رشید یوسفزئی
۔Alms for Jihad کتاب
یا جہاد کیلئے صدقات ، دو ریسرچ سکالرز نے کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے شائع کی ہے۔ ان ریسرچرز نے عالمی مالیاتی اداروں، خیراتی و فلاحی تنظیموں اور بین الاقوامی بینکوں سے ڈ یٹا اکٹھا کرکے پیش کیا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی، شدت پسند و دہشت گرد تنظیمیں ہیں ان میں اکثریت کو فنڈز زکوٰۃ و صدقات اور اسلامی اوقاف کی مد سےادا کیے جاتے تھے۔ کتاب کا کافی حصہ اس موضوع پر ہے کہ کئی اہم اداروں کے لیے مالی امداد کے آکسیجن کے سلنڈرز پشاور میں ہیں ۔ لیکن یہ سلنڈرز باہر سے بھرے جاتے تھے۔
گزشتہ چالیس سال میں جو تنظیم دہشت گردی کیلئے سب سے زیادہ بدنام ہے وہ القاعدہ ہے۔ القاعدہ نے مکتبہ الخدمت کی کوکھ سے جنم لیا۔ مکتبہ الخدمت کی بنیاد 1984 میں پشاور میں، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق پروفیسر عبداللہ یوسف عزام نے رکھی۔اسلامک یونیورسٹی کا قیام اپنی جگہ ایک قابل نفرت اور کراہت انگیز تنازعہ ہے۔ یہ پراجیکٹ سعودی اور امریکہ نے عزام ہی کے توسط سے تشکیل دیا تھا مگر یہ موضوع پھر کبھی سہی۔
عبداللہ عزام کے دو مرید اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری تھے۔ اسی مکتبہ الخدمت پشاور میں ان تینوں نے القاعدہ کی بنیاد رکھی۔ عبداللہ عزام کو افغان جہاد کا گاڈ فادر کہا جاتا ہے۔ عبداللہ عزام 1989 میں پشاور میں بیٹے کیساتھ قتل ہوا۔ 2010 کے لگ بھگ پختون خوا کے ضلع مومند میں عبداللہ عزام بریگیڈ انہیں کے نام اور یاد میں ان کے مومند مریدین نے بنایاجو ماضی میں پشاور میں کئی ایک دھماکوں کی ذمہ داری لے چکا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ القاعدہ کے انٹلکچول اور سربراہ ایمن الظواہری (جسے امریکی افواج نے قابل میں مار دیا تھا) کی بیوی کا تعلق بھی ضلع مومند کے مومند قبیلے سے ہے۔
دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ماضی وحال کے کئی ایک تنظیموں، سوسائٹیز، اداروں حزب التحریر، بوکو حرام، اخوان المسلمین، جبہۃ النصرۃ، ابوسیاف، دولۃ الاسلامیہ عراق و الشام (داعش) وغیرہ کو جن مالی معاملات نبٹانے کا موقع صومالیہ، یمن اور افغانستان جیسے یاغستانوں میں نہیں ملتا وہ ان کو بلا خوف وخطر پشاور میں آسانی اور اطمینان سے میسر ہے۔ حزب التحریر کے سربراہ عطاء ابورشتہ کا ایک بیان کہیں نظر سے گزرا تھا کہ ہمارے نیٹ ورک کے مالی و افرادی قوت کے راستے البشاور سے گزرتے ہیں ۔ حماس کیلئے دنیا میں سب سے بڑا چندہ پشاور میں جمع کیا جاتا ہے اور اس میں کرم و پشاور کے شیعہ سرفہرست ہیں جو رمضان میں یوم القدس کی مناسبت سے حماس کیلئے باقاعدہ چندہ جمع کرتے ہیں۔
فلپائن کے نرم و نازک امن پسند لوگوں میں جہاد متعارف کرنے والے اول اسامہ بن لادن کا سالا محمد جمال خلیفہ( پشاور میں ابو براء کے نام سے مشہور) اور پھر اسکا منتخب کردہ ابوسیاف اور عبدالرزاق جنجلانی، پشاور میں استاد عبدالرب رسول سیاف کے شاگرد و مرید تھے۔ اول الذکر کو اسامہ نے پشاور سے بھیجا ۔دوسرے یہیں سے تربیت حاصل کرکے فلپائن گئے اور غذائی پائپ لائن پشاور سے ہی سپلائی ہوتی رہی۔ ابو سیاف کے اصل ابو پیپلز پارٹی کے چہیتے جنرل نصیر اللہ بابر تھے۔ مسلم فیڈریشن آف روہنگیا، برما کا بنیاد اور فنڈنگ کا نظام پشاور سے جوڑا جاتا ہے اور جب برما حکومت ان دہشت گردوں پر کریک ڈاؤن کرے تو وہاں کے دہشت گردوں کے حق میں سب سے بڑے مظاہرے بھی پشاور میں ہوتے ہیں۔
بہت کچھ باہر سے ہورہا ہے مگر پیسے کی جو نقل و حرکت باہر کے ممالک میں غیر قانونی ہے وہ پشاور میں قانونی بلکہ کار ثواب کے طور پر جاری و ساری ہے۔ اور اسی لئے دنیا میں بدنام بھی پشاور ہے۔ ظاہر ہے ان صدقات خیرات میں خود پشاوریوں کا حصہ آٹے میں نمک برابر نہیں۔ لیکن ہے ضرور۔ پشاور کے دولت مند مؤمنین خلوص دل اور کھلے ہاتھ سے جہادی اور شدت پسند تنظیموں کیلئے قربانی کی کھالیں، صدقات و عطیات دیتے ہیں۔ حماس کیلئے شیعہ علماء، فلسطین اور بوسنیا کیلئے جماعت اسلامی۔
توہین آمیز خاکوں کا مسئلہ کھڑا ہوا تو ملعون کارٹونسٹ کو قتل کرنے پر اسلامی دنیا میں تنہا بڑے انعام کا اعلان عدم تشدد کے علمبرداروں کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے پشاور کے حاجی غلام احمد بلور نے کیا ۔اگر چہ متعلقہ پارٹی سے وابستہ لوگوں کا موقف ہے کہ یہ بلور کا ذاتی فعل تھا تاہم پارٹی کی طرف سے کوئی باضابطہ واضح منفی ردعمل شاید سامنے نہیں آیا اور بلور صاحب حسب معمول پارٹی کے رہنماؤں میں سے ہیں۔ سو یہ مشتے نمونہ از خروار مثالیں ہیں۔
لیکن خود خط غربت سے نیچے ذلیل و خوار زندگی گذارنے والے پشاوریوں کی بڑی اکثریت کا کیا حال ہے؟ کتنے بوڑھے وبچے ناقص غذا اور علاج نہ ہونے سے ان چند سالوں میں پشاور میں لقمہ اجل بن گئے ہوں گے؟ کتنی جوان بیٹیاں مالی استطاعت نہ رکھنے کی بناء پر شادی کیا سر پر دوپٹہ اوڑھنے سے محروم رہیں؟ کتنے ہونہار، جنئس نوجوان طالب علموں کے کیرئیرز ان کے تعلیمی اخراجات سے عاجز ہونے کی بناء پر تباہ ہوئے۔ لیکن دنیا اور خود پشاور میں دہشت کی تجارت کرنے والوں کو اپنا عالمی بینک یہیں میسر تھا اور بدستور ہے جبکہ خود پشاوریوں کوبھی اپنے گھر سے زیادہ باہر کی اسلامی دنیا کی فکر رہتی ہے ۔
موضوع طویل ہے اور اس پر سیر حاصل گفتگو کے لیے کئی صفحات چاہییں۔اصل نکتہ کتاب میں زیر نظر نقشہ تھا جوقارئین سے شئیر کرنا مقصود تھا۔ اس تصویر کو محفوظ کرکے اس پر چند سیکنڈ غور کریں۔۔ سارے ادارے دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں اور سب کا مرکزی نکتہ پشاور میں عبداللہ عزام کا مکتبہ الخدمت ہے۔۔۔ باقی سوالات اپ خود اٹھائیں اور جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ بہرحال یہ تصویر باہر کی دنیا میں پشاور کا ایک اور تصور ضرور قائم کرتی ہے۔
♣