سونےاور کاپرکے وسیع ذخائر کے حامل ریکوڈک منصوبے کے نئے معاہدے میں بلوچستان کی آئینی حیثیت پھر نظرانداز کردی گئی۔ کینیڈین کمپنی کےساتھ معاہدے میں اس صوبے کو صرف ایک چھوٹے شراکت دار کی حیثیت دی گئی۔
مبصرین کہتے ہیں پاکستانی تاریخ کے متنازعہ ترین منصوبے ریکوڈک کا خفیہ معاہدہ یکطرفہ حکومتی اقدامات کے باعث تنازعات کا شکارہوا ہے۔
بلوچ عسکریت پسندوں نے صوبے میں غیرملکی سرمایہ کاروں پر حملے تیز کرنے کی دھمکی دی ہے ۔ دوسری طرف قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پرغیرملکی سرمایہ کاری کی آڑ میں بلوچ وسائل لوٹنے کے الزامات عائد کئے ہیں۔
ریکوڈک کا نیا معاہدہ کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن اورپاکستانی حکومت کے درمیان ففٹی ففٹی کی بنیاد پرکیا گیا ہے ۔ نئےمعاہدے پرکام کاباقاعدہ آغازاگلے ماہ 14 اگست سے ہوگا۔ ایران اورافغانستان سے متصل بلوچستان کےسرحدی ضلع چاغی میں ریکوڈک منصوبے پر تنازعے کے باعث گزشتہ کئی سال سے کام بند تھا۔ اس تنازعے کے سبب ٹھیتیان کاپر کمپنی نے ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا تھا۔ مقدمے پربلوچستان کی سابقہ حکومت کو مجموعی طورپر سات ارب روپے سے زائد کے اخراجات اٹھانے پڑے تھے۔
عالمی ثالثی فورم انٹرنشینل سینٹرفارسیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ) نے ٹی سی سی کے 16 ارب ڈالرہرجانے کے دعوے پرپاکستان کوپانچ ارب 97 کروڑ ڈالرکی رقم بطورجرمانہ ادا کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مبصرین کہتے ہیں سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ بلوچستان کواس معاہدے میں بڑے حصہ دار کی بجائے ماضی کی طرح صرف ایک چھوٹے شراکت دار کے طور پر رکھا گیا ہے۔ بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف نیا محاذ؟
ریکوڈک کے سابقہ معاہدے کو بھی نواب محمد اسلم رئیسانی کے دورحکومت میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر منسوخ کیا گیا تھا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نواب زادہ حاجی لشکری رئیسانی کہتے ہیں مرکزی حکومت نےماضی کی طرح ریکوڈک کےحالیہ معاہدے میں بلوچستان کے مفادات کو یکسر نظرانداز کیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا ،”کینیڈین کمپنی کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کو ہم کسی صورت تسلیم نہیں کرسکتے۔ ہماری سرزمین سے معدنیات نکالنے کے لیے مرکزی حکومت خلاف ضابطہ معاہدے کررہی ہے۔ اگرحکومت کو بلوچستان کے مفادات کی واقعی کوئی فکرلاحق ہوتی تواس معاہدے میں بلوچستان کا شئیر سب سے زیادہ ہوتا۔ پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں بلوچستان کی مخلوط حکومت بھی اسی لیے ختم کی گئی تھی کیونکہ یہاں ٹھیتیان کاپر کمپنی کے ساتھ ریکوڈک کا معاہدہ ختم کیا گیا تھا۔ صوبے کی حقیقی قیادت کو تاریکی میں رکھ کرکیا گیا کوئی معاہدہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔‘‘۔
لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کے نئے معاہدے کے حوالے سے بھی صوبے کی حقیقی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے ۔
سینیئر قانون دان اور بلوچستان بارکونسل کے صدر راحب خان بلیدی کے بقول ریکوڈک کا حالیہ معاہدہ جان بوجھ کرخفیہ رکھا جا رہا ہے تاکہ حقائق منظرعام پرنہ آسکیں ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا،”حکومت ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے حقائق منظرعام پر لانے سے کیوں کترا رہی ہے؟ اگر یہ معاہدہ ضابطے کے مطابق ہے تواسے خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟ بلوچستان اسمبلی میں کئی گھنٹوں تک اس معاہدے پران کیمرہ بریفنگ کی بجائے پارلیمنٹ میں اس پر بحث مباحثہ کیوں نہیں کرایا جاتا؟‘‘۔
راحب بلیدی کا کہنا تھا کہ ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے اب تک جو بھی تحفظات سامنے ائے ہیں ان پرمرکزی اورصوبائی حکومت نے خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔
کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن نئے معاہدے کےتحت بلوچستان حکومت کو پہلے سال پانچ ملین ڈالرجبکہ دوسرے سال ساڑھے سات ملین ڈالرکی رقم ادا کرے گی۔
سونے اور تانبے کی کمرشل پیداوارکے آغاز تک ہرسال بلوچستان کو 10ملین ڈالرسالانہ ادا کئے جائیں گے۔ ان ادائیگیوں کا مجموعی حجم 50 ملین ڈالرز سے زائد بتایا گیا ہے۔
بیرک گولڈ کارپوریشن کے صدرمارک برسٹو کا 19 جولائی کو کوئٹہ میں ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ ریکوڈک طویل مدتی کان ہے جس کی کم از کم عمرچالیس سال کے قریب ہے ۔
انہوں نے مزید کہا،”فیزیبلٹی اسٹڈی کی نظر ثانی کے نتائج کی بنیاد پر ریکوڈک کان کی منصوبہ بندی روایتی اوپن پٹ اور ملنگ آپریشن پرکی جائے گی۔
ریکوڈک سے اعلیٰ معیار کے سونے اور تانبے کا ‘کنسٹریٹ‘ حاصل ہو گا۔ اسک پلانٹ کی تعمیر دو مرحلوں میں کی جائے گی۔ پلانٹ 40 ملین ٹن سالانہ کے حساب سےدھات کی پراسسنگ کرے گا۔ اس منصوبے کے تحت 12 ہزار سے زائد افراد کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے‘‘۔
مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ ریکوڈک منصوبہ سن 2028 سے اپنی پیداوار شروع کردے گا اوراس کان سے سالانہ 4 ہزار ٹن تانبا ، سونا اور دیگردھاتیں نکلنے کی امید ہے ۔
واضح رہے ریکوڈک کا پہلا معاہدہ امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیزمنرلز کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر سن 1993 میں کیا گیا تھا۔
سابقہ دور میں حکومت نے لائسنس کی تجدید کے لیے یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ متعلقہ کمپنی کو خام مال کی ریفائنری بیرون ملک نہیں بلکہ چاغی میں ہی تعمیر کرنا ہوگی۔
dw.com/urdu