پائندخان خروٹی
میری ہمیشہ ہر فورم پر یہ خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ اپنی تحریر اور تقریر میں غیرروایتی انداز میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پائیدار حل ڈھونڈ سکوں۔ اس غیرروایتی نقطہ نظر کے ساتھ گزشتہ مہینے ” پری بجٹ پالیسی ڈائیلاگ ” میں شرکت کیلئے مجھے مدعو کیا تھا جس کا اہتمام تین مختلف اداروں جرمن ایف ای ایس، سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ اور بلوچستان ڈیموکریٹک فورم نے کیا تھا۔ دنیا کی سول لائزڈ ممالک میں مفاد خلق ،جس کو فرینچ فلاسفر جے جے روسو نے “جنرل ول” کا نام دیا ہے ، تمام پالیسیوں کا محور و مرکز ہوتا ہے۔ ویسے بھی قبل از بجٹ ڈائیلاگ میں سرکاری نقطہ نظر کے مقابلے میں عوامی رائے بھی سامنے آ جاتی ہے۔ پری بجٹ ڈائیلاگ میں باہمی مشاورت، کیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی اور عوامی رائے کی تشکیل کے حوالے سے ایسی مکالماتی کاوشیں ضرور بارآور ثابت ہوتی ہیں۔
میں آپ کو پری بجٹ پالیسی ڈائیلاگ میں پیش کرنے والی نئی مگر غیر روایتی تجاویز سے آگاہ کروں گا۔ سردست پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر شدید ترین بحران کا شکار ہے اور اسی مشکل ترین صورتحال سے نکلنے کیلئے ہمیں روایتی راہ سے ہٹ کر آوٹ آف دی باکس ٹھوس اور مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ جس طرح کینسر کا علاج ڈسپرین سے نہیں ہوسکتا اس طرح پاکستان کے بحران کو روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں کی قیمتیں بڑھانے، ٹیکس لگانے، دودھ کی بجائے سبز چائے پینے اور کھانے میں بچت کرنے جیسی چھوٹی موٹی جزوی اصلاحات سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ہم فرسودہ اور نمو سے خالی قبائلی جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔ پورے ملک اور صوبوں میں صرف ایک سو بیس خاندان ہزارہا ایکڑ زمینوں کے مالک ہیں جبکہ اکثریتی آبادی زمینیں تو درکنار اُن کو تو رہنے کیلئے اپنی چھت، تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا اور دو وقت کی روٹی بھی عزت سے میسر نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ محض سرکاری زمینیں لوگوں میں تقسیم کرنا کافی نہیں بلکہ میرا مطالبہ ہے کہ ملک بھر کے کسی بھی شخص کے نام پر قابل کاشت سو ایکڑ سے زائد زمین کو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا جائے۔
جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ تو مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش نے تہتر برس قبل ممکن بنایا تھا۔ ہم بھی نئی قانون سازی کے ذریعے بےزمین کسانوں، ہاریوں اور غریبوں میں اراضی تقسیم کر سکتے ہیں جو فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے قانونی خاتمے سے مشروط ہے۔ پاکستان اور بلوچستان کی معیشت بنیادی طور پر زرعی نوعیت کی حامل ہے۔ بلوچستان میں معیشت کا سب سے اہم اور بڑا حصہ زراعت اور مالداری سے وابستہ ہے۔ بلوچستان میں لائیواسٹاک کو جدید خطوط پر استوار کر کے اس کی نشوونما کے ذریعے اس عالمی سطح پر منافع بخش کاروبار کے طور پر ترقی دی جا سکتی ہے۔
آج سعودی عرب میں ہر سال عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے موقع پر قربانی کیلئے پچیس لاکھ سے زائد جانور مختلف ممالک سے منگوائے جاتے ہیں جبکہ سعودی عرب کی یہ ضرورت بلوچستان کا صرف ایک دو اضلاع لورالائی اور موسیٰ خیل اپنے وسائل سے پوری کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کے خانہ بدوش قبائل کے بارے میں یہ جان کر افسوس ہوتا ہے کہ انھیں حکومت کی جانب سے جدید فارمنگ کی سہولتیں ملنا تو درکنار ان کے پاس تو ضروری شناختی دستاویزات بھی نہیں ہیں۔ وہ اپنے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں۔ نہ جانے کہ وہ درپدر خانہ بدوش صوبے کے دور افتادہ علاقوں کے کن پہاڑوں، جنگلوں اور بیابانوں میں گھوم ہیں۔
واضح رہے کہ کہ عرب و عجم بالخصوص سعودی عرب چودہ سو سال کے بعد بھی ذکر و عبادت کیلئے کمیونسٹ چائنا کے تسبیح اور جائے نماز استعمال کرنے اور لائیو سٹاک کیلئے آسٹریلیا اور کینیڈا سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنی قومی پیداوار میں اضافہ کر کے ہم سعودی عربستان کی یہ مجبوری بآسانی ختم کر سکتے ہیں۔ یہ بات حیران کن ہے کہ صرف بلوچستان کی تقریباً 700 سو کلومیٹر طویل ساحلی پٹی دنیا پر سیاسی اور معاشی اعتبار سے راج کرنے والے ملک اسرائیل کے کل رقبہ سے زیادہ ہے۔ خطے میں گہرے پانیوں (Deep Sea) کی واحد بندرگاہ ہونے کے علاوہ وہ بلوچستان کا ساحل سمندر اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ملک وصوبے کے واک واختیارات کے مالکان کیلئے گوادر کی مقامی ایک لاکھ سے کم آبادی بھی درد سر ہو۔ حالانکہ گوادر کئی مختلف براعظموں کے مختلف ممالک کیلئے ڈائریکٹ معاشی اور تجارتی منافع بخش مواقع فراہم کر سکتا ہے، ملک وصوبے کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتا ہے اور پورے خطے کے معاشی جمود کا خاتمہ کر سکتا۔
اتنے بڑے پیمانے پر روشن معاشی امکانات میں تو پورے صوبے کے عوام کی ضروریات اور خواہشات دونوں پوری ہو سکتی ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ اپنی جغرافیائی محل وقوع اور اسٹریٹیجک اہمیت کے پیش نظر بلوچستان کا علاقہ مستقبل میں ایک اہم انٹرنیشنل مرکز میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ چمن شہر کے ذریعے سینٹرل ایشیا کے ممالک تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ ان معاملات کو سنجیدگی سے دیکھا جائے، ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے اور مقامی آبادیوں کے حقوق اور مفادات کو اولین اہمیت دی جائے۔ ایک صحت مند اور ترقی پسند معاشرہ کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی، معاشی اور سماجی تضادات کا ادراک حاصل کرنے، باقاعدگی سے تحقیق اور ایڈوکیسی کے عمل جاری رکھنے اور عوامی رائے کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے سرکاری سرپرستی سے آزاد ایک تھنک ٹینک کی اشد ضرورت ہے۔
بجٹ سازی محض اعلیٰ سرکاری آفیسرز کی بجائے معاشرے کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے صاحب فکر اور صاحب رائے کی شرکت اور شمولیت کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ عالیشان سرکاری دفاتر میں بجٹ بنانے سے قبل ملک اور صوبہ کے چپہ چپہ، قریہ قریہ میں آباد کسانوں، مزدوروں اور مالداروں تک رسائی حاصل کرنا لازمی ہے کیونکہ اب بجٹ سازی اور پالیسی سازی میں تمام سوشل سائنٹسٹس اور پولیٹکل انٹلیکچولز کی شرکت کے بغیر معاملات کو خوش اسلوبی سے آگے نہیں بڑھا سکتے۔ جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی باعث عوام کے تنقیدی شعور میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اب عوامی حقوق واختیارات کی پاسداری کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وفاقی اور صوبائی بجٹوں میں نوجوانوں، عورتوں، معذوروں، کاشتکاروں اور لائیو سٹاک سے وابستہ افراد کیلئے زیادہ سے زیادہ رقم مختص کرنے کی آوازیں زور پکڑ رہی ہے۔
تحصیل کی سطح پر جدید کارخانوں، صنعتوں، فنی اور تیکنیکی ٹریننگ سینٹرز کے قیام کیلئے حکومت کی جانب سے اپنے تاجروں اور صنعتکاروں کو بھرپور تعاون فراہم کرنے کے مطالبے ہو رہے ہیں۔ بجٹ کی تجاویز اور آراء کا جائزہ لیتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر نوجوانوں کی آبادی کے حوالے سے ایک متفقہ رائے یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا ملک کی کل آبادی میں تناسب سب سے زیادہ ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نوجوانوں کو فعال اور کارآمد بنانے کیلئے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ آبادی میں بےہنگم اضافہ کئی دوسرے سماجی اور معاشی مسائل پیدا کرتا ہے تاہم طویل المدت پلاننگ کے ذریعے ایک جانب آبادی پر کنٹرول بھی رکھا جا سکتا ہے اور دوسری جانب پیدا ہونے والے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے۔
بجٹ سے متعلق میرے ذہن میں یہ سوالات ابھرتے ہیں کہ بجٹ زمینی سچائیوں کی بجائے صرف ایک تخمینہ پر کیوں مرکوز ہے؟ بجٹ سازی محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہونے کی بجائے اخراجات اور آمدن میں توازن پیدا کرنے، زمینی سچائیوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق عوامی مشکلات کو حل کرنے کی انتہائی اہم دستاویز کیوں نہیں ہے؟ جس کو ایک جمہوری، روشن خیال اور سیکولر معاشرہ ہی پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔
یہ بات ایک بیماری کی حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہر حکومت یہاں تک کہ پرائیویٹ اداروں کے سربراہان بھی تمام مسائل کا ذمہ دار سابق اور سابقہ قیادتوں کو قرار دیتے ہیں۔ اسمیں کسی حد تک سچائی بھی ہو سکتی ہے لیکن محض سابقہ کی گردان کرنا اور خود کو ہر ذمہ داری سے بری و الذمہ سمجھنا کسی مسئلے کا پائیدار حل تو نہیں ہے۔ جزوی اصلاحات کے مشورے، چھوٹی موٹی بچت کی تجاویز، سرکاری دفاتر میں دودھ والی چائے پر پابندی لگانا اور زیردست طبقہ پر مزید ٹیکسیز لاگو کرنے کی سفارشات تو ہر ایک پیش کرتا یا کرتی ہے مگر موجودہ جاگیردارانہ ذہنیت پر مبنی سسٹم اینڈ اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کی جسارت کوئی نہیں کرتا۔
معاشی مساوات پر مبنی ایک خدمتگار خلقی نظام قائم کرنے کیلئے اپنے حصے کا کردار کوئی ادا نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔؟ معاشی نابرابری کا خاتمہ کرنے، انسانی عقل کی بالادستی قائم کرنے، فکری پسماندگی کو ملیامیٹ کرنے اور جنونیت کو شکست دینے کیلئے ڈائیلاگ اور اسٹڈی سرکل کے عمل کو ہر سطح پر جاری رکھنا ضروری ہے۔ ایک انقلابی بجٹ عوام کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع اور سہولیات پہنچانے کا معتبر وسیلہ ہوتا ہے۔ عوام کی محنت چھینے اور خون چوسنے کی بجائے معاشی آسودگی کی نوید دیتا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ ہم آسان اور روایتی زندگی سے مسلسل جدید اور پیچیدہ زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ضروریات زندگی میں اضافہ کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا دانشمندی اس میں ہے کہ پل پل بدلتی دنیا کے جدید تقاضوں اور انسانی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ہم بچت کی بجائے آمدن بڑھانے پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز رکھیں۔
♣