سعودی عرب نے ‘تمام طیاروں’ کے لیے اپنی فضائی حدود کھول دیں

سعودی عرب نے جمعے کے روز تمام طیاروںکے لیے اپنی فضائی حدود کھول دی ہیں۔ اس اقدم کو امریکی صدر جو بائیڈن کی آمد سے قبل بظاہر اسرائیل کے حوالے سے ایک مثبت اشارہ قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس تاریخیفیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ یہودی ریاست کے تئیں ریاض کا یہ تازہ ترین مفاہمتی اقدام ہے۔ حالانکہ اسرائیل کی جانب سے عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی زبردست کوششوں کے باوجود سعودی عرب نے اسے اب تک تسلیم نہیں کیا ہے۔

سعودی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا، سعودی عرب نے مملکت کے فضائی حدود کو ان تمام طیاروں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے جو اس کے اوپر سے پرواز کرنے کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ تین براعظوں کو جوڑنے والے ایک عالمی مرکز کے طور پر مملکت کی پوزیشن کی مضبوط کرنے کی کوششوں کی تکمیل کا حصہ ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان نے ایک بیان میں کہا کہ صدر بائیڈن نے اس فیصلے کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا،یہ فیصلہ صدر کی سعودی عرب کے ساتھ مہینوں کی مسلسل اور اصولی سفارت کاری کا نتیجہ ہے جو آج ان کے دورے پر پایہ تکمیل کوپہنچ رہا ہے۔

انہوں نے کہا امریکی صدر،جو مشرق وسطی کے اپنے دورے کے حصے کے تحت جمعے کے روز سعودی عرب پہنچ رہے ہیں، اس پیش رفت پر آج اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔

بدھ کے روز مشرق وسطی کا دورہ شروع کرتے وقت اسرائیل آمد سے قبل واشنگٹن نے اشارہ کیا تھا کہ مزید عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس بیان کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ آیا ریاض اپنے اس دیرینہ موقف سے ہٹ جائے گا کہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک باضابطہ باہمی تعلقات قائم نہیں ہوسکتے جب تک کہ فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہوجائے۔

اسرائیل کے ساتھ سن 2020  میں تعلقات قائم کرنے پر متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش جیسے علاقائی اتحادیوں کی سعودی عرب نے مخالفت نہیں کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ فوری طورکسی اہم پیش رفت کا امکان نہیں ہے اور ریاض غالباً باضابطہ تعلقات قائم کرنے پر رضامند نہیں ہوگا، کم از کم بائیڈن کے اس دورے کے دوران یا شاہ سلمان کے حیات تک ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔

بائیڈن نے سن 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو اچھوتکہا تھا تاہم وہ آج جمعے کے بعد جدہ کے ہوائی اڈے پر اترنے والے ہیں۔ وہ ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے۔

 وہ اسرائیل سے براہ راست پرواز کے ذریعہ سعودی عرب پہنچ رہے ہیں۔ اور ایک ایسے ملک سے، جسے سعودی عرب تسلیم نہیں کرتا، سعودی عرب تک براہ راست پرواز کے ذریعہ پہنچنے والے پہلے امریکی صدر بن جائیں گے۔ ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2017  میں البتہ اس کے برخلاف سفر کیا تھا۔

معاہدہ ابراہیمی کے فوراً بعد سعودی عرب نے اسرائیلی طیاروں کو اپنے حدود کے اوپر سے ابوظہبی جانے کی اجازت دے دی تھی اور اعلان کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے طیارے تمام ملکوں کے لیےاس کے اوپر سے گزر سکتے ہیں۔آج جمعے کے روز کیے گئے اعلان کے بعد اسرائیل سے آنے اور وہاں جانے والے تمام طیاروں پر سعودی عرب کے فضائی حدود سے گزرنے پر عائد پابندی عملاً ختم ہوگئی ہے۔

اسرائیل ایک عرصے سے اس کی کوشش کررہا تھا تاکہ ایشیا کے مختلف ملکوں تک پہنچنے کے لیے اس کے طیاروں کا سفر مختصر ہوسکے۔ اسرائیلی حکام یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسرائیل میں رہنے والے مسلمان عازمین حج اور عمرہ براہ راست سعودی عرب جاسکیں۔ فی الحال انہیں کسی تیسرے ملک کے راستے سے ہوکر سعودی عرب جانا پڑتا ہے جس پر کافی خرچ آتا ہے۔

اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر ڈین شاپیرو کا کہنا تھا کہ عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان کے تحت اسرائیل کے حوالے سے سعودی عرب کی سوچ میں بڑی تبدیلیآرہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان اورکسی حد تک خود شاہ سلمان نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا مثبت اشارہ دیا ہے۔

ڈین شاپیرو کا کہنا تھا،انہوں نے معاہدہ ابراہیمی کی حمایت کی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ان کے اپنے تعلقات کو معمول پر لانے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ مرحلوں میں ہو لیکن ایسا ہونا اب تقریباً ناگزیر دکھائی دیتا ہے“۔

dw.com/urdu

Comments are closed.