل ڈیموکریسی کی بات کریں تو یہ فرق نہیں بتا پائیں گے۔
اِن کی اکثریت کو یہ نہیں معلوم کہ کینیڈا کا سماجی و معاشی نظام ، سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی کے معروف اصولوں پر قائم ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو تو کینیڈا کے تین سطحی نظامِ حکومت، شہری حکومتوں کی خود مختاری، صوبائی و فیڈرل گورنمنٹ میں اختیارات کی تقسیم ، قومی پیداوار اور وسائل کی تقسیم کے فارمولے ، ٹیکس وصولی کے نظام ، ٹیکس سے وصول ہونے والی آمدنی کی تقسیم و تصرّف کے نظام سے مکمّل آگاہی نہیں ہے۔
میری خواہش ہے کہ آپ لوگ بھی ان سے اپنی گفتگو میں ، چھوٹے چھوٹے سماجی تجربات کرتے رہا کریں، اس سے سوال و جواب کرتے رہا کریں ، تاکہ انہیں اس بات کا احساس ہو کہ یہ پاکستان نہیں ، کینیڈا ہے، یہاں ووٹ دینے والا سوال اور مواخذے کا حق رکھتا ہے۔ آپ اِن سے گفتگو ، کیا کریں، اِن سے کینیڈا کو درپیش چیلنجز پر بات کیا کریں، کینیڈا کی سعودی عرب اور چائنا سے مخاصمت پر ہی گفتگو کرلیں، امریکہ کے ساتھ نئے ٹریڈ ایگریمنٹ، اور کینیڈین اکانومی کو درپیش چیلنجز پر ہی بات کرلیں۔
کچھ نہیں تو آج کے اخبار کی ہیڈلائنز پر ہی گفتگو کرلیں، تاکہ ان کو آئینے میں اپنی شکل نظر آجائے، اور یہ اپنا ہوم ورک مکمّل کریں ، انہیں پتہ ہو کہ سیاست کوئی خالہ جی کا گھر نہیں، اس کے لئے امیدوار کا ہوم ورک مضبوط ہونا اور نالج کا وسیع ہونا، شخصیت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ ان کی بے ربط گفتگو سے ہی آپ کو ان کی کمزور شخصیت اور کمیونیکیشن پاور کا اندازہ ہوجائے گا۔ اِن سیاست کے شوقین لوگوں نے پاور پالیٹکس اور برادری سسٹم کو بھی کینیڈا کی سیاسی جماعتوں میں غیر اعلانیہ متعارف کروادیا ہے۔ اِ ن لوگوں نے کینیڈا کی سیاسی جماعتوں میں غیر اعلانیہ برادری سسٹم اور پاکستانی سیاسی جماعتوں کے پریشر گروپس کو فعال کردیا ہے، اگر آپ کا کینیڈا کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی پرانا تعلّق ہے ، مگر ان برادریوں یا پریشر گروپس سے اچھّے تعلّق نہیں ہیں تو کوئی مائی کا لال آپ کو اپنی پارٹی کا نامینیشن نہیں دلوا سکتا، چیلنج کررہا ہوں اگر کوئی اس بات کو غلط ثابت کردے۔ تو بھرے مجمعے میں شرمندہ ہونے کے لئے تیّار ہوں۔
میں یہاں آپ کو پاکستانی امیدواروں کے سماجی رویّوں کی مثال دینا چاہتا ہوں، پچھلے دنوں مسی ساگا ،مالٹن میں ایک واقعہ پیش آیا ، پولیس سے انکاؤنٹر میں ایک شہری کی موت واقع ہوگئی، مرنے والا مسلمان اور پاکستانی کینیڈین تھا، شہری کی موت پر ہونے والے احتجاج پر پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کے لوگ ٹولیاں بنا بنا کر پہنچ گئے، پولیس کے خلاف تقاریر کیں، کچھ پاکستانی سیاسی جماعتوں نے تو باقاعدہ اپنی پاکستانی سیاسی جماعتوں کے بینر لگا کر احتجاج میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کا شو آف کیا۔ کیونکہ مرنے والے کا تعلّق پاکستان سے تھا، لہذا اس واقعے میں کو مسلمانوں اور پاکستانیوں کے خلاف، پولیس کے امتیازی سلوک سے تعبیرکیا گیا۔
کمال بات یہ ہے کہ کینیڈا کے صوبائی و قومی الیکشن میں حصّہ لینے کے خواہشمندوں امیدواروں میں سے کوئی اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں آیا تھا، بلکہ ہر کوئی اپنی پاکستانی سیاسی جماعتوں کے گروپوں یا کینیڈا کی سیاسی جماعتوں کے گروپوں کے ساتھ آیا تھا، زیادہ تر نے اپنی طاقت کا شو آف اپنی پاکستانی سیاسی جماعتوں کے بَل پر ہی کیا تھا، میں اس احتجاجی مظاہرے کا عینی شاہد ہوں، کیونکہ میں خود بھی سماجی علوم کے طالب علم کی حیثیت سے وہاں خاموش مشاہدے کے لئے گیا تھا۔ اور ایک بار نہیں کئی بار گیا تھا۔
یہ صرف ایک مثال تھی، جو میں نے دی ہے، میرے پاس کچھ ایسی تصاویر بھی موجود ہیں جن میں یہ الیکشن میں حصّہ لینے خواہشمند امیدوار ٹورونٹو میں انڈین قونصلیٹ کے سامنے پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر پاکستان کے انڈیا کے ساتھ سیاسی تنازعات پر تقریریں یا احتجاج کررہے ہیں۔کیا انہیں شعور نہیں ہے ، کہ کل کس منھ سے یہ ایک ایسی رائڈنگ میں اپنی انتخابی مہم چلائیں گے جہاں ، انڈین کثیر تعداد میں رہتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ پہلے انہیں کینیڈا کےسماجی، سیاسی و معاشی نظام کو سمجھنے ، اور ملٹی کلچرل معاشرے میں بلا امتیاز سوشل ورک کرنے کی ضرورت ہے، انہیں دیگر کمیونٹی سروسز میں حصّہ لینے اور ملٹی کلچرل معاشرے میں دوسری کمیونٹیز کے ساتھ سماجی تعلّقات پیدا کرنے کے عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے، اگر کینیڈا کے سماجی و سیاسی نظام سے جڑنا ہے، تو پہلے ملٹی کلچرل کمیونٹیز کے ساتھ روابط بڑھانے ہوں گے، ان کے ساتھ اعتماد کے رِشتے قائم کرنے ہونگے، اسکولوں میں جمعہ کی نماز، لاؤڈ اسپیکرز سے اذان کی آواز جیسے فضول مطالبات سے پرہیز کرنا ہوگا۔ ملٹی کلچرل معاشرے میں دوسری اقوام کے ساتھ رہنے کا ہنر اور سلیقہ سیکھنا ہوگا۔
کینیڈا ایک کثیر الثقافت اور کثیرالعقائد معاشرہ ہے، کینیڈا کی ثقافتی اقدار اور معاشرتی رواداری ہی کینیڈین معاشرے کا حُسن ہے، کینیڈا گناہوں کی دلدل قطعی نہیں ہے ، یہ امن و آشتی کی سرزمیں ہے، خواہشمند امیدواروں کو اپنی طبعیت میں وسیع القلبی پیدا کرنی ہوگی، ہم جنس پرستوں، شراب، سور، اور کتّے کو حقارت کی نظر سے دیکھنے سے اجتناب پیدا کرنا ہوگا، اپنی تقاریب اور اجتماعات میں اِن راندہِ درگاہوں کو جگہ دینی ہوگی۔
اپنی تواضع میں وسعت پیدا کرنی ہوگی، اگر اپنے لئے نہیں کرسکتے، تو کلچرل انٹیگریشن کے لئے کریں، دیگر کمیونٹیز سے روابط پیدا کرنے کے لئے کریں، اپنے لئے نہیں کریں ، مگر معاشرتی روابط، وضع داری، اور رواداری کے لئے انہیں عزّت و احترام دیں، برداشت ،رواداری، اور کشادہ دلی کو اپنائیں ، لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ میری دو پیسے کی رائے بھی بہت سے لوگوں کے لئے غصّے، اشتعال اور نفرت کا سبب بنے گی، گالیوں کے لئے حاضر ہوں، سلامت رہیں،۔