بصیر نوید
سندھ میں گزشتہ دنوں ایک سانحہ پیش آیا جس میں ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر جناب ہدایت لوہار کو سر عام دو موٹر سائیکل سوار “نامعلوم” افراد نے قتل کردیا۔ لوہار اس سے قبل 2017 سے لیکر 2019 تک مسلسل فوج کے اذیت رسانی کے مراکز میں انسانیت سوز ٹارچر سے گذر چکے تھے۔ ان کی بازیابی کے بعد وہ مختلف جسمانی اور دیگر بیماریوں کا شکار رہے اور ان سب کے باوجود انہوں نے بچوں کو تعلیم دینے جیسے فرائض سے غفلت نہیں برتی۔
پورے سندھ میں محترم استاد کیلئے سوگ منایا جارہا ہے جس میں سندھ، اور بلوچستان کی سول سوسائٹیز نے اپنے احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت لوہار کے قتل کو مبینہ طور پر ملٹری ایجنسیوں کی کارروائی قرار دیا ہے مگر حیرانگی ہوتی ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی سول سوسائٹیز کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا، یہ کیسا رویہ ہے؟ ایسا نہ کیا جائے اور محکوم اقوام کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ طرز عمل کی تمام اقوام اور ان کی سول سوسائٹیز کو حمایت کرنی چاہئے۔
ہدایت لوہار کا قصور یہ تھا کہ وہ اسکول جانے والے بچوں میں سائنسی سوچ اور ہر چیز میں اسکی علت جاننے کی صلاحیتوں کو ابھارتے تھے، انہوں نے کبھی گاؤں چھوڑ کر اعلیٰ زندگی کی بھاگ دوڑ کو ترجیح نہیں دی وہ سیکولر طرز زندگی کے حامی تھے، شاگردوں کو سوالات کرنے پر انکی حوصلہ افزائی کرتے تھے، یہ درست ہے کہ وہ سندھی قوم پرست تھے وہ سندھ کی حق خود اختیاری کے بہت بڑے داعی تھے اور جی ایم سید کے حامی تھے۔ ہدایت لوہاربچوں کو سندھ کی تاریخ و تمدن سے آگاہ کرتے تھےجو انکا سب سے بڑا جرم تھا۔
پنجاب اور پختونخوا کی سول سوسائٹیز کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسکول کے ایک استاد کو دو سال تک اپنے ٹارچر کیمپ میں رکھنے کے باوجود فوج کو ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پائے اور انکی ثابت قدمی کے باعث فوج کو ناکامی رہی۔ پھر انکی رہائی کے بعد اپنی شکست کے بعد لوہار کو قتل کردیا، یقینی طور پر یہ بات مختلف سوالات اٹھاتی ہے۔ پنجاب اور کے پی کی سول سوسائٹیز کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہدایت لوہار جبری گمشدگی کا دو سال تک شکار رہے اور ان کی بیٹیوں، سورٹھ لوہار اور سسئی لوہار اپنے والد اور دیگر جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر احتجاج بھی کرتی رہیں جس میں وہ پولیس لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا شکار بھی رہیں۔
ہدایت لوہار کی بازیابی کے باوجود ان کی بچیوں نے ملک بھر میں جبری طور پر گمشدہ افراد (حقیقت میں فوج کے ہاتھوں اغوا کئے گئے افراد) کی بازیابی کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور یہ کبھی نہیں سوچا کہ جبری گمشدگی کا شکار فرد کس قوم یا صوبے سے تعلق رکھتا ہے یا رکھتی ہے۔ ان لڑکیوں اور مہہ رنگ بلوچ اور ان کی ساتھیوں سے کچھ سبق حاصل کرلیا جائے کہ جبری گمشدگیاں ایک بھیانک جرم ہے اور انسانوں کے پیدائشی اور جینے کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی چھوٹے یا بڑے صوبے سے ہو۔
♣