مولانا محمد امیر بجلی گھر ایک بار اپنی بھانہ ماڑی مسجد میں جمعہ کی تقریر میں کہنے لگے، “پشتون ایک ہیجڑا قوم ہے۔ ہر سیاسی مسخرہ ڈھول اٹھائے اور پیٹنا شروع کرے یہ سامنے ناچیں گے۔ شیرپاؤ (اسوقت پی پی پی کا صوبائی صدر) چارسدہ میں ڈھول اٹھاتا ہے تو مرکز میں بے نظیر بھٹو حکومت آتی ہے۔ اس کو ہٹانا ہو تو قاضی حسین احمد نوشہرہ میں ڈھول اٹھاتا ہے اور پشتون ہیجڑے اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں اور وہی حکومت ہٹائی جاتی ہے “۔
انگریز دہلی فتح کر رہے تھے۔ شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلی اینڈ وہابی کمپنی کو رائے بریلی میں جہاد کیلئے میدان حرب صرف پختون خواہ نظر آرہے تھے۔ جہاد کیلئے یہاں تشریف لے آئے اور آتے ہی اول کارخیر شادی کی۔ ابھی تک مطالعہ پاکستان نصاب میں کے جی سے لیکر سی ایس ایس تک ان کے کارنامے ہمیں پڑھائے جاتے ہیں۔ اور ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے یہ پشتونوں کے ہیرو ہیں۔
مملکت خداد کے وجود آتے ہی جناح کو کشمیر میں اپنی انا کی جنگ لڑنے کیلئے جہاد کی ضرورت پڑی۔ پانچ ہزار پشتون” جہاد کشمیر“کیلئے گئے۔ اور جو شرمناک مظالم مسلمان پشتون قبائل نے کشمیری مسلمانوں پر کئے ان شرمناک جرائم سے پشتون کبھی اپنی تاریخ دھو نہیں سکتے۔آپریشن جبرالٹر، جو 1965 جنگ میں تبدیل ہوا، کے ماسٹر مائنڈ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر حسین ملک تھے جنہوں نے اپریشن کا خاکہ بنایا تو “پشتون مجاہدین” کو مقدمۃ الجیش کے طور پر رکھا۔
سن 77 میں بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس پی این اے تحریک وجود میں لائی گئی تو سات سیاسی پارٹیاں پورے ملک سے دس افراد لانے میں ناکام رہیں۔ مفتی محمود کو سربراہ بنایا گیا اور اس نے اسے صرف پشتون کاز بنا کر پشتونوں سے ہنگامہ برپا کیا اور ضیاء کیلئے راستہ ہموار کیا۔
ضیاء دور میں افغان جہاد پلاننگ زیر غور تھی۔ جمی کارٹر انتظامیہ سر پکڑ کے بیٹھی تھی۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر زبیگنیو برزیزنسکی نے حل پیش کیا ” جب تک پشتونوں کی مقعد میں مذہب کی بتی ہے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ تمام امریکی اہداف کے حصول کیلئے پشتون ہی کافی ہے“۔
ضیاء پشتونوں کا سب سے بڑا ہیرو تھا۔ اس نے پشتونوں کا جو حشر کیا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ تاہم 80 کی دہائی کے اوائل میں زکوۃ آرڈیننس کے خلاف شیعہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ گوجرانوالہ کے مفتی جعفر حسین لیڈر بنے۔ شیعہ کونسل میں اسلا آباد سیکریٹریٹ کے گھیراؤ کا فیصلہ ہوا۔ مگر لوگ کہاں سے آئیں گے؟ مفتی صاحب نے حل نکا لا۔ پاڑاچنار، کرم ایجنسی کے شیخ نجفی سے ہنگو، کوہاٹ اور کرم کے طوری، بنگش پشتونوں کو اسلام آباد لانے کی درخواست کی۔ اور شیعہ پشتونوں نے ضیاء جیسے ڈکٹیٹر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔
اسٹیبلشمنٹ بے نظیر حکومت گرانے پر تلی ہوئی تھی۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نسیم رانا نے قاضی حسین احمد سے رابطہ کیا۔ قاضی صاحب تیار بیٹھے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں “دھرنے” کا لفظ قاضی حسین احمد نے یہاں استعمال کرکے پہلی بار سیاسی کلچر میں متعارف کیا۔ صرف صوبہ سرحد میں تحریک چلائی گئی۔ پشتون قاضی کی کال پر اسلام آباد دوڑے۔
ایم ایم اے خالص اسٹیبلشمنٹ کی ایجاد تھی اور خالص پشتون علاقوں سے بنی تھی۔ ان کے ملین مارچ کی تشکیل کیلئے ٹٹو صرف یہاں سے مہیا کئے گئے۔۔۔ آج کی سیاست کے داؤ پیچ اتنے آسان نہیں جتنا عام پاکستانیوں کا خیال ہے۔ ہمارے دوست امان اللہ خان امریکی سفارت خانے کے اعلی ترین مقامی حکام میں سے ہیں اور امریکی سفیر کے معتمد خاص ہیں۔ جب امان اللہ اسلام آباد میں کسی سے ملتے ہیں تو سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ کچھ اہم ہونے والا ہے۔ عراق پر امریکی حملے کے خلاف مولوی حضرات کو فنڈنگ تک امان اللہ صاحب نے کی۔ میں حیران تھا کہ امریکا اپنے خلاف مارچ کیلئے لوگ اکسا رہے ہیں اور فنڈنگ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔لیکن بالآخر سمجھ گیا اور امریکیوں کی معجزانہ ذہنی صلاحیتوں کی داد دینی پڑی۔ امان اللہ خان صا حب ایک مولوی صا حب سے ملین مارچ کیلئے ورک پلان کیلئے ملاقات کر رہا تھا تو فنڈنگ کے مطالبے پر بحث میں ان کو بتایا “مولانا صاب، آپ نے کونسا سارے پاکستان کو سر پر اٹھانا ہے۔ پٹھان تیار بیٹھے ہیں۔ آپ کال دیں وہ کراچی سے آکر ملین مارچ کا آغاز کریں گے“!۔۔۔۔۔ پر جلتے ہیں ورنہ بہت کچھ سے واقف ہیں! اور ہمارے پیارے دوست امریکی سفارت کلچرل ونگ کے انچارج عمر فاروق ان کے درون خانہ امور پر سرعام بحث سے ناراض ہوتے ہیں سو ان کی خاطر بھی رکھنی ہے۔
پنڈی سرکار کو نیٹو سپلائی روٹ کی کرایہ بڑھانے کی ضرورت پیش آئی۔ مولوی اور پشتون دونوں نے موٹروے پر ان کیلئے جہاد کا بندوبست کیا۔ ثمرات میں کرایہ پنڈی سرکار کیلئے بڑھایا گیا۔عمران نے تو پشتونوں میں نتھ ڈالی ہے اور ناک سے نچوا رہا ہے،بالکل جیسے بازار کے مداری کے کٹھ پتلیاں۔ عمران خان نواز حکومت کے خلاف لمبا دھرنا دے رہا تھا۔ اپنے دوست RPO ریجنل پولیس افیسر اسلام آباد کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ مجھے گپ اور طنز میں کہنے لگا، “یار بس کریں، یہ اپنے کتے واپس پختون خوا لے جائیں۔” عرض کیا، “کتے ہر قوم میں ہوتے ہیں۔ اور یہ کتے راولپنڈی کے آرمی ڈاگ سنٹر کی مصنوعی کراس بریڈنگ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے نہیں“۔ ہم اسی گفتگو میں محو تھے کہ پاکستان کے خواجہ سراؤں کی سربراہ الماس بوبی تشریف لائی ۔ لمبی چوڑی شکایات کی لسٹ لگائی۔ آر پی او صا حب نے تسلی دیتے ہوئے کہا، “بوبی، آپ بے فکر رہیں۔ اپ کو سپریم کورٹ نے حقوق دیئے ہیں“۔ بوبی نے فورا کہا،” سر، مفت میں نچوائے جانے والے خواجہ سراؤں کے حقوق نہیں ہوتے!”۔
عمران نے رائیونڈ میں احتجاج کی کال دی۔ پشتون پہنچ گئے۔ اور پوری رائیونڈ نسوار سے بھر دی۔رائیونڈ کے نام سے خیال آیا۔ رائیونڈ کے تبلیغی مرکز میں آپ نزدیک مسجدوں سے بریلویوں کی الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کی آوازیں سنیں گے۔ مگر تبلیغی مرکز کی رونق پشتونوں سےہے۔ جماعت اسلامی کو پنجاب میں سٹیج سیکرٹری نہیں ملتی، کونسلر کی سیٹ جیتنا تو درکنار۔ مگر جماعت کے اجتماعات وہاں پشتونوں سے منعقد کرائے جاتے ہیں۔
ننانوے، دوہزار کی بات ہے چکدرہ، ملاکنڈ میں مشہور دہشت گرد (مگر بغیر وردی جنرل) مسعود ازہر ایک اجتماع سے خطاب کر رہا تھا” جب تک آخری پشتون زندہ ہے جہاد قائم رہے گا۔“۔۔۔۔ اور تقریر کے بعد لاکھوں روپے چندہ جمع کرکے پنجاب لے گیا۔ مشہور مسخروں زید حامد اور اوریا مقبول جان کی جہاد بارے پشتونوں کو دی جانی والی ذہنی رشوت سے ہر کہ و مہ واقف ہے۔
دو تین سال قبل باجوہ عمران معاشقے میں پہلی دراڑ پیدا ہوئی اور عمران اپنے لانے اور پالنے والے آقاؤں سے آزادی لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔دباؤ ڈالنے اور اپنی اوقات یاد دلانے کیلئے ملٹری کے پولیٹکل انجنئیرز کو پھر اٹک کے اس پار کے مفت کے ہیجڑے یاد آگئے ۔ مولانا کو صدا دی، مولانا فارغ بیٹھے تھے، اسی بلاوے کیلئے مر رہے تھے، دوڑے، رات کو باجوہ صاب سے ملے، قبلہ باجوہ نے عمران سے اپنے عدم اطمینان اور ایک سال میں حکومت کی تبدیلی اور نئے حکومت میں مولانا اینڈ کمپنی کو ایکموڈیٹ کرنے کا لالچ دیا، آزادی مارچ کی کال دی گئی۔
وہی مولانا جس نے کبھی بھی پشتون حقوق، پشتون وسائل کی استحصال، پشتون قتل عام، مسنگ پرسنز ، وزیرستان اور سوات مسائل پر ایک لفظ کیلئے منہ نہیں کھو لا تھا، پشتونوں سے آزادی مارچ کرانے لگا۔ لیکن پشتون اور صرف پشتون پھر اسلام آباد دوڑے۔ مارچ کیلئے ایک قافلہ بلوچستان سے محمود خان اچکزئی لایا ۔ دوسرا لشکر پشاور سے اسفندیار ولی خان۔ عازم اسلام آباد ہونے کیلئے پشاور کے پتنگ چوک میں مولانا کے اسی گھر کے نزدیک جمع ہونا تھا جو سیف الاسلام قذافی کے پیسوں سے تعمیر ہوا ہے۔ جمعیت علماء اسلام محض جنوب کے ایک دو اضلاع کی پارٹی ہے۔ لوگ جمع ہوئے تو درانی و عطاالرحمن و لطف الرحمن سب ایک درجن گاڑی نہ لاسکے۔شرم و شامت سے مولانا کو بار بار کال کرتے رہیں کہ خدا را اسفندیار ولی خان پر زور ڈالیں ورنہ آزادی مارچ کا بیڑا غرق ہے۔
مولانا کی منت سماجت پر اسفندیار ولی خان 2300 گاڑیوں کا لاؤ لشکر جمع کرکے آئے تو مولوی برادران نے راحت کی سانس لی۔ مارچ و دھرنا شروع ہوا۔ میڈیا نے آئی ایس پی آر کی ہدایات کے مطابق ایک انقلابی فضا ، ایک ٹینشن و تناؤ کی کیفیت پیدا کی ،مولانا کو بھاڑے کے ٹٹوؤں صافیوں ، میروں اور مطعیوں سمیت لبرلوں نے بھی چی گویرا ثانی کے مقام پر فائز کیا۔ اسٹبلشمنٹ سےطے شدہ پلان کے تحت ایک رات مولانا نے اچانک دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ مذہبی شاہدولہ کے چوہوں میں سوال کی صلاحیت ہے ہی نہیں۔ اسفندیار ولی پہلے سے مایوس ہوکر چلے گئے تھے ۔ اچکزئی صاب نے بھی یہ زحمت نہ کی کہ پوچھتے مولانا ہم کس لئے ائے تھے کیا لے کر لوٹ رہے ہیں؟ اسی آزادی مارچ کے صلے میں مولانا اینڈ کمپنی کو مرکز میں چار وزراتیں ، صوبے میں گورنری اور درجن بھر دیگر عہدے عطا ہوئے۔
مولانا کے ہاں مفت کے ہیجڑے صرف عام پشتون نہیں۔ یہ ہزاروں ملاؤں کو بھی مفت میں نچوا رہا ہے۔ ہمیشہ منبر و محراب کے نام پر ووٹ لیکر اپنے خاندان کو عہدے دئیے۔ جو ایک آدھ ممبری و وزرات بچ گئی وہ سرمایہ کار کو فروخت کی۔ تین چار لاکھ مولویوں میں وزرات اعلی کے منصب کوئی لائق نہ ملا تو ایک بدکردار امی کو فقط ڈاڑھی رکھنے کی شرط پر وزیراعلی بنایا۔تین لاکھ علماء میں کوئی سینٹیری کا اہل نہ تھا تو سوکھے انپڑھ صاحبزادہ خالد جان ، اعظم سواتی اور طلحہ محمود کو ممبر سینیٹ بنایا۔ پشتونوں کے ووٹ سے سندھی سومرو کو سینیٹر منتخب کیا(اس جرم میں جمعیت تنہا مجرم نہیں) ایم ایم اے دور میں جماعت نے بھی پشتون ووٹ سے پروفیسر خورشید کو سینیٹر بنایا۔کل ہی گورنری کیلئے تین لاکھ علماء میں ایک بندہ نہ ملا اور بالآخر ایک اسمگلر ، سرمایہ کار نیم ان پڑھ رشتہ دار کو گورنری دلوا دی ۔
آج پھر اسلام آباد میں اسٹبلشمنٹ کو ایک اور ڈرامے کی ضرورت ہے۔ کوئی زرداری و نواز سندھ و پنجاب سے دس بندے لانے کیلئے تیار نہیں۔ نہ سندھی و پنجابی مفت ناچنے کیلئے آمادہ ہیں۔ سب کے ذہن و نظر مفت کے ہیجڑوں پر ہیں۔ مولانا کو انہیں مفت کے ہیجڑوں کی لشکر کیلئے گرو کے منصب کیلئے منتخب کیا ۔ کل پھر صرف اسی ایک قوم کے ہیجڑے دارالخلافہ کے میدانوں کو گرمائیں گے۔ فائدہ اول و آخر نواز و زرداری اور پھر ڈی آئی خان کے شاہی مولوی خاندان کو ملے گا۔ یہ ڈرامہ صرف اور صرف زرداری و نواز کارپوریشن کے موروثی سیاست کی بقا کیلئے ہے۔ صرف ان دو خاندانوں کے مفاد ۰۰۰اور خیرات میں اپنے شاہی خاندان کے لئے ایک دو خیراتی ٹکڑں کیلئے پشتون و ملا سب نچوائے جائیں گے۔ اور ناچنے والوں کو کیا ملے گا؟ مفت کے ہیجڑوں کو اسلام آباد میں ناچنے کا چانس ہی بڑی صلہ ہے۔ اور ہیجڑوں کو کیا چاہئے؟
میری قوم، پشتون مفت سیاسی اور مذہبی ہیجڑوں کی قوم ہے جن کو جو چاہے، جب چاہے، جہاں چاہے نچوا سکتا ہے۔ یہ جو میرے سادے نیشنلسٹ دوست پشتونوں کی حقوق کی بات کرتے ہیں ان کو پتہ نہیں کہ مفت میں ناچنے والے ہیجڑوں کے حقوق نہیں ہوتے۔ ہاں اسلام آباد میں اگر کوئی ان کے ناچنے کیلئے میدان مفت نسوار کی بندوبست کریں تو کافی ہے۔ یہ گھنگروں باندھے ناچنے کیلئے حاضر و تیار ہیں۔
♠