پسماندہ اور ترقی یافتہ قوموں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ پسماندہ قوم کسی ایک شخصیت کو نجات دہندہ سمجھنے لگتی ہے جبکہ ترقی یافتہ قوم اپنے روشن مستقبل کو مشترکہ سیاسی تنظیم اور قومی اداروں سے مشروط کرتی ہے۔ اس لئے ترقی پسند معاشرہ میں کسی سربراہ کے مر جانے کے باوجود اُن کا قومی کاروان مسلسل آگے بڑھتا رہتا ہے جبکہ پسماندہ معاشرے میں اگر ان کا کوئی سرکردہ مر جائے تو پوری قوم اپنے آپ کو یتیم قرار دیتی ہے، مایوسی پھیل جاتی ہے، سست روی غالب آجاتی ہے اور خوداعتمادی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے جو ایک انتہائی غیرعقلی اور غیرسیاسی سوچ واپروچ کی غمازی ہے۔
براعظم ایشیا بالخصوص مسلم ممالک میں لوگ اپنی معاشی غلامی، سیاسی محکومی، سماجی محرومی اور فکری پسماندگی کے خاتمے کیلئے کسی ایسی معجزاتی شخصیت کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کسی دن ایسا فرشتہ صفت انسان نازل ہوگا جو محض ایک جنبش سے فوری طور پر قوم کو درپیش تمام مصائب ومشکلات حل کرینگے۔ عوام معاشی غلامی سے نجات حاصل کر کے ہر قسم کے ظلم، جبر اور استحصال سے پاک معاشرہ خودبخود قائم ہو جائے گا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تاریخی عمل کا عامل فرد نہیں بلکہ مستحکم سماج یا قوم یا منظم نظریاتی تنظیم ہوتی ہے۔ فرد واحد کبھی بھی نجات دہندہ نہیں ہوسکتا۔ کسی نجات دہندہ کا انتظار ایک ایسی تباہ کن سوچ ہے جس سے عوام میں خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے، لوگوں میں اپنے فرائض سرانجام دینے کا احساس کم ہونے لگتا ہے، ویسے بھی اجتماعی تبدیلی کیلئے مزاحمت کے تسلسل کو جاری رکھنا پڑتا ہے، تخلیق و تعمیر کا غلبہ قائم کرنا ہوگا، پل پل بدلتی دنیا میں محفوظ شدہ اور اور مسترد شدہ اقدار کے فرق کو واضح کرنا ہوگا۔
ذہن نشین رہے کہ سیاسی معیشت پر مسلط غنڈوں کو خلقی رنگ میں رنگنے کیلئے بہتے ہوئے پانی پر نام لکھنے اور ہوا میں قلعے بنانے کی بجائے اپنے خون جگر کو جلانا پڑتا ہے کیونکہ جہد مسلسل کے بغیر درخشندہ مسقبل کا ہر خواب، خواب ہی رہ جاتا ہے۔ واضح رہے کہ کبھی کبھار فرد کے مقابلے میں دوسرا نیا فرد یا کچھ افراد مسلط کرنے کی غیر محسوس انداز میں سازش کی جاتی ہے اور سیاسی تنظیم کے کردار سے انکار کیلئے راہ ہموار کی جاتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ انقلاب اجتماعی مگر شعوری و عملی جدوجہد کا متقاضی ہے۔ پولیٹکل اکانومی کے تناظر میں نافذ العمل سسٹم اینڈ سٹیٹس کو کی حقیقی تبدیلی عوام کی شعوری کاوشوں اور قربانیوں سے مشروط ہے جس میں معاشرے کے ہر ذی فہیم شخص نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔
فرد واحد تو اکیلا نجات دہندہ نہیں ہو سکتا مگر کوئی متحرک لیڈر مزاحمت اور تبدیلی کے عمل کو اپنے کردار سے تیز کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں انقلابی نغمہ کو اکیلا گنگنانے کی بجائے معاشرے کے تمام ذہی فہم اور روشن فکر افراد کو نغمہ زن بنانا لازمی ہے۔ واضح رہے کہ فرد کے مقابلے میں اپنا دوسرا فرد مسلط کرنا بھی حماقت ہے، استحصال سے پاک معاشرہ کی تشکیل میں یا تاریخ کے دھارے کو بدلنے میں کسی بھی فکر یا عمل انگیز شخص کا کردار بہت اہم ہوتا ہے مگر تاریخ کے سارے عمل کو کسی حکمران یا چند اشخاص سے منسوب کرنا سراسر بےانصافی ہے۔
پلیخانوف نے بجا فرمایا ہے کہ“اشخاص تاریخ کے عمل کو سمجھ کر اور آنے والی رفتار کو پہچان کر معاشرے کی رہنمائی کرتے ہیں اور عوامی رائے اور عوامی قوتوں کو جمع کر کے انہیں بروئے کار لاتے ہیں” ۔
جدلیاتی فلسفہ کے تناظر اب یہ سمجھنا آسان ہوگیا کہ انسان بیک وقت تاریخ کا خالق بھی ہیں اور خارجی قوانین کے تابع بھی ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کو اس میں تضاد نظر آتا ہے یا وحدت۔۔۔؟
♣