عالمی سیاسی اور عسکری تاریخ میں تین اہم شخصیات جو براہ راست حکمران تو نہیں تھے مگر دنیا بھر کے حکمران طبقے کیلئے قائدانہ حیثیت کے حامل ضرور ہیں۔انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف حصوں کی مختلف اقوام میں پیدا ہوئے لیکن تینوں میں مشترکہ صفت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے وقت کے حکمرانوں کو سیاسی و عسکری شعبوں میں اپنا تسلط جمانے کے بنیادی گُر سے آگاہ کیا۔ اسطرح انہوں نے بالادست طبقہ کیلئے نظری اساس فراہم کی جس پر آج تک سامراجی اور استحصالی قوتیں سختی سے عمل پیرا ہیں۔
قدیم چینی دانشور سن زو ، ہندوستان کے مفکر کوتلیہ چانکیہ اور اٹلی کے سیاسی ڈپلومیٹ نیکولو میکاویلی نے جنگ چھیڑے بغیر دشمن کو شکست دینے، خفیہ کارندوں کے ذریعے دشمن کے خفیہ رازوں کو افشاں کرنے، کسی کام کے طریقہ سے زیادہ نتیجہ کو ترجیح دینے، سیاست کو اخلاقیات سے الگ رکھنے، راجا کے مفاد کی خاطر پرجا پر بےجاء خوف طاری کرنے، خلقی حاکمیت کی بجائے بادشاہت کو مستحکم رکھنے اور ہر طرح کی سازشوں، چالاکیوں اور مکاریوں کو بطور حربہ استعمال کرنے پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں۔
مندرجہ بالا تینوں اشخاص اپنے اپنے دور میں حکمران یا شاہی خاندان کے قریب ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ہر چند کہ تینوں یعنی سن زو، چانکیہ اور میکاویلی کو اپنی زندگی میں بادشاہ کی مرضی سے سرزنش کا بھی علیحدہ علیحدہ سامنا کرنا پڑا۔
یہ تینوں بادشاہ گر اپنے اپنے وقت اور خطے کے ممتاز دانشور، مصنف، ڈپلومیٹ، سیاسی و عسکری امور و معاملات اور مشاورت کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے تھے۔ ان کی بہت سی تحریریں دستیاب تھیں لیکن تینوں کی صرف ایک ایک کتاب کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ سن زو کی کتاب ” دی آرٹ آف وار، کوتلیہ چانکیہ کی کتاب” ارتھ شاستر، اور نیکولو میکاویلی کی کتاب “دی پرنس” شامل ہیں۔
میکاویلی کی معروف زمانہ کتاب” دی پرنس ” براعظم یورپ کی تحریک حیات نو کے دور میں شائع ہوئی جس کے کئی عالمی زبانوں میں ترجمے ہوئے اور یہ کتاب دنیا بھر میں مشہور ہوئی جبکہ ان کے مقابلے میں سن زو کی کتاب ” دی آرٹ آف وار ” اور کوتلیہ چانکیہ کی کتاب ” ارتھ شاستر ” کو نسبتاً کم شہرت ملی۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریباً دو ہزار سال قبل مذکورہ کتابیں لکھی گئیں لیکن عالمی سطح پر 20ویں صدی میں ہی متعارف ہوئیں۔
قارئین کے ذہن میں یہ سوالات ضرور ابھرتے ہوں گے کہ اگر مندرجہ ذیل تینوں مفکرین کی کتابیں حکمرانوں کیلئے ہیں تو آج ہمیں ان کی کتابیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمیں صدیوں پرانی کتابوں سے کیا سیکھنے کو ملے گا؟ تو میں اپنے اُن قارئین سے اتنا پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ کیا آپ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آج بھی آپ انفرادی یا اجتماعی سطح پر سامراجی قوتوں اور استحصالی عناصر کے ظلم و استحصال کے شکار نہیں ہیں؟
جب دنیا کے کونے کونے میں محکوم اقوام اور مظلوم طبقات کی زندگیاں معاشی غنڈوں، جنونی قوتوں، کرایہ کے قاتلوں اور بندوق برداروں سے محفوظ نہیں ہیں تو پھر ہر ذی شعور انسان کیلئے ایسے استحصالی عناصر کے مخفی اور آشکار حربوں، کرتوتوں، ہتھکنڈوں اور بغل بچوں کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ پھر بورژوازی کی مکاری و چالاکی کو تنقیدی شعور اور اولسی قوت سے رسوا کر کے پرولتارين ڈکٹیٹرشپ قائم کرنے کی خاطر غیرمنظم لوگوں ایک خلقی پلٹ فارم پر منظم کرنا ہے۔
خلقی سیاسی فلسفہ کے تناظر میں ہی کسی بھی ریاست کے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے سافٹ اور میلٹنٹ پہلوؤں کا درست ادراک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مفاد خلق (جرنل وِل) کی مکمل پاسداری سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ جنگ محض اقتدار کے حصول کیلئے نہیں ہوتی بلکہ معاشی غلامی، غربت، ناخواندگی، بےروزگاری، بیماری اور فکری پسماندگی سے نجات کیلئے بھی دوامدار انداز میں لڑی جاتی ہے۔
آج بھی نیکولو میکاویلی سرمایہ دارانہ دور کے چالاک اور زیرک حکمرانوں کا محبوب دانشور اور پولیٹکل فلاسفر سمجھا جاتا ہے، دنیابھر کی پاور پولیٹکس میں میکاویلی کو امام کا درجہ حاصل ہے۔ مشرق سے تعلق رکھنے والے چینی مفکر سن زو اور کوتلیہ چانکیہ کی کتابوں کے مواد عرصہ دراز تک منتشر صورت میں پڑے تھے اور بعدازاں دوسرے لوگوں نے انہیں اکٹھا کر کے ازسر نو کتابی شکل میں شائع کرائیں۔ اس ضمن میں ان کتابوں کی اوریجنلٹی پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مورخین اور محققین کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ شائع کرانے والوں نے اپنی جانب سے کیا کچھ اضافے اور کمی کی گئیں ہیں۔۔۔؟ جو بہرحال ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے۔
تینوں مذکورہ کتابوں میں یہ بات مشترک ہے کہ طبقاتی معاشرے میں جنگ ناگزیر ہے لہٰذا اقتدار کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کیلئے جنگ کی تیاری، حکمت عملی، خوف کا تسلط اور اور طاقت کا استعمال ضروری ہے۔ واضح رہے کہ جنگ سے انکار کی صورت میں عدم تشدد کے پرچارک اور رجعتی عناصر اہل زر اور زور کے یا تو آلہ کار بن جاتے ہیں ان کے ظلم و استحصال کے شکار۔ بقولِ شاعر
دنیا کے اس جنگل میں یہی بار بار ہوا
جو شکاری نہ بن سکے وہ خود شکار ہوئے
جنگی حکمت عملی کے ماہر سن زو نے بجا کہا کہ کوئی بھی جنگ مفت نہیں لڑی جا سکتی اور جنگ کی اپنی مخصوص قیمت ہوتی ہے، جنگ لڑنے کیلئے وسائل، ہتھیار، افرادی قوت، حکمت عملی، وقت اور مقام کا تعین اور تیاری کی جانی ضروری ہے تاہم قدیم چینی دانشور سن زو کا منفرد تصور یہ ہے کہ ” جنگ چھڑے بغیر بھی دشمن کو شکست سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔
” The ultimate excellence lies not in winning every battle but in defeating the enemy without ever fighting۔” (1)۔
سن زو کے اس تصور کو جدید دنیا میں اس حوالے سے خاصی اہمیت حاصل ہے جو مختلف جنريشن وارز کی شکل میں نمودار ہے۔ آج ارتقاء اور ترقی کے نتیجے میں جسمانی سے زیادہ ذہنی ترقی اہم ٹھہری ہے اور قیادت عہدے کی بجائے عمل کا نام ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کیا ففتھ جنريشن وار حقیقت ہے یا عوام کی بنیادی آزادیوں کو سلب کرنے کا ایک بہانہ ہے ۔۔۔۔؟
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح جنگ کے طور طریقے، حکمت اور یہاں تک کے بنیادی اسٹرکچر میں بھی فرق آگیا ہے۔ مثال کے طور پر آج ہم آبی جنگ، سائیکالوجیکل جنگ، بیانیوں کی جنگ، سائبر جنگ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے پیدا ہونے والے نت نئے ہتھیار متعارف ہو رہے ہیں۔ سیاست پر معیشت حاوی ہے۔ اس کے علاوہ کلچر، لٹریچر اور مذہب وغیرہ کی اہمیت مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔
جس طرح سن زو نے وو اسٹیٹ کو بہترین حکمت عملی فراہم کر کے استحکام بخشا تو اسی طرح ہندوستان میں کوتلیہ چانکیہ نے چندر گپت موریہ خاندان کی حکمرانی کو مضبوط بنایا۔ چانکیہ کے ہاں منصوبہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ایک مثالی بادشاہ کی تخلیق کیلئے سیاسی مفکر چانکیہ نے ایک بچے چندر گپت میں وہ مخصوص قائدانہ اوصاف ڈالنے کا تجربہ کیا جو اس کے خیال میں ایک بادشاہ کیلئے ضروری ہے۔ اس نے سیاست میں ذمہ داری کے ساتھ رازداری اور خفیہ حملوں کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ چانکیہ اپنے بادشاہ کو دشمن کے ان خفیہ جاسوسوں کی تہہ تک پہنچنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتا ہے “ایسے خفیہ کارندے، جن میں خفیہ کارندوں کی کوئی علامت نہ پائی جاتی ہو۔” (2)۔
مخصوص اہداف مقرر کرنے کے بعد اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے جذبہ کو بنیادی عنصر قرار دیتا ہے۔ چانکیہ کا تعلق بنیادی طور پر موجودہ پاکستان کے علاقے ٹیکسلا شہر سے تھا اور اپنی سرگرمیوں کا مرکز زیادہ تر خیبرپختونخواہ رہا۔ سنسکرت اور قدیم پشتو زبان میں قلعہ کو ” درگئی” کہا جاتا ہے۔ آج بھی پشاور سے لیکر پغمان تک اور لورالائی سے پکتيا تک درگئی کے نام سے کئی علاقے منسوب ہیں۔
نیکولو میکاویلی کا تعلق براعظم یورپ کے ملک اٹلی سے تھا جہاں اس نے فلورنس کے میڈویسی شاہی خاندان کے استحکام اور ترقی میں نمایاں خدمات انجام دیں ہیں۔میکاویلی نے سیاست اور اخلاقیات کو الگ الگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے نزدیک کسی بھی عمل کے جزیات کوئی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ صرف اس کے نتائج اس کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ مقرر کردہ ہدف کے حصول کیلئے اٹھائے گئے ہر قدم کو جائز قرار دیتا ہے خواہ وہ اخلاقی اور انسانی اعتبار سے کس قدر ناقص کیوں نہ ہو۔ اس کا سیاسی فلسفہ نتیجہ کو طریقہ پر مقدم رکھتا ہے۔ نیکولو میکاویلی نے ریاست کی استحصالی پالیسیوں اور حکمرانوں کے خوف طاری کرنے والے حربوں کو بلا خوف و خطر بیان کرتے ہوئے کہتا کہ
“it is better and more secure, if one must be wanting, to be feared than beloved۔” (3)۔
ویسے تو تینوں بادشاہ گر سن زو، چانکیہ اور میکاویلی کے تمام کام حکمران طبقے خاص طور پر اپنے اپنے وقت کے شاہی خاندانوں کیلئے وقف تھے جبکہ دور حاضر میں اس پورے نظام کو مسترد کر دیا ہے۔ آج بادشاہوں اور مذہبی پیشواؤں کو مضبوط کرنے کی بجائے انھیں زمین بوس کرنے کا سیاسی خلقی جذبہ ابھر رہا ہے۔ آج تاریخ بادشاہوں کی نہیں بلکہ عام انسانوں کی سرگرمیوں، اعمال، افکار، خواہشات اور ضروریات پر مشتمل نئی سوشل ہسٹری کو رقم کرنے کی ہے۔ طویل سیاسی ارتقاء اور خلقی شعور کا نتیجہ یہ نکلا کہ ” گوریلا جنگ کی نوعیت خالصتاً انقلابی ہے۔ جب تک سیاسی نصب العین سامنے نہ ہو گوریلا جنگ کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ عوام کی ہمدردی، تعاون اور امداد کا ان سیاسی مقاصد سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ گوریلا جنگ کی قوت کا دارمدار عوام پر ہے۔ اگر گوریلا جنگ عوام کی ہمدردی اور تعاون سے محروم ہو جائے وہ نہ تو باقی رہ سکتی ہے اور نہ ہی جاری رکھی جا سکتی ہے۔” (4) ۔
یہ درست ہے کہ گلوبل اور لوکل سیاست و معیشت پر مسلط سامراجی اور استحصالی عناصر کے خلاف جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے اور حاکم قوم کے ہاتھوں محکوم اقوام کا استحصال ختم کرنے کی آفاقی تحریک کو کامیاب سے ہمکنار کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک جانب بورژوا دانشوروں اور مفکرین کے علم، دانش، حکمت عملی اور سیاسی منصوبہ بندی سے مکمل آگاہی حاصل کیا جائے۔ اس ضمن میں سن زو، چانکیہ اور میکاویلی کی نظری بنیادوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تاکہ متبادل پرولتاری حاکمیت کا قیام یقینی بن سکے۔
ذہن نشین رہے کہ سیاسی فلسفہ کا اصل مقصد ہی عوام کی بنیادی آزادیوں کو تحفظ فراہم کرنا، سماجی انصاف کی پاسداری کو یقینی بنانا اور حقیر اقلیت کے تسلط سے ہمیشہ کیلئے عظیم اکثریت کو آزاد کروانا ہے۔ عوام جنگ کی ایک پہلو اگر قومی ہے تو دوسرا پہلو بین الاقوامی بھی ہے۔ “ولادیمیر لینن نے 1920 میں لکھا، تمام کمیونسٹ پارٹیوں کو چاہیے کہ زیردست اور پسماندہ اقوام (مثلاً آئرلینڈ، امریکی نیگروز وغیرہ) میں انقلابی تحریکوں کی بلاواسطہ مدد کریں،۔ اس نے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے اندر عظیم روسی شاونزم کو تنقید کا نشانہ بنایا، وہ نقطہ نظر جس نے اسے یوکرین کے الحاق اور بعد ازاں جارجیا میں جبری انضمام کی موثر تائید کرنے سے باز نہ رکھا۔ ٹراٹسکی اور روزا لکسمبرگ سمیت دیگر بالشویکوں نے قوم پرستی کی جانب زوردار معاندانہ پن کا مظاہرہ کیا۔” (5)۔
مسلسل تاریخی ارتقاء اور خلقی انقلابی شعور کے نتیجے میں آج اکیسویں صدی کا انسان مختلف سیاسی بیداری اور اجتماعی شعور کا حامل ہے۔ فرد سے ادارے بننے تک کا طویل پرخار اور پرخطر سفر طے کیا اور بڑی تیزی سے عوام کی حاکمیت کے تصور کو سچی بنیادیں فراہم کی گئیں جو ان تینوں شخصیات سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ زیادہ ترقی پسندی اور بشردوستى کا حامل بھی ہے۔ استعمار اور استثمار دونوں کو عوامی رنگ میں بدلنے کیلئے پشتونخوا وطن کی تحریک آزادی اور برصغیر پاک و ہند کی طبقاتی جدوجہد کے صف آول کے ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند کا صنوبری مفکورہ (قومی جمہوری انقلاب سے سوشلسٹ انقلاب تک) اور فقیر آف ایپی کی جنگی حکمت عملی سے بھی مدد و رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ جرمن فلاسفر نطشے کے ” سپر مین ” کا موازنہ پشتون افغان وطن کے سیف و قلم کے مالک خوشحال خان خٹک کے ” ننگیالی ” سے کرانا بھی اشد ضروری ہے۔
بہرحال عہد نو کی تعمیر و تشکیل کیلئے مفکر اعظم کارل مارکس، انقلابی قائدین ولادیمیر لینن ، جوزیف اسٹالن، چی گویرا اور چیرمین ماوزے تنگ جیسے مارکسی دانشوروں، سیاسی فلاسفرز اور عسکری ماہرین کی عملی اور عوامی جدوجہد کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور بعدازاں کریٹکل گروپ ڈسکشن کے ابھرتے ہوئے نوجوانوں کی جانب سے ان کی تفصیلات کا جائزہ لینے اور قلمبند کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔#۔
حوالہ جات :۔
1۔ The Art of War by Sun Tzu, penguin Classics, 2009, page 14۔
2۔ کوتلیہ چانکیہ، ارتھ شاستر، نگارشات پبلشر لاہور، 2021، صفحہ 372۔
3۔ The Prince by Niccolo Machiavelli, Collins Classics, 2011, page 75۔
4۔ مولف سلام صابر، گوریلا جنگ تاریخ و اصول، ناشر مہردر انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلیکیشن، 2011، صفحہ 17/18۔
5۔ ٹیری ایگلٹن، نظریاتی مباحث اور عہد حاضر، ناشر الفیصل، 2022، صفحہ 164۔،
2 Comments