بیرسٹر حمید باشانی
میں نےگزشتہ کالم میں اوون ڈکسن کا ذکر کیا تھا۔ ڈکسن کون تھا ؟ یہ کشمیر پر کیا فارمولہ لے کرآیا تھا ؟ ڈکسن کو دنیا کےبڑے بڑے سکالر یہ کریڈٹ دیتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے یا بعد کےاقوام متحدہ کی طرف سے نامزد کردہ کسی بھی ثالث کے مقابلے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ ڈکسن کی اس کاوش کے بارے میں اے جی نورانی نے ایک طویل مضمون لکھا، جو2002 میں فرنٹ لائن میں شائع ہوا۔
اے جی نورانی لکھتے ہیں کہ آج تک، کشمیر کے لوگ “ڈکسن پلان” کو یاد کرتے ہیں یہ پلان آسٹریلیائی ہائی کورٹ کے جج سر اوون ڈکسن نے پیش کیا تھا، جو 14 مارچ 1950 کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق اقوام متحدہ کے نمائندے کے طور پر برصغیر میں آئے تھے۔ چھ ماہ کی مسلسل محنت کے بعد اس نے 15 ستمبر 1950 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جو رپورٹ پیش کی وہ ایک کلاسک ہے۔ اس کا خوبصورت اندازاورشفاف ایمانداری بے مثال ہے۔ڈکسن اور اس کے پلان پر لکھنے والوں میں ایک سکالر میجر ولیم بھی ہے ۔ یہ آسٹریلوی سکالر میجر ولیم ایلن ریڈ اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے کشمیر میں مبصر تھے۔ وہ 1981 میں فوج سے ریٹائر ہو گئےتھے، کیونکہ وہ سری نگرمظفر آباد روڈ پر جیپ کے حادثے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس کے بعد اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ ان کے بی اے آنرز تھیسس کا عنوان تھا “سر اوون ڈکسن کی ثالثی برائے کشمیر تنازعہ” ۔
اس نے سر اوون کے کاغذات سے استفادہ کیا۔ ان کے تقریباً 50 انٹرویوز کے نوٹ، ان کی ڈائری اور ذاتی خط و کتابت اور آسٹریلین آرکائیوز کو استعمال کیا۔ ڈکسن پلان کے مطابق جنگ بندی لائن کے پاکستانی جانب، سر اوون ڈکسن نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کے پاس جو ریاستی علاقے ہیں، ان سے فوجوں کو نکال دیا دیا جائے۔ فوجیں نکالنے کے بعد ان علاقوں کا انتظام مقامی حکام کمیشن کے زیر نگرانی کریں ، جس طرح کے تنازعہ شروع ہونے سے پہلے ریاست کے “قانون اور رواج” کے مطابق ان علاقوں کا انتظام چلایا جاتا تھا۔ بھارت نے اس خیال کی مخالفت کی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ مقامی حکام پاکستان کے حق میں ہیں، اور بھارت مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ دوسری طرف جنگ بندی لائن کے ہندوستانی جانب، ڈکسن نے اقوام متحدہ کے ایک افسر کو ہر ضلع مجسٹریٹ کے ساتھ منسلک کرنے کی تجویز پیش کی، جسے مجسٹریٹ کی رپورٹوں اور کارروائیوں کا معائنہ کرنے اور رپورٹ کرنے کی اجازت ہوگی۔نہرو نے اس خیال پر اعتراض کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ ریاست کی خودمختاری میں دخل اندازی ہوگی۔
اس کے بعد، ڈکسن نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے سامنے کچھ تجاویز پیش کیں۔ ان میں ایک اہم تجویز یہ تھی کہ شیخ عبداللہ اور غلام عباس کو ملا کر ایک مخلوط حکومت قائم کی جائے، یا پھر ریاست کی مختلف جماعتوں کے درمیان محکموں کی تقسیم کی جائے۔ ڈکسن کی دوسری تجویز یہ تھی کہ ریفرنڈم سے پہلے چھ ماہ کی مدت کے لیے معززین علاقہ اور غیر سیاسی لوگوں پر مشتمل ایک غیر جانبدار حکومت قائم کی جائے، اس حکومت میں رکنیت کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یکساں طور پر تقسیم کیا جائے۔ ڈکسن کی تیسری تجویز یہ تھی کہ ایک انتظامی ادارہ قائم کیا جائے، جو مکمل طور پر اقوام متحدہ کے نمائندوں پرمشتمل ہو۔ نہرو نے ان تمام تجاویز سے اتفاق نہیں کیا۔
اس کے بعد ڈکسن نے پاکستانی وزیر اعظم کی موجودگی میں نہرو سے پوچھا کہ کیا یہ مناسب ہو گا کہ ہرعلاقے کے اندرالگ الگ رائے شماری کرائی جائے، اور رائے شماری کے نتائج کے مطابق اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے ؟ نہرو نے اس منصوبے پر مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ہندوستانی مبصر راگھون کے مطابق، یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے تقسیم اور رائے شماری کا منصوبہ تجویز کیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق جموں اور لداخ کےعلاقے ہندوستان کو دیے جانے تھے، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پاکستان میں جاتے، اور وادی کشمیر میں رائے شماری کرائی جاتی۔ یہ منصوبہ آج تک ڈکسن پلان کے نام سے مشہور ہے۔
ڈکسن کی ان تجاویز کی تفصیل پالگریو میکملن کی طرف سے2010 میں شائع ہونے والی رگھوان سری ناتھ کی کتاب ” وار اینڈ پیس ان ماڈرن انڈیا ” میں پیش کی گئی ہے۔ ڈکسن کے مطابق، پاکستان نے اس تجویز کو دو ٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ رائے شماری یا توپوری ریاست میں کرائی جائے یا ریاست کو مذہبی خطوط پر تقسیم کر دیا جائے۔ کیا رائے شماری سے مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ اس سوال کا جواب کرسٹوفر سنیڈن نے ساوتھ ایشن جرنل کے ایک مضمون میں دیا ہے۔ پاکستان کا خیال تھا کہ پورے جموں و کشمیر کے لیے رائے شماری سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ڈکسن کو یہ بھی خیال تھا کہ کشمیری خوف یا غلط اثرات کے تحت ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ پاکستان کے اعتراضات کے بعد، انہوں نے تجویز پیش کی کہ شیخ عبداللہ انتظامیہ کو رائے شماری کے دوران غیر فعال بنایا جائے۔ یہ بھارت کو قبول نہیں تھا۔ راگھون کے مطابق، اس وقت ڈکسن نے صبر کھو دیا اور ناکامی کا اعلان کر دیا۔
ماہرین کے مطابق بھارت کی جانب سے محدود رائے شماری کے لیے ڈکسن کی تجاویز کو مسترد کرنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ بھارت استصواب رائے کے دوران کشمیر میں اپنی فوجیں رکھنا چاہتا تھا، جو اس کے خیال میں “سیکیورٹی وجوہات” کے لیے ضروری تھیں، لیکن ساتھ ہی بھارت نہیں چاہتا تھا کہ کوئی پاکستانی فوجی ریاست کے اندر موجود ہو۔ ڈکسن کا آخری تبصرہ یہ تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کو اپنے طور پرمسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
ڈکسن مشن کی ناکامی نے امریکی سفیر لوئی ہینڈرسن کے بھارت پر عدم اعتماد کو بڑھایا۔ ہینڈرسن نے وادی کشمیر کا دورہ کرنے پر اپنے جائزے میں مشاہدہ کیا کہ وادی کے لوگوں کی اکثریت بھارت کے ساتھ رہنے کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دے گی۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اگر انتخاب کا حق دیا گیا تو زیادہ تر کشمیری تیسرے آپشن یعنی آزادی کا انتخاب کریں گے۔ جہاں تک ڈکسن پلان اورصرف وادی میں رائے شماری کی تجویز کا تعلق ہے تو سردارپٹیل اور پنڈت نہرو نے رائے شماری کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا ۔ سردار پٹیل نے نہرو سے خط و کتابت میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ “ایک بار رائے شماری کی بات چیت شروع ہو جائے تو جموں و کشمیر میں غیر مسلم بے چینی محسوس کرنے لگیں گے اور ہمیں ان لوگوں کی طرف سے ہندوستان کی طرف ہجرت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن اصل سوال یہ تھا کہ کیا سردارپٹیل ڈکسن پلان کے مخالف تھے؟ ہمیں ان کی بیٹی منی بین کی ڈائری سے اس بات کا جواب ملتا ہے۔ 23 اپریل کو، اس نے اپنی ڈائری میں لکھا ” سیکریٹری برائے کشمیر افئیرزوشنو سہائے نے نقشہ سامنے رکھ کر سردار پٹیل پر واضح کیا کہ ہمیں وادی کشمیر کو چھوڑ کر جموں اور لداخ کو لے لینا چاہیے۔” پٹیل نے اس کی ٘مخالفت نہیں کی، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان رائے شماری پر اتفاق رائے نہ ہو سکا ، اور دیگر منصوبوں کی طرح ڈکسن پلان بھی ناکام ہو کر تاریخ کا حصہ بن گیا۔
ڈکسن نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی آخری رپورٹ جمع کرادی۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے تیس اپریل 1951 کو ڈاکٹر فرینک گراہم کو نیا ثالث مقرر کر دیا۔ آگے چل کرحالات نے کیا رخ اختیار کیا اس کا احوال آئیندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا
♣