سید خرم رضا
جمعیۃ علماء ہند (محمود مدنی گروپ) کا تین روزہ 34واں اجلاس عام کل رام لیلا میدان میں اختتام پذیر ہوا۔ جبکہ جمعیۃ دو گروپوں میں تقسیم ہے اور دونوں گروپ اب بہت حد تک ایک ساتھ نظر آتے ہیں لیکن دونوں گروپوں کے ضم ہونے پر کوئی حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوا ہے۔ مولانا ارشد اور ان کے بھتیجے مولانا محمود مدنی اب ایک دوسرے کے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں اور بظاہر پہلے جیسی ناراضگی نظر نہیں آتی۔ محمود مدنی والے گروپ کے اجلاس عام میں مولانا ارشد نے شرکت کی اور اپنے خطاب میں انہوں نے سماج میں جو باتیں ہو رہی ہیں اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، لیکن ان کے اظہار خیال نے مدعو کئی سنتوں کو ناراض کر دیا۔ احتجاج میں جین سنت آچاریہ لوکیش منی کی قیادت میں کئی سنتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے لوکیش منی نے کہا ’’مولانا نے اپنے خطاب کے ذریعہ سدبھاؤنا اجلاس کو پلیتا لگا دیا‘‘۔
واضح رہے تین روزہ اجلاس میں جہاں ملک کو درپیش مسائل پر گفتگو ہوئی وہیں مسلمانوں سے جڑے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی۔ مسلمانوں سے جڑے مسائل پر جہاں مسلم خواتین کو وراثت میں حصہ دینے پر زور دیا گیا وہیں اس بات پر بھی شرمندگی کا اظہار کیا گیا کہ مسلمانوں میں پسماندہ برادریوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ پسماندہ ذاتوں کے تعلق سے وزیر اعظم نے بی جے پی کے قومی ایگزیکٹو کے اجلاس میں بی جے پی کارکنان پر زور دیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے رابطہ بڑھائیں اور اس میں پسماندہ مسلمانوں پر خاص کر زور دیا ہے۔ وزیر اعظم کے بیان کے بعد اس اجلاس کا انعقاد اور اجلاس میں پسماندہ ذاتوں کے تئیں رویہ پر اظہار شرمندگی کو جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن مولانا ارشد مدنی کی تقریر کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مشاعرہ لوٹ لیا کیونکہ ہر جانب ان کے خطاب کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔
مولانا ارشد مدنی جن کے خطاب سے ناراض ہو کر آچاریہ لوکیش منی نے جو احتجاج درج کرایا اس نے مسلمانوں میں مولانا کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا۔ آچاریہ لوکیش منی نے مولانا کے آدم اور منو کے بیان پر کہا کہ وہ ایسی کہانیاں بہت سنا سکتے ہیں اور انہوں نے مولانا کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ مولانا کو دعوت دیتے ہیں کہ چاہے وہ آکر ان سے دہلی میں مباحثہ کر لیں یا وہ خود سہارنپور یعنی دیوبند آ جاتے ہیں اور تمام پہلوؤں پر بحث کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کے بیانات نے اس اجلاس کے مقصد یعنی سدبھا ؤنا کو پلیتا لگا دیا ہے۔
واضح رہے مولانا ارشد مدنی نے اپنے خطاب میں دائیں محاذ کے گھر واپسی کے بیانات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ باتیں موجودہ اقتدار سے پہلے ہندوستان میں نہیں ہوتی تھیں۔ انہوں نے اس پر مزید بولتے ہوئے کہا کہ قرآن آسمانی کتاب ہے اور آدم پہلے انسان ہیں جن کو انگریزی میں ایڈم کہتے ہیں اور ہندی میں منو کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آدم کی اولاد کو آدمی کہتے ہیں اور منو کی اولاد کو منوشے کہا جاتا ہے۔ وہ اسی تشبیہ پر نہیں رکے بلکہ انہوں نے کہا کہ جیسے اللہ سب جگہ موجود ہے ایس ہی ایشور سب جگہ موجود ہے اور اللہ اور ایشور یعنی اوم ایک ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے منو یعنی آدم کے چرن یعنی قدموں میں پہلے ہی سر رکھ دیا ہے اس لئے ہمیں گھر واپسی کی ضرورت نہیں۔ مولانا ارشد نے اپنے خطاب میں دو جگہ جاہل لفظ کا استعمال کیا جس سے پرہیز کرنا ضروری تھا۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ وہ مذہب پر نہیں بولتے اور وہ پہلی مرتبہ اس پر بیان دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مولانا مذہب پر جب نہیں بولتے تو کل کیوں بولے؟ کیا وہ اپنے اس بیان کے ذریعہ واہ واہی لوٹنا چاہتے تھے؟ کیا وہ اجلاس کے اصلی مقصد پر سے توجہ ہٹانا چاہتے تھے؟ کیا وہ اس اجلاس کے ذریعہ متنازعہ امور پر قومی میڈیا میں بحث کروانا چاتے ہیں؟ کیا وہ موجودہ اقتدار میں روز کے بیانات سے اتنے پریشان ہو گئے ہیں؟ بہرحال ان کا مقصد جو بھی ہو لیکن آنے والے دنوں میں اس پر بحث ہونے کے پورے امکان ہیں۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی