بصیر نوید
وطن بھی سندھیوں کا، قتل بھی بھی سندھی ہوں، انکی عورتوں، محنت کشوں، موٹر سائیکل سواروں پر حملے اور نقل و حرکت پر پابندی، پھر بھی کہتے ہیں سندھی اور پٹھانوں کے درمیان جھگڑے ہورہے ہیں یاسندھ میں نسلی فسادات ہورہے ہیں۔ یہ سندھ اور سندھیوں کے خلاف کیسا تعصب ہے؟
ایک سندھی نوجوان کے ساتھ افغانی ہوٹل پر پیسوں کی ادائیگی پر جھگڑا ہوا جس پر وہاں موجود افغانیوں نے سندھیوں کو برا کہتے ہوئے زد و کوب کیا جس پر سندھی نوجوان نے بھی افغانیوں سے کہا کہ اگر سندھی برے ہیں تو سندھ کو خالی کرو بس اس بات پر ہوٹل کے مالک اور وہاں موجود اسکے رشتےدار اور دوستوں نے بلال کاکا کو جو ہاتھ میں آیا اٹھا کر مارنا شروع کردیا پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے مردہ حالت میں اسپتال لایا گیا، سر پر سخت اشیا کی چوٹ اور پھیپھڑوں میں خون بھر جانے سے اسکی موت ہوئی۔ یہ سندھیوں سے کون سی نفرت کا اظہار تھا کہ ہوٹل پر موجود ہر افغانی نے اپنے غصے کا اظہار کی۔ اس دوران ہوائی فائرنگ بھی کی گئی لیکن کاکا کو گولی نہیں ماری گئی یہ ساری کارروائی وہاں جمع ہونے والے ہجوم نے دیکھی۔
بعد ازاں مشتعل سندھی نوجوانوں نے افغانی ہوٹل والوں سے کہا کہ کاروبار بند کرکے اپنے وطن واپس جاؤ۔ لڑکوں نے بار بار کہا کہ ہم نہ دکان توڑ رہے ہیں نہ سامان پھینک رہے ہیں۔ یہ سب کی وڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ لیکن اچانک سے یہ پروپیگنڈہ شروع ہوگیا کہ سندھ سے پٹھانوں کو مار مار کر نکالا جارہا ہے۔ ایسا تو کچھ نہیں ہو رہا تھا جبکہ سہراب گوٹھ پر مسلح افغانی نکل آئے سپر ہائی وے بند کرکے وہاں سے گذرنے والوں کو مارنا شروع کردیا، بقائی میڈیکل کالج کے طلبہ خاص کر لڑکیوں کو مارا انکے ساتھ انتہائی بد تمیزی کی گئی، گولیاں چلائیں ایک سندھی عورت ماری گئی ۔ ایک اور سندھی نوجوان جو موٹر سائیکل پر جارہا تھا اسکو ہلاک کیا گیا، دو سندھی بچیوں کو اغوا کیا گیا، پھر بھی کہتے ہیں سندھی پٹھان فسادات ہوئے۔ اپنے ہی وطن میں ماریں بھی جائیں اور کہا جائے کہ فسادات ہورہے ہیں۔ ہمیں ایسی باتیں لکھنے کو منع کیا جاتا ہے کہ نسلی تعصب کو پھیلایا جارہا ہے۔
کچھ افغانی و پشتو اسپیکنگ لوگوں کی وڈیوز بھی جاری ہوئی ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ ہم لڑنے والے ہیں سندھیوں ہم تمہیں ختم کردیں گے، ایک پٹھان مرا تو دس سندھیوں کی لاشیں گریں گی۔ یہ سب یکطرفہ ہوریا ہے۔ ان سب تعصبات سے بالا تر ہوکر پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کسی پشتون تنظیم، سیاسی پارٹی نے سندھیوں پر حملوں اور انکی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے؟ فرحت اللہ بابر، افرا سیاب خٹک، منظور پشتیں یا شاہی سید نے ہلاک شدگان کے لواحقین سے تعزیت کی؟۔ کیا سہراب گوٹھ پر ہونے والے واقعات کی مذمت کی؟ کیا یہ بلند قامت شخصیات سندھیوں کو قوم نہیں سمجھتے ہیں یا سندھ سندھیوں کا نہیں ہے؟ کیا یہ شخصیات سندھ کو محض ایک کالونی سمجھتے ہیں؟ یہ اردو بولنے والوں کی دعویدار تنظیمیں کیوں خاموش ہیں؟ شاید انکی نظر میں ایسے واقعات سے سندھ کی ڈیموگرافی بدلنے میں آسانی ہوگی۔
ہوسکتا ہے وہ پنڈی سے اشارے کے منتظر ہوں کہ کس کا ساتھ دیا جائے۔ جو چیخ چیخ کر سندھو دیش کے نعرے بلند کرتے ہیں وہ سندھ پر ہونے والے حملوں پر کیوں خاموش ہیں؟ اردو بولنے والوں کی نسل پرست تنظیمیں شاید یہ بھی سمجھ رہی ہوں کہ ہمیں نہیں سندھیوں کو مارا جارہا ہے ہمیں کیا؟ کچھ ایسے بھی گروہ ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ سندھ کے حقوق خاص کر حق خود اختیاری کی بات کی جائے تو انہیں فوراً طبقاتی جنگ کی بات یاد آجاتی ہے۔ جب بھی سندھ میں آبادی کے دباؤ کو روکنے اور اس سلسلے میں قانون سازی کی بات کی جائے تو انہیں فوراً کہا جاتا ہے مزدور مزدور بھائی بھائی۔ شاید یہ نعرہ سندھ کیلئے ہی رہ گیا ہے۔
ماضی میں جائیں تو کچھ ایسا ہی رویہ بنگالیوں کے ساتھ بھی تھا۔ اس وقت سہراب گوٹھ کے واقعات میں ایک وقفہ آیا ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ سندھ جہاں پاکستان میں آباد تمام قوموں کی تحریکوں کا نہ صرف کھل کر ساتھ دیا جاتا ہے وہاں ان قومی تحریکوں کو مستحکم کرنے کے وسائل بھی فراہم کئے جاتے ہیں جن میں خاص طور پر مقامی سیاسی گروہ، تنظیمیں ایسی قومی تحریکوں کیلئے جلسے، ریلیاں، مظاہرے، سیمینار وغیرہ بغیر کسی تعصب کے اہتمام کرتی ہیں۔
اسکی حالیہ مثالیں پشتون تحفظ موومنٹ کے لئے جلسوں کا اہتمام، علی وزیر کی رہائی کیلئے مظاہرے اور ہر چھوٹے بڑے اجتماعات میں ان کیلئے آواز اٹھانا، نقیب اللہ محسود کے پولیس کے ہاتھوں مارروائے عدالت قتل کا دنیا کو علم ہی نہ ہوتا اگر سندھ کی انسانی حقوق اور سماجی تبدیلیوں کی تنظیمیں اور خاص کر وکلاء دلیری کے ساتھ اس کیس پر آواز نہ بلند کرتے۔ سندھ بالخصوص کراچی ہر قوم کی تحریک کا مرکز رہا، اس سے بھی بڑی مثال بنگالیوں کی تحریک آزادی میں سندھ ہی واحد صوبہ تھا جہاں بنگالیوں کی آزادی کی تحریک کا مرکز تھا۔ اس بارے بہت تفصیلات ہیں لیکن فی الحال اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔
افسوس تو ہوتا ہے کہ جب افغانی ہوٹل کے مالک اور وہاں موجود مسلح افغانیوں نے ایک سندھی نوجوان کو قتل کیا اور اسکے جواب میں سندھی نوجوانوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا تو پختون تنظیمیں اور انکے لیڈر خاموش رہے انہوں نے سندھی نوجوانوں کا ساتھ دینے کی بجائے اس جھگڑے کو پٹھان سندھی جھگڑا قرار دیتے رہے۔ حتیٰ کہ سہراب گوٹھ پر ہونے والی مسلح غنڈی گردہ کو روکنے کیلئے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ البتہ میر پور خاص میں کاروبار کرنے والے پختونوں نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سندھیوں کا ساتھ دیا، مگر کراچی اور حیدرآباد میں آباد انقلابی پختون صرف بھائی چارے کی بات کی اور سندھیوں کا ساتھ نہیں دیا۔ یہی وہ رویہ ہے جسکےبارے سندھی کہتے ہیں کہ دوسرے صوبوں سے آنے والے سندھ کو کالونی سمجھتے ہیں۔
♣