پائندخان خروٹی
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اولاد کی تعلیم و تربیت ایک بہت گنجلک، طویل اور مشکل عمل ہے۔ ایک طرف نت نئی سائنسی ایجادات سے ہم آہنگ ہونا اور دوسری طرف ماضی کے خرافات اور توہمات سے نجات پانا یقیناً آسان کام نہیں ہے۔ اولاد کی درست تعلیم و تربیت کے حساس مسئلہ پر قابو پانے کیلئے جو مذہبی تعلیمات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں وہ دنیاوی معاملات میں نامراد رہ جاتے ہیں، جو ثقافتی روایات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ جدید نیچرل اور سوشل سائنسز کے ثمرات سے محروم رہ جاتے ہیں اور جو لوکل قیادت کے زیرِ اثر رہ جاتے ہیں وہ گلوبل فکری وسعت سے مستفید ہونے کے قابل نہیں بن سکتے۔
ویسے بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ بہت طویل اور کٹھن مرحلہ ہے۔ تعلیم و تربیت کے لمبے عرصے میں والدین کی معمولی غفلت یا بچوں کی ذرا بھر بےاحتیاطی پورے خاندان کی انتھک کاوشوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ خاص طور پر ایشیاٹیک سوسائٹی میں خاندان کے کسی فرد کی ایک نیچ حرکت یا غلطی اپنی تمام پچھلی اور اگلی نسلوں کی ساکھ کو داو پر لگانے کے مترادف ہے۔
بہرحال جدید علم و فلسفہ کا تقاضا ہے کہ ماضی کو مستقبل سے مربوط کرنے کیلئے حال یا لمحہ موجود میں رہتے کا گُر سیکھنا لازمی ہے۔ اچھے والدین کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد پر اپنی روایتی سوچ مسلط نہیں کرتے بلکہ معیاری تعلیم اور مناسب تربیت کی فراہمی کے دوران زیرِ تربیت بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کیلئے ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ روز مرہ زندگی میں اشتراکیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح آپ کا فریضہ ہے کہ آپ بچوں کو ماضی کیلئے نہیں بلکہ مسقبل قریب کیلئے تیار کرنے کی ذمہ داری نبھائیں۔ ماضی کے فرسودہ خیالات اور خرافات ٹھونسنے سے آپ کبھی بھی نئے معنی خیز نتائج برآمد نہیں کر سکتے۔
واضح رہے کہ پرانی کتابوں اور پرانی کھوپڑیوں میں نئے خیالات نہیں ہوتے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ابھرنے والے تیز رفتار دور میں بچوں کے نازک اعصابی نظام پر غیرضروری فقہی تعصبات، غیرمتعلق لوک کہانیاں، فرسودہ روایات، شیخ سعدی کی بوسیدہ حکایتیں اور مغل دربار کے بیربل کے چٹکلوں کا بےجاء بوجھ ڈالنا ظلم کے مترادف ہے۔ ہمارے ہاں والدین کی یہ دیرینہ خواہش ہوتی ہیں کہ ان کے بچے بھی انکی طرح بنے جو ایک گمراہ کن سوچ ہے۔ آپ کا بچہ نئے دور کا نیا انسان ہے لہٰذا ان کو اپنے دور کی انسانی ضروریات اور جدید وقت کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے اور اُبھرنے کے مواقع فراہم کریں۔ نئے رزلٹ کیلئے نیا پیٹرن اختیار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
لہٰذا حال کا لمحہ موجود میں رہتے ہوئے ماضی کی بجائے مسقبل کو مدنظر رکھ کر اپنے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لائیں اور دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے کے دھندہ سے اجتناب کریں۔ انسان کا پل پل بدلتا ہوا ذہنی منظرنامہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرتے وقت اپنے مشاہدہ اور تجربہ میں نئی چیزیں نمودار ہوتی رہتی ہیں۔ دوسروں کے روایتی تجربات اور فرسودہ خیالات کی جگالی کرنے کی بجائے اپنے مشاہدے اور تجربے سے سیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میرے مشاہدے میں ایک نئی بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے پہلے والدین کی تربیت اور فکری رہنمائی کرنی ضروری ہے جو والدین یا اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے بنیادی اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور اپنے بچوں/اسٹوڈنٹس کی خاطر اپنی معیار سے گری ہوئی اور ضرر رساں عادات نہیں چھوڑ سکتے تو ان سے کیا توقع رکھیں؟؟؟ ایسی صورت میں منفی نتائج ہی برآمد ہوں گے ۔لہٰذا اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ مسقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت جدید تقاضوں سے ناواقف اور نااہل افراد سے کرانے کی بجائے پہلے اساتذہ اور والدین کو فکری رہنمائی فراہم کرنا اشد ضروری ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آج کل محض تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سینٹرز پر انحصار کرنا بچوں کے روشن مستقبل کو داو پر لگانے کے مترادف ہے۔ حکمران طبقہ کی عدم دلچسپی کے باعث آج کل کے اساتذہ کرام میں بھی وہ فرائض منصبی کا احساس بہت کم ہے اور تعلیمی نصاب کی تکمیل کی بھی سرسری اور سطحی تیاری کروائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ سائنس کی کلاسز میں بھی زبانی لیکچرز دینے کا رواج عام ہے۔ متعدد ہائی سکولز اور کالجز میں سائنس لیبارٹریز کا وجود ہی نہیں ہے۔ انگلش لٹریچر کی کلاسز میں اردو بولی جاتی ہے۔ یونیورسٹیز میں کئی مہینوں تک کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کو ایک بار بھی سائنس لیبارٹری یا فیلڈ پر لے جانے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ ان کی عالیشان عمارات اور ظاہری جا و جلال پر ہرگز نہ جایا جائے۔
اس ضمن میں ریاست اور سیاست پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ نافذالعمل انحطاط پذیر نظام کے متبادل نظام کے نفاذ کیلئے ایک جامع حکمت عملی وضع کریں۔ علاوہ ازیں آپ گھر کی پڑھائی کو مسلسل جاری رکھیں، تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر توجہ مرکوز رکھیں اور دوستوں کے ساتھ اپنے بچوں کے اٹھنے بیٹھنے پر کڑی نظر رکھیں۔ واضح رہے کہ کم عمری میں بچوں کو ہرگز ہاسٹل میں نہ رکھیں۔ جو والدین چھٹیوں میں گھر کی پڑھائی جاری رکھتے ہیں اور فرصت کے اس سنہرے وقت اور موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ان کے بچے تعلیم میں ضرور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے قابل بن جائیں گے۔
♠