لیاقت علی
پاکستان کا بایاں بازو عام طور پر انتخاب سے زیادہ انقلاب کا گرویدہ ہے اور انقلاب کو بورژوا سرگرمی کہہ کر مسترد کرتا ہے۔ بائیاں بازو یہ کہہ کر انتخاب سے فرار حاصل کرتا ہے کہ حقیقی سماجی اور معاشی تبدیلی انتخابات اور پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن نہیں ہے لہذا انتخابات میں حصہ لیناوسائل اور وقت کے زیاں کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن اس عمومی نکتہ نظر کے باوجود بعض اوقات بائیں بازو کے کچھ افراد الیکشن میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
الیکشن2024 میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تین افراد۔۔ امتیاز عالم( جو الیکشن کی حرکیات کے تحت سید امتیاز عالم گیلانی بن گئے) بہاول نگر، ڈاکٹر عمار علی جان( صوبائی) اور مزمل کاکٹر( قومی اسمبلی )نے لاہور کے انتخابی حلقہ 129سے الیکشن میں حصہ لیا۔ سید امتیار عالم گیلانی نے936 جب کہ عمار جان نے 1531 ووٹ حاصل کئے۔مزمل کاکڑ کے ووٹوں کی تعداد کا علم نہیں ہوسکاان کے ووٹ عمار جان جتنے یا اس کے قریب قریب ہی ہوں گے کیونکہ دونوں ایک ہی پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔
کچھ سال قبل بھٹہ مزدوروں کے لئے کام کرنے والی ایک این جی او کی مالک محترمہ غلام فاطمہ نے بھی الیکشن میں حصہ لیا تھا ان کے ووٹوں کی تعداد چھ سو کے قریب تھی۔فاروق طارق بھی ایک سے زائد مرتبہ الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں ان کے ووٹوں کی تعداد چند سو سےزیادہ نہیں تھی۔
ماضی میں مرزا ابراہیم، حبیب جالب، ڈاکٹر اعزاز نذیر نے الیکشن میں حصہ لیا لیکن چند صد ووٹوں سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے مرحوم صدر یوسف مستی خان نے قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب بھی ہوگئے تھےان دنوں وہ شیرباز مزاری کی این ڈی پی کا حصہ تھے۔
کیا بائیں بازو کو انتخابات میں حصہ لینا چاہیے تو میرا موقف ہے کہ ضرور لینا چاہیے اب سماجی تبدیلی کا راستہ انتخابات اور پارلیمنٹ ہی ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کسی مسلح یا طاقت کے بل بوتے پر ریاست پر قبضہ جمایا جاسکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
بائیں بازو کو جمہوری پراسس کا حصہ بنیا چاہیے اور انقلاب کی لا یعنی لفاظی ترک کے عوامی ووٹ کے ذریعے سماجی تبدیلی کا موقف اپنانا چاہیے لہذا جو بھی بائیں بازو کا کارکن الیکشن میں حصہ لیتا ہے اس کی حمایت و تائید کرنا چاہیے لیکن اس ضمن میں اہم بات جو بائیں بازو کے احباب بھول جاتے ہیں وہ ہیں زمینی حقائق۔ بائیں بازو کا زمین پر عوام سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
امتیاز عالم جس حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے اس کے عوام سے ان کا کوئی رابطہ نہیں تھاوہ کم و بیش گذشتہ نصف صدی سے لاہور میں رہتے ہیں۔گو ان کا آبائی شہر بہاول نگر ہی ہے لیکن ان کا یہ تعلق محض رسمی بن چکا ہے عملی طور پر ان کا اس شہر سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا وہاں الیکشن سے حصہ لینے کو رومانیت تو کہا جاسکتا ہے اسے دانشمندانہ فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عمار علی جان اور مزمل کاکڑ جس صوبائی اور قومی حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے ان کا اس علاقے سے کیا تعلق؟ مزمل کاکڑ بلوچستان کے پشتون ہیں۔لاہور میں بغرض تعلیم آئے اور اب یہیں رہتے ہیں۔ عمار جان ڈیفنس میں رہتے ہیں۔ محض اس لئے کہ اس حلقے میں مسیحی اقلیت اور مزدور طبقہ بڑی تعداد میں رہتا ہے یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو ووٹ دیں گے محض خود فریبی ہے۔
اگر تو بایاں بازو اپنی سیاست کوآگے بڑھانے میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنی انتخابی سیاست کا آغاز بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں حصہ لے کر کرنا چاہیے۔ بائیں بازو کے کسی لیڈر کی اتنی فالونگ نہیں ہے کہ وہ صوبائی یا قومی اسمبلی میں منتخب ہوسکے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ ا تنی بھی نہیں ہے کسی یونین کونسل کا چئیرمین منتخب ہوسکے۔بائیں بازو کو کونسلر کی سطح سے انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔اگر لاہور جیسے شہر میں با یاں بازو پچاس افراد کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تیار کرلے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔
لیکن کیا کیا جائے بائیں بازو کے سبھی لیڈر اور کارکن خود ساختہ لینن ہیں اور وہ خود کو ہمیشہ پارلیمنٹ میں بیٹھا دیکھتے ہیں۔ یونین کونسل کو اپنے سٹیٹس سے کم پاتے ہیں۔ جتنے مرضی قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن لڑ لیں ان کا کچھ نہیں بننے والا جب تک کہ وہ یونین کونسل کی سطح پر مسلسل الیکشن میں حصہ نہیں لیتے۔