پائندخان خروٹی
فکروقلم سے وابستہ ہر ذی فہم شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرے اور اپنی سوچ کے مطابق حق وباطل یا ظالم و مظلوم کا درست تعین کریں لیکن یہ حق کسی کو حاصل نہیں ہے کہ ایک ہی نقطہ نظر کا اطلاق یکساں طور پر نہ کریں۔ یعنی کسی فریق کو پرکھنے کیلئے ایک پیمانہ اختیار کیا جائے اور دوسرے کیلئے دوسرا۔ اس ضمن میں مشرق کے اکثر مصنفین مغربی حکمرانوں کی سامراجیت پر تو بےرحمانہ لکھتے اور تنقید کرتے رہتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے لیکن تاریخ کے ان اوراق پر نظر ڈالنے سے گریز کرتے ہیں جو خود مشرقی ممالک کے سلطنتوں اور حکمرانوں نے ظلم، استحصال، لوٹ کھسوٹ اور بیرونی ملک اور قوم پر جارحیت کا ارتکاب کیا ہو۔
پوسٹ کالونیل مصنفین کا یہ دہرا معیار تحقیق طلب اور قابل اعتراض ہے۔ علم ودانش اور انسانی شعور کا تقاضا ہے کہ استحصال، غلامی اور قبضہ گیری کی مخالفت ہر وقت اور ہر جگہ کی جائے، چاہیے سامراجی اور استحصالی عناصر کا تعلق مشرق سے ہوں یا مغرب سے۔
آج کل مشرق بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں پوسٹ کالونیل لٹریچر کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ پوسٹ کالونیل مصنفین اسے علیحدہ ایک تھیوری قرار دیتے ہیں۔ مابعد نوآبادیاتی ادب یا پوسٹ کالونیل لٹریچر سے وابستہ تمام مصنفین کی تحریروں میں یہ ابہام پایا جاتا ہےکہ نوآبادیات کا آغاز کہاں سے ہوا اور اس کا اختتام کیا ہے ۔۔۔۔؟ مذکورہ مصنفین کالونیل نظام کو صرف براعظم یورپ بلکہ برطانیہ اور انگلش زبان تک محدود کر دیتے ہیں تو ایسی صورت میں بہتر ہے کہ پھر اس کو پوسٹ کالونیل لٹریچر کی بجائے کامن ویلتھ لٹریچر کا نام دیا جائے۔ ان کے خیال میں کالونیلزم کا سلسلہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد شروع ہوا جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اس نظام کے آغاز کا کئی صدیاں پہلے ہندوستان میں باہر سے آنے والے آرین نسل کے “برہمن استعمار” کا غلبہ اور اسکے بعد “پرشین ایمپائر” ، “عرب ایمپائر“، ” ترک سلطنت عثمانیہ ایمپائر” اور “جاپانی ایمپائر” وغیرہ ٹھوس حقائق ہیں جن کے بارے میں پوسٹ کالونیل مصنفین خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ پوسٹ کالونیل لٹریچر کی اصطلاح بذات خود مبہم اور بےمعنی نظر آتی ہے۔
مغرب سے مستعار لی ہوئی اصطلاح پوسٹ کالونیل کے لغوی معنی اور تعبیری معنی تو یہی نکلتے ہیں کہ یہ مذکورہ اصطلاح پس آزادی/ آفٹر انڈیپنڈنس یا مابعد نوآبادیات کی اصطلاح ہے جبکہ خود پوسٹ کالونیل مصنفین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ کالونیل نظام اب بھی برقرار ہے۔ ایسی صورت میں پوسٹ کا صیغہ استعمال کرنا بےمعنی ہو جاتا ہے اور پوسٹ کے لاحقہ کے بعد ہائفن کا استعمال بھی ایک بہانہ ہے۔
پوسٹ کالونیل لٹریچر سے وابستہ مصنفین یورپ کے چند سامراجی ممالک کے سامراجی کردار کی خاطر پورے براعظم یورپ کی زبانوں، سیویلائزیشن اور ہر چیز کو ہدف تنقید بناتے ہیں جو غیرعلمی اپروچ ہے۔ ان کے خیال میں اُن کی زبانیں بھی جبر و استحصال کا ذریعہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انگلش زبان برطانوی مستعمرہ اور غلام بنانے والی اقوام پر اپنی زبان انگلش مسلط کرنے کیلئے تمام مادری زبانوں کا گلا گھونٹ لیا ہے جس کو وہ قاتل زبان اور لسانی سامراجیت قرار دیتے ہیں جبکہ براعظم ایشیا کے مختلف خطوں میں مخصوص زبانیں، فارسی، عربی، ہندی اور اردو پورے خطے کے مختلف قوموں اور قومیتوں پر لاگو کرنے کا سلسلہ آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔
لیکن پوسٹ کالونیل مصنفین یہاں کی تمام مادری زبانوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے مادری زبانوں کا انٹرنیشنل ڈے اسی نسبت سے مقرر کیا ہے۔ پہلے ہندی اور اردو تنازعہ اور بعد میں اردو کے مقابلے میں بنگالی زبان کی حیثیت منوانے کیلئے بنگالیوں کو جدوجہد کرنی پڑی جس میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نیچرل اور سوشل سائنسز کی ہر تھیوری اپنی اصطلاحات اور معروضی صفات سے پہچانی جاتی ہے جبکہ پوسٹ کالونیل تھیوری وضع کرنے میں اپنے نام سے لیکر متعلقہ اصطلاحات تک تمام تراکیب مختلف یورپی زبانوں سے مستعار لی ہیں۔ اسطرح پوسٹ کالونیل تھیوری کا سارا شور صرف چند مشرقی ممالک میں ہے جبکہ ہر تھیوری اپنی آفاقیت رکھتی ہے، اپنے منطقی تسلسل کے باعث اس کو آئیڈیالوجی پر فوقیت حاصل ہے اور تھیوری تو باقاعدہ سائنسی اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ تھیوری کا اطلاق دنیا بھر میں اور مختلف اوقات میں یکساں ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پوسٹ کالونیل تھیوری کا اطلاق ہندوستان اور اس کے آس پاس کے ہمسایہ ممالک پر بھی نہیں ہوتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پوسٹ کالونیل تھیوری نہیں بلکہ ایک نقطہ نظر تو ہو سکتا ہے لیکن اسے باقاعدہ تھیوری قرار دینا کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔
پوسٹ کالونیل مصنفین اپنا حجم اور حامیوں کی تعداد بڑھانے کیلئے دنیابھر سے مارکسی دانشوروں اور انٹرنیشنل ڈائسپورا کو بھی اپنے قریبی ساتھی گردانتے ہیں۔ مثلاً یہ لوگ انقلابی دانشور فرانز فینن کے سامراج مخالف تعلیمات سے تو استفادہ کرتے ہیں اور انکی کتاب کو بعض حلقے “بائبل آف نیشنلزم” بھی قرار دیتے ہیں لیکن فرانز فینن کی تحریروں کے ان حصوں کو پھر نظرانداز کر دیتے ہیں جن میں فرانز فینن نے قومی آزادی اور قومی شناخت کی بحالی کیلئے سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کو لازمی قرار دیتا ہے۔ فرانز فینن تو باغی کی زندگی کی ضمانت باغی کا ہتھیار سمجھتا ہے۔ اس سے پوسٹ کالونیل مصنفین نظر چراتے ہیں۔ گویا اورینٹل ازم، سبالٹرن اسٹڈیز کے پرچارک اور متعلقہ پروفیسرز حضرات ایسے انقلابی دانشوروں کو اپنے ساتھ رکھنا تو چاہتے ہیں لیکن ان کی عملی جدوجہد، ارتقاء و ترقی کے مخالف قوتوں کو خلقی رنگ میں بدلنے اور معاشی غلامی سے نجات کے مسلح طریقوں پر آنکھ بند کر لیتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یونائٹیڈ انڈیا اور سرزمین عربیہ کے ٹاپ ٹین پوسٹ کالونیل مصنفین مغربی ممالک سے جدید تعلیم، ڈگری اور روزگار تو حاصل کرتے ہیں، جمہوریت اور نظام حکومت کے حوالے سے تمام ویسٹرن اسٹرکچرز کو قبول کرتے ہیں، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے استفادہ بھی کرتے ہیں سبالٹرن سٹیڈیز کے سرکردہ اشخاص رنجیت گوہا، گائتری چکرورتی اسپیواک اور ہومی کے بھابھا وغیرہ تو ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی اپنے بچوں سمیت یورپ اور امریکہ کی عیش و عشرت والی زندگی کو انجوائے کر رہے ہیں جبکہ دوسرے غریب ہم وطنوں کو اپنے کلچر، لٹریچر اور ریلجن سے پیوستہ رہنے کی مسلسل تاکید کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ یہ حضرات اپنے بچوں کو تعلیم بھی امریکہ اور یورپ کے تعلیمی اداروں سے ہی دلواتے ہیں۔ آج بھی یورپ اور امریکہ کو “محفوظ جنت” تسلیم کرتے ہیں گویا پوسٹ کالونیل اور سبالٹرن اسٹڈیز کے مصنفین خود یورپین لائف اسٹائل کے دلدادہ ہیں لیکن پھر بھی اپنی تحریروں میں مغربی لائف اسٹائل سے لطف اندوز ہو کر مغربی ممالک کو ہدف تنقید بنا کر علم وادب کی دنیا میں اپنا قد بڑھا کرتے ہیں۔ انگلش کو قاتل زبان کہلانے والے مصنفین آج بھی اپنی مادری زبان کی بجائے انگلش میں ہی لکھنے کو ترجیح کیوں دیتے ہیں ۔۔۔۔؟ سردست اس کا جواب اپنے قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔
یہ ایک المیہ ہے کہ پوسٹ کالونیل مصنفین میں سے کسی نے بھی سرزمین عربیہ میں غیرجمہوری بادشاہتیں، ہندوستان میں مروج ذات پات کا فرسودہ نظام، گاو ماتا، اور مشرق کے اکثر ممالک میں مروج خرافات، توہمات، ون جینڈر پولیٹکس اور صنفی امتیاز پر قلم اٹھانے کی کھبی جسارت نہیں کی۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں آج بھی چور کی نشاندہی کیلئے “جلتے انگاروں” پر چلانے کی رسم موجود ہے، اکثر اوقات بعض علاقوں میں اپنی شریک حیات سے نجات حاصل کرنے کیلئے بےبنیاد “کاروکاری” کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں بیٹی یا بہن کی شادی محض جائداد بچانے کیلئے “مقدس کتاب” سے کرائی جاتی ہے۔
قتل کے تنازعہ میں معصوم بیٹی یا بہن کو “ونی” کرنے کا رواج عام ہے۔ پنجاب میں سیاست اور معیشت پر ” برادریوں” کا استحصالی تسلط قائم ہے، ہندوستان میں شوہر کے مرنے پر بیوی کو “ستی” کرنے کی رسم یعنی زندہ جلانا اکیسویں صدی میں بھی برقرار ہے۔ مختصر یہ کہ ہندو سماج میں کاسٹ سسٹم کے تحت غریب انسانوں پر جو ظلم روا رکھا جاتا ہے مسلم معاشرے میں یہی امتیاز، محکومیت اور زیادتی کلاس سسٹم کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
کالونیل نظام مخصوص مادی بنیاد رکھتا ہے۔ براعظم یورپ میں سب سے بڑی تبدیلی رینسانس کے ظہور پذیر ہونے سے پاپائیت اور بادشاہت کے خاتمے کیلئے راہ ہموار ہوئی۔ مغربی ممالک نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ترقی کی، قومی ریاستوں کو مضبوط بنیادیں فراہم ہوئیں اور ملکی معیشت کو بہتر اور جدید بنانے میں حصہ لیا۔ صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد ہی وہ اس کے قابل ہوئے کہ پسماندہ اور کمزور معاشروں کو انہوں نے اپنی کالونی بنانے کا سلسلہ جاری کیا۔ یورپی سامراجی قوتوں کی جدید تیکنالوجی، مضبوط ملٹری اور معاشی استحکام کے پیچھے ان کی جدید سیاست اور ریاست کارفرما تھیں اور اب بھی ہیں۔ نوآبادیاتی قوتوں کی طرف سے مختلف ممالک اور قوموں کو غلام بنائے جانے کی زیادتی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا جو ایک ظالمانہ اور استحصالی عمل ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مغربی اقوام سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی میں آج بھی سب پر برتری رکھتی ہیں۔ ان کے اس عمل اور متعلقہ سرگرمیوں کو پولیٹکل اکانومی، ملٹری اور سائنس کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے جبکہ پوسٹ کالونیل مصنفین ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر کلچر اینڈ لٹریچر کا لیبل لگاتے ہیں۔
طبقاتی سماج میں طبقاتی جدوجہد سے الگ تھلگ کلچر اور لٹریچر صرف حکمران طبقے کی خدمت گزار ہوتی ہیں اور نام نہاد مڈل کلاس کے شاعروں اور ادیبوں کیلئے ایک بہترین پناہ گاہ بھی ہے۔ پوسٹ کالونیل مصنفین عام طور پر اپنی کتابوں کے ذریعے حکمرانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور ان سے انعام و اکرام حصول کرتے ہیں جن کیلئے حکمران انھیں غیرمعمولی مراعات سے بھی نوازتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب یہی مصنفین اپنے لوگوں پر یہ احسان بھی جتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قومی شناخت اور مادری زبان کیلئے کام کیا۔ اس طرح پوسٹ کالونیل لکھاری ایک تیر سے دو نشانے باندھ لیتے ہیں اور خود کو سب کا دوست بنا کر ذاتی مفاد اور تحفظ حاصل کرتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے علم و سیاست کا ایک معتبر نام اور طبقاتی جدوجہد کے ناقابل فراموش ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند نے دو ٹوک الفاظ میں بہت پہلے واضح کر دیا تھا کہ مکمل نجات کیلئے ہمیں دو مسلح جنگیں لڑنی ہیں ایک سامراج کے خلاف اور دوسری ان کے مقامی گماشتوں کے خلاف۔ گویا “صنوبری سیاسی فلسفہ” کا اصل راز استعمار اور استثمار کے خلاف مسلح جدوجہد میں پنہاں ہے۔ پوسٹ کالونیل لکھاریوں نے نہ تو کالونیلزم کے خلاف جدوجہد میں عملی حصہ لیا اور نہ ہی آج وہ اپنے بالادست طبقہ کے خلاف عملی جدوجہد میں حصہ لینے کے قائل ہیں۔ ان میں اکثر آج بھی مغربی ممالک اور خاص طور سے پایہ تخت لندن اور واشنگٹن کو اپنی “محفوظ جنت” سمجھتے ہیں اور بچوں کا مستقبل بھی انھیں مغربی ممالک سے وابستہ کرتے ہیں۔ حالانکہ پرولتارين کی جدوجہد سے جڑے بغیر نہ تو عوام کا خلقی لٹریچر پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی بامقصد ادب پارہ تیار ہو سکتا ہے۔ گویا اس وقت بھی پوسٹ کالونیل مصنفین کانٹوں کا تاج اپنے سر پر رکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
پوسٹ کالونیل لٹریچر کی ایک بڑی کمی یہ ہے کہ کالونیل سسٹم کے خاتمے اور قومی آزادیوں کیلئے بالشویک انقلاب 1917 اور سوویت یونین کے قائدانہ کردار کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ مغربی ممالک کے غلام ممالک کا یہ ایک افسوسناک پہلو بھی ہے کہ سوویت یونین کے انقلابی کردار کے باعث دنیابھر کی محکوم، محروم اور مظلوم قوموں نے بالخصوص برطانیہ کے غلامی سے نجات حاصل کی پھر انہی آزادی حاصل کرنے والی اقوام اور ممالک میں سے اکثر نے نہ صرف سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کی مخالفت کی بلکہ مغربی سامراج کا مہرہ بنے رہے ہیں۔
پوسٹ کالونیل مصنفین کی ایک اور خامی یہ بھی کہ وہ نوآبادیات کا ذکر کرتے ہوئے ایسی آزاد قوموں اور خودمختار ممالک کو بھی پوسٹ کالونیل لٹریچر کے تناظر میں دیکھتے اور پرکھتے ہیں جو کہ تاج برطانیہ کے غلام یا باقاعدہ کالونی نہیں رہے۔ یہ ان آزاد ممالک کی سنہری تاریخ کے ساتھ مذاق اور ان غیور قوموں کے غیور فرزندوں کے آزاد منش مزاج کی براہ راست توہین کے مترادف ہے۔
محکوم اور کمزور لوگ سیاست میں اخلاق، کلچر اور پرامن طریقہ پر زور دیتے ہیں جبکہ حاکم اور طاقتور لوگ صرف منافع، اقتدار اور نتیجہ چاہتے ہیں۔ پولیٹکل اکانومی کے نظریات سے نابلد پوسٹ کالونیل مصنفین ثقافتی رشتوں کو طاقت کے رشتے سمجھتے ہیں جبکہ کسی بھی معاشرے کی کلیدی سچائی اسکی معاشی اساس ہوتی ہے اور اس اساس کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہی کلچر، لٹریچر، اخلاقیات اور بالائی ڈھانچہ کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یعنی ثقافت سے سیاست یا معاشی نظام پیدا نہیں ہوتا بلکہ ثقافت، سیاست اور بالائی ڈھانچہ کے تمام عناصر کی اساس ملک میں موجود معاشی نظام/موڈ آف پروڈکشن ہے۔ واضح رہے کہ کلچر سرمایہ داروں کیلئے منافع کا ذریعہ ہے جبکہ عوام کیلئے محض سیر و تفریح کا باعث ہوتا ہے پھر ایک بات اور یہ ہے کہ کلچر چاہیے قومی یا غیرملکی اس میں غریب عوام محکوم اور مغلوب ہی رہتے ہیں۔ حکمران طبقہ اور رجعتی عناصر عوام کو ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں میں الجھا کر کثافت پھیلاتے ہیں اور شاعر، ٹیچر، میڈیا پرسن، سوشل ورکر، سینئر سیٹزن، شاعر اور ادیب وغیرہ کو اپنے مفاد کے حصول کیلئے بطور آلہ کار استعمال کرتے ہیں۔
پوسٹ کالونیل اسٹڈیز ایک ایسا غیرضروری موضوع ہے جس کا تعلق نہ موجودہ درپیش عوامی مشکلات سے ہے، نہ عصر حاضر کی سامراجی قوتوں سے ہے اور نہ ہی اس میں موجودہ بالادست طبقہ کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام طاقتور مراکز کو چھوڑ کر دو سو سال پرانے واقعات پر طبع آزمائی کر کے خود کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ دو سو سال پرانے مردوں کو اکھیڑنے سے بہتر ہے کہ زندہ انسانوں کے سلگتے مسائل پر توجہ دی جائے اور ارتقاء کے موجودہ مراحل اور لمحہ بہ لمحہ رقم ہوتی ہوئی تاریخ کا حصہ بنا جائے۔
پوسٹ کالونیل مصنفین ایک جانب مرض کی تشخیص میں ناکام ہیں اور دوسری طرف اسکا حل بھی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ سامراجی دور کے اثرات و علاماتِ کو ختم کرنے کو ہی وہ مقدم جانتے ہیں اور لوگوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کی طرف واپس لوٹ جائیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ گزشتہ دو تین سو سال کے دوران مختلف شعبوں میں خاص طور پر سائنسی تعلیمات، ایجادات، سیاسی و معاشی نظریات اور جدید تحقیقات کسی مخصوص جغرافیہ، ملک یا قوم کی میراث نہیں ہیں بلکہ یہ تمام بنی نوع انسان کے مشترکہ تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی ترقی اور ارتقاء کے قوانین کو قبول کیا جائے اور ماضی کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے لمحہ موجود یعنی اپنے حال کو اسطرح منظم کیا جائے کہ ہم بہتر روشن اور استحصال سے پاک صحت مند معاشرہ کی طرف بڑھ سکیں۔
واضح رہے کہ پل پل بدلتی دنیا میں کسی بھی قوم کی کلچر بدلتے تقاضوں اور انسانی ضرورتوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے کلچر کے ڈھکوسلہ سے باہر آنا ہوگا۔ ہم برصغیر پاک و ہند اور سرزمین عربیہ کے لکھاریوں سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اورینٹل ازم کے علمبردار کُرد قوم کے قومی مسئلہ پر کیوں خاموش ہیں کہ اس وقت کُرد قوم کی آزادی کا مسئلہ اپنے چار برادر مسلم ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہیں اور فرزندان کُرد قوم کسی طرح بھی ان کا ہدف تنقید براعظم یورپ اور مغربی ممالک نہیں ہیں۔
آج کے موضوع پوسٹ کالونیل مصنفین کا تنقیدی جائزہ لینے کا خلاصہ یہ ہے کہ براعظم یورپ کے استعماری ممالک کے سامراجی کردار کے ساتھ ساتھ ان کے مترقی اور اصلاحی کردار کو بھی زیر بحث لائیں۔ برصغیر پاک و ہند میں سرمایہ دارانہ نظام کو فرسٹ ٹائم متعارف کرانے، برصغیر پاک و ہند کے تمام منتشر راج واڑہوں کو ایک متحدہ ریاست کی شکل دینے، اس کے کوہ و دامن میں ریلوے لائن بچھانے، نہری نظام کو یقینی بنانے، جدید یونیورسٹیز کی داغ بیل ڈالنے اور سمندری تجارت کو عروج تک پہنچانے کا سہرا بھی ان مغربی ممالک کے سر ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ سامراجی دور کے مرتب ہونے والے منفی اثرات اور علامات کو ختم کرنے کیلئے سامراج اور اس کے مقامی گماشتوں کے ڈسکورس اور بیانیہ کی بجائے محکوم اقوام اور مظلوم طبقات کے پولیٹکل ڈسکورس اور بیانیہ کو وضع کیا جائے اور اسے آگے بڑھایا جائے۔ گویا بورژوا ڈسکورس اور بیانیہ کا متبادل پرولتارين ڈسکورس اور بیانیہ ہی ہیں۔
♠