بیرسٹر حمید باشانی
آئین کیا ہے ؟ یہ دس یا بارہ صفحات کا ایک کتابچہ ہے۔ میں اس کو پھاڑ سکتا ہوں، اور کہہ سکتا ہوں کہ کل سے ہم مختلف نظام کے تحت رہیں گے۔ کوئی ہے جو مجھے ایسا کرنے سے روک سکتا ہے؟ یہ جنرل ضیا الحق کے الفاظ تھے، جو پاکستان میں آئین اور جمہوریت پسندوں پر ہتھوڑا بن کے برسے تھے۔
جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977 کو پاکستان میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا کا اعلان کر دیا تھا۔ اس بغاوت کو “آپریشن فئیر پلے” کا نام دیا گیا۔مارشل لا کے اعلان کے بعد 1973کے آئین کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو بر طرف کر دیا گیا۔ آگے چل کر17 ستمبر 1977 کی صبح مارشل لا آرڈیننس کے تحت ذولفقار علی بھٹو اور ان کے دس ساتھیوں کو گرفتار کر کہ مختلف جیلوں میں قید کر دیا گیا۔ ضیا کے اس عمل سے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک نئے کیس کا اضافہ ہوا، جو بیگم نصرت بھٹو کیس کے نام سے مشہور ہوا۔
میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں مولوی تمیزالدین کیس، دوسو کیس، اور عاصمہ جیلانی کیس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ان مقدمات نے پاکستان کی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کیس کو بھی اس صف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے اعلان کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت ایک رٹ پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کر دی۔ اس رٹ پٹیشن کے حق میں نصرت بھٹو کے وکیل یحیی بختیار کی طرف سے دبیے گتے دلائل میں پہلا نقطہ یہ تھا کہ 17 ستمبر 1977 کی شام کو چیف آف دی آرمی سٹاف نے پاکستان پیپلز پارٹی رہنماؤں کی گرفتاری کا جواز پیش کرنے کے لیے پارٹی کی حکومت کے خلاف غلط اور بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔
دوسرا نقطہ یہ تھا کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اس ارادے کا اظہارکیا ہے کہ وہ پبلک احتساب کے تقاضے پورے کرنے کے لیے گرفتار شدہ رہنماؤں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائیں گے، جو غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔ تیسرا بڑا نقطہ یہ تھا کہ گرفتار شدگان کے خلاف اٹھایا گیا اقدام بد نیتی اور امتیازی سلوک پر مبنی ہے، اور اس لیے اٹھایا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اکتوبر 1977 میں منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا سکے۔ یہ گرفتاریاں غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ہوئی ہیں۔ چوتھا بڑا نقطہ یہ تھا کہ فوج کے سربراہ کے پاس ملک میں مارشل لا لگانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
مارشل لا حکام کی طرف سے دلائل دیتے ہوئے اے کے بروہی نے کہا کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے۔ اس کیس میں درخواست گزار کے کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئیے۔ اس عدالت کے پاس اس کیس کی سماعت کا اختیار نہیں ہے، جس کی وجہ 1977 کا مارشل لا آرڈر ہے، جس کے تحت عدالتوں کے اختیارات محدود کر دیے گئےہیں۔1977 کے آرڈر کے آرٹیکل دو کے تحت بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا ہے۔ نئے لیگل آرڈر کے ذریعے پرانے لیگل آرڈر ختم کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بغیر کوئی دیر کیے یہ پٹیشن خارج کر دی۔ فیصلے میں عدالت نے موقف اختیار کیا کہ عاصمہ جیلانی کیس کا اس کیس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ کیس اس کے بعد وجود میں آنے والی حکومتوں یا آئین کو غیر قانونی قرار نہیں دیتا۔
عدالت نے کیلسن تھیوری کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اس تھیوری کا اطلاق ان مقدمات پر نہیں ہوتا، جہاں حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مارشل لا کا نفاذ ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے عارضی طور پر کیا گیا ہے۔ اور اس کا اطلاق ہر قسم کے انقلاب پر نہیں ہوتا جو رونما ہوتے ہیں، اور عدالتوں کے سامنے ان کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ تھیور ی انصاف اور اخلاقیات کے سماجی پہلو کو نظر انداز کرتی ہے ، جس کی وجہ سے اس پر سنجیدہ تنقید کی جا سکتی ہے۔ عدالت کا تیسرا نقطہ یہ تھا کہ موجودہ ڈیڈ لاک کا حل نکالنے کے لیے ریاستی ضرورت کے اصول کا سہار لینا پڑے گا۔ عدالت کا پانچواں نقطہ یہ تھا کہ وزیر اعظم لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ ملک میں سیاسی بحران تھا، جس نے “آئینی بریک ڈاون” کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ایک ایسی صورت حال پیدا ہو گئی تھی ، جس کا آئین کوئی حل نہیں پیش کر سکتا تھا۔ ان حالات میں آرمی چیف کی مداخلت نا گزیر ہو چکی تھی۔
عدالت کے اس موقف کی بنیاد یہ دلائل اور مفروضے تھے کہ حکمران پارٹی کے امیدواروں کے حق میں حکومتی اہل کاروں نے بیلٹ کا تقدس پامال کرتے ہوئے وسیع مداخلت کی ہے۔ اس کی وجہ سے صورت حال حکومت کے کنٹرول سے نکل چکی تھی، جس کی وجہ سے بہت بڑا جانی و مالی نقصان ہوا۔ انتخابات میں دھاندلی اور مداخلت کی تصدیق مختلف عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہوئی۔ چیف الیکشن کمیشن نے بھی اپنے بیان کے ذریعے دھاندلی اور مداخلت کے الزامات کی تصدیق کی ہے۔ عوام نے بڑے پیمانے پر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم کی طرف سے حزب مخالف کے ساتھ مذاکرات اور تحریک کے وقتی طور پر رک جانے کے باوجود سرکاری اہل کاروں کی تشویش برقرار رہی کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں حالات سول انتظامیہ کے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
اس ڈیڈ لاک کے دوران پنجاب حکومت نے پارٹی ممبرز کو بڑے پیمانے پر اسلحہ کے لائیسنس جاری کیے۔ وزیر اعظم کے معاونین خصوصی نے جان بوجھ کر اشتعال انگیز بیانات جاری کیے۔ احتجاج کے نتیجے میں تمام نارمل معاشی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو گئیں ، جس کی وجہ سے ملک و قوم کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ وزیر اعظم کا ملک پر حکومت کرنے کا قانونی اور اخلاقی جواز ختم ہو گیا، اور اس کی حکومت کے لیے لا اور آرڈر کی صورت حال برقرار رکھنا اور تعلیمی اداروں کو کھلا رکھنا مشکل ہو گیا۔ صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی کے سروسز چیفس کو اپنے طور پر وزیر اعظم سے اپنی وفا داری کا اعلان کرنا پڑا تاکہ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر ہو، لیکن اس سے بھی احتجاج کی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وزیر اعظم اور ان کے وزرا کی آئینی اختیار مرکز اور صوبوں میں کم ہو گیا۔ عوام نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندہ کردار کو ماننے سے انکار کر دیا۔
اس صورت حال میں آئین کی طرف سے کوئی حل نہیں پیش کیا گیا اس لیے ملک کی مسلح افواج نے ملک کو مزید خون خرابہ اور افراتفری سے بچانے کے لیے، اور ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے مداخلت کی۔ مارشل لا کا نفاذ وقت کی ضرورت تھی کیوں کہ ملک میں غیر آئینی اور غیر قانونی حکمرانی تھی، جس کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ تھا یہ اقدام گو کہ آئین سے ماروا تھا، مگر ضرورت کے تحت اس کو درست قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ دلائل تھے، جو مارشل لا حکام نے اپنے حق میں سنے۔ یہ دلائل خود ان کے اپنے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔
اس طرح پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اور کیس کا اضافہ ہوا، جس میں آئین کی معطلی اور مارشل لا کے نفاذ کو درست قرار دیا گیا۔ فوجی عدالتوں کے قیام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قانونی جواز دینے کی کوشش کی گئی ۔ اس صورت حال کے مستقبل میں جو اثرات مرتب ہوئیے ان کا احوال کسی آئندہ کالم میں بیان کیا جائے گا۔
♠