بیرسٹر حمید باشانی
گزشتہ کچھ عرصے ہندوستان میں تاریخی عمارات، سڑکوں اور باغات وغیرہ کے نام بدلنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس بات کو لیکر ہندوستان کے قدیم حکمرانوں خصوصاً مسلم حکمرانوں کی تاریخ کے بارے میں ایک نئی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ حکمران کون لوگ تھے کہاں سے آئے تھے۔ ان کا طرز حکمرانی کیا تھا۔ مقامی زبانوں، مذاہب اور طرز زندگی کے بارے میں ان کے کیا رویے اور پالیسیاں تھیں۔
ان حکمرانوں یا حملہ آوروں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہم ان حکمرانوں کی طرز حکومت اور نظام حکومت کو موجودہ دور کی طرز حکمرانی کے جدید اصولوں کی کسوٹی پر رکھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ ہمارے دور میں ریاستوں کا تصور بدل گیا ہے۔ بیشتر ریاستیں کثیر الا ثقافتی اور کثیر النسلی ریاستیں ہیں۔ ان ریاستوں کے ساتھ سیکولرازم، جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف جیسے جدید ترین تصورات جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم جس زمانے کی بات کر رہے ہیں، اس میں مذہب ہر جگہ نہ سہی لیکن اکثر سلطنتوں اور ریاستوں میں ایک اہم ترین عنصر رہا ہے۔ ان زمانوں میں مذہب صرف لوگوں کی ذا تی زندگیاں ہی نہیں، بلکہ اجتماعی زندگی میں حکومتی کاروبار کے علاوہ تجارت، سرکاری ٹیکس اور زندگی کے دیگر کئی شعبوں میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
یہ بات صرف قدیم ہندوستان تک ہی محدود نہیں، اگر ہم آٹھویں سے بارہویں صدی کے عجیب و غریب دور کو ایک طرف رکھ کر صرف سولہویں اور ستر ہویں صدی کی یورپ کی تاریخ دیکھیں، تو ہمیں مذہب ہر جگہ کاروبار سلطنت میں ایک غالب عنصر کے طور پر نظر آتا ہے۔ اس زمانے مِیں جو قوانین بنائے گئے، یا ریاستوں کی طرف سے امن اور جنگ کے سوال پر جو بڑے بڑے فیصلے کیے گئے، وہ زیادہ تر مذہبی خیالات اور نظریات کے زیر اثر تھے۔ اس زمانے میں کئی ریاستوں میں یہ خیال بھی عام تھا کہ بادشاہ کا جو مذہب ہے وہی رعایا کا مذہب بھی ہونا چاہیے۔ اس خیال کو لے کر یورپ میں اس سے اختلاف کرنے والے لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ ظلم روا رکھا گیا۔ ان کو قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں۔ اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔
اس کی ایک کلاسیکل مثال بادشاہ ہنری چہارم کی ہے ، جس نے با ضابطہ طور پر یہ حکم جاری کیا تھا کہ یہودیوں کو اس کی سلطنت سے نکال دیا جائے۔ اس طرح یورپ میں ریاست اور حکومت کی سرپرستی میں جو فرقہ وارا نہ فسادات اور قتل غاری ہوئی۔حکمرانوں کی سرپرستی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان جو خون خرابہ ہوا وہ بھی اس اہم مثالیں ہیں۔اس طرح کی مثالیں اس وقت کے ہندوستان میں بھی موجود ہیں۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ ہر حکمران کا طرز عمل اور پالیسی مختلف رہی ہے۔ کچھ حکمرانوں نے ہندوستان میں مذہبی رواداری اور درگزر کی پالیسی اپنائی۔ کچھ نے سخت گیر اور بنیاد پرست رویوں کا اظہار کیا۔ ہندوستان میں ان حکم رانوں کو لے کر جو رد عمل ہو رہا ہے، وہ ان ہی پالیسیوں پر رد عمل ہے۔
قدیم ہندوستان اور آج کے برصغیر پاک و ہند میں جب باہر سے آنے والوں کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد وہ عام لوگ نہیں ، جو مختلف وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں اور دوسرے ممالک میں جا کر آباد ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، جو دوسرے ممالک سے آکر آباد ہوئے۔ لیکن آج کل کی فضا میں جب سیاسی سطح پر باہر سے آنے والوں کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں۔ یہ وہ طاقت ور گروہ ہیں، جو مختلف مقاصد اور عزائم لیکر ہندوستان میں آئے۔
ان میں پہلی قسم ان لوگوں کی ہے ، جو یہاں پر بطور حملہ آور داخل ہوئے۔ ان لوگوں نے یہاں مختصر لڑائیاں اور جنگیں لڑیں۔ مال غنیمت سمیٹا اور واپس اپنے اپنے علاقوں میں چلے گئے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں، جو ہندوستان میں داخل ہوئے ۔ یہاں کئی چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑیں۔ مقامی حکم رانوں سے تخت و تاج چھیننے، اور اس کے بعد واپس جانے کے بجائے مستقل طور پر یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان لوگوں نے یہاں کے کئی مقامی طور و طریقے اپنائے۔ اپنے رسم و رواج اور زبان و ادب کو یہاں متعارف کروایا اور رفتہ رفتہ یہاں کی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گئے۔
مسلمانوں کی برصغیر میں موجودگی کا آغازتو712میں سندھ اور ملتان کی فتح سے ہو گیا تھا۔ یہ بنو امیہ کی سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا، جب فتوحات کی وجہ سے یہ رقبہ کے اعتبار سے تاریخ کی بڑی سلطنت بن گئی تھی۔ بنو امیہ کے زمانے میں سندھ اور ملتان فتح ہوئے، لیکن ہندوستان میں پہلی باقاعدہ حکومت معزالدین محمد غوری نے قائم کی۔ اس نے افغانستان سے اپنی عمل داری کو مشرق کی طرف پھیلایا اور آگے چل کر برصغیر میں مسلم حکمرانی کی داغ بیل ڈالی۔سلطان محمد غوری کو شہاب الدین غوری کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
سلطان محمد غوری ترک نثراد تھے ، جنہوں نےسنہ 1192 میں دلی فتح کیا تھا۔غوری کی اس کامیابی نے راجپوت فوج کو شکست دی، جس کے بعد ہندوستان کے پہلے حکمران قطب الدین ایبک کی حکمرانی کے لیے رہ ہموار ہوئی۔ محمد غوری کو جہلم کے ایک نواحی قصبے دھمیاک میں پندرہ مارچ1206 میں قتل کر دیا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ڈاکٹر عبد لقدیر نے غوری کی یاد گار تعمیر کی تھی۔ اس یاد گار کا انتظام اب پنجاب آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے۔ کہتے ہیں1990 تک یہاں غوری کی ایک سادہ سی قبر تھی، جس پر کچھ مقامی لوگ د یے جلاتے تھے۔
اس گاؤں کا ایک آدمی 1994 میں ڈاکٹر عبدلقدیر کا ڈرائیور بھرتی ہوا۔ اس نے ڈاکٹر عبدل قدیر کو شہاب الدین غوری کی اس گاوں میں آمد اور تین افراد کے ہاتھوں اس کے قتل کی کہا نی سنائی، جس کے بعد ڈاکٹر قدیر نے یہ یاد گار تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس زمین کی ملکیت ریٹائرڈ میجر جنرل نواب زادہ شیر علی خان پٹودی کے پاس تھی۔ ان کا تعلق بالی وڈ سٹار سیف علی خان کے خاندان سے ہے۔ غوری کے نام پر پاکستان کے تین میڈیم رینج میزائلوں کا نام بھی رکھا گیا ہے۔
جیسا کے پہلے عرض کیا سلطان محمد غوری کی وجہ سے قطب الدین ایبک بھارت کا پہلا مسلمان بادشاہ بنا۔ قطب الدین بنیادی طور پر ایک غلام تھا، جس کو بچپن میں اغوا کر کہ فروخت کیا گیا۔ قطب الدین کو ایک وقت میں غوری نے خرید لیا، جو ترقی کر کے ہندوستان میں اس کی فوج کا جرنیل اور اس سب سے قابل اعتماد شخص بن گیا۔ اس نے قدیم انڈیا میں خاندان غلاماں کی شاہی سلطنت قائم کی۔ دلی کی فتح کے بعد غوری نے ہندوستان کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔لیکن یہاں اس نے اپنی براہ راست عمل داری کے بجائے تمام تر اختیارات قطب الدین ایبک کو سونپ دیے ، جس کی وجہ سے وہ ہندوستان کا پہلا مسلم حکمران بن گیا۔ اس نے شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد غزنی اور غور سے قطع تعلق کر کے ہندوستان میں اپنی مکمل خود مختار حکومت قائم کی۔
قطب الدین ایبک کو ہندوستان پر لمبا عرصہ حکمرانی کا موقع نہیں ملا۔ جو وقت بھی اسے میسر آیا وہ اس نے اپنی خود مختاری برقرار رکھنے کی فکر میں گزارا۔ وہ شمال مغرب کے بارے میں زیادہ فکر مند تھا، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنا زیادہ تر وقت دلی کے بجائے لاہور میں گزارا قطب الدین ایبک1210 میں گولف کھیلتے ہوئے حادثے کا شکار ہو کر وفات پا گیا، اس کا مقبرہ لاہور میں انار کلی بازار کے قریب ہے۔
♠