بیرسٹر حمید باشانی
نو منتخب یا ازسر نو منتخب حکمران اشرافیہ کو بڑے سخت قسم کے چلینجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج معاشی ہوگا۔ خود اسی حکومت کے کچھ رہنماوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر تشکیل پانے والی حکومت کے دور کے اختتام پر ملک کے معاشی بحران پر قابو پانے کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم کا بیانیہ یہ تھا کہ انہوں نے معاشی مسائل کی گھمبیرتا کے پیش نظراس محاذ پر بہت مشکل فیصلے کیے ہیں۔ اور یہ اتنے مشکل فیصلے تھے کہ ان کی وجہ سے انہوں نے اپنی سیاست قربان کر دی ہے، مگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔
سیاست قربان کر کے ملک بچانے کا دعوی شاید کسی حد تک عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کا باعث بنتا، اور اس میں مزید ہمدردیاں سمیٹنے کا پوٹینشل بھی موجود تھا، اگر ان کی سیاست واقعی قربان ہو جاتی، اور اقتدار کسی اور کو منتقل ہو جاتا۔ مگروزیر اعظم کی قیادت میں اقتدار کا ہما دوبارہ انہی قوتوں کے سر پر بیٹھ گیا۔ اب اقتدار کا تاج سر پرسجا کراپنی سیاست قربان کرنے کا کریڈیٹ مانگا جا سکتا ہے نہ ہی اس دعوے پر قائم رہا جا سکتا ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکال دیا گیا ہے۔
ایسا اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی اعشاریے اور انڈیکیٹرز، خواہ ان کو کسی بھی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی جائے، یہی بتاتے ہیں کہ معاشی بحران قابو میں آنے کے بجائے مزید گہرا ہوا ہے، اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگلے چار سالوں تک ترقی کی موجودہ شرح کی رفتار میں اضافے کی کوئی ٹھوس وجوہات نظر نہیں آتیں۔ بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے منصوبوں کے بارے میں جو نیک خیالات یہ حکومت رکھتی ہے، اور جس طرح اس اتحاد میں شامل کچھ رہنما ان شرائط کو ماننا محب وطنی کی علامت قرار دے رہے ہیں، ان حالات میں آئی ایم ایف کی مزید شرائط کو من و عن تسلیم کیے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ مگر ایسا کرنے سے زندگی کی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں جو لاکھوں کے حساب سے نوجوان تلاش معاش میں ترک وطن کر چکے، اور بے روزگاری کی شرح دیکھتے ہوئے اس تعداد میں اضافہ ہونے کے بھی واضح امکانات موجود ہیں۔ ظاہر ہے ان حالات میں حکومت یہ دعوی تو نہیں کر سکتی کہ ملک میں کوئی معاشی بحران نہیں ہے۔یا مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پا لیا جائے گا۔ گزشتہ اتحادی حکومت کے ماہرین معاشیات سولہ ماہ کی حکومت کے دوران کوئی قابل ذکر معاشی منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اب بھی حکومت کی فیصلہ سازی میں زیادہ تر وہی لوگ شامل ہیں۔ ان کی معاشی پالیسی اور معاشی سوچ میں کسی تبدیلی کے کوئی آثار سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سولہ ماہ کی ناکام حکومت کے تجربے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مگرسولہ ماہ جیسے مختصر وقت کا کیا رونا ؟ یہاں تو سات دہائیوں کی غلطیوں اور ناکامیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔
ہمارے ہاں تاریخ سے سبق سیکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ بیسوی صدی کا سب سے بڑا سیاسی اور معاشی واقعہ 1917کا بالشویک انقلاب تھا، جس کے بطن سے یونین آف سوشلسٹ سویٹ ریپلک جیسی سپر پاور نے جنم لیا تھا، اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی طرح اس صدی کا دوسرا بڑا واقعہ بھی سوویت یونین کا خاتمہ تھا۔ ہم نے دونوں واقعات کو نظر انداز کر دیا، یا پھراپنی سہولت اور نظریات کے تحت اس سے غلط نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سب ہمارے ہیروازم کی وجہ سے ہوا ہے۔ سوویت یونین کی تشکیل پانے کی وجہ معاشی تھی، اس کے خاتمے کی وجہ بھی معاشی ہی تھی۔ ہم نے اس کہانی سے معیشیت کو تو نکال دیا اور اس کو ایک روحانی واردات بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ اور ساتھ میں یہ دعوی بھی کیا کہ اس روحانی واردات کے اصل محرک ہم ہیں، اور کے نتیجے میں سوویت یونین کی شکست کے اصل کریڈیت کے حقدار بھی ہم ہی ہیں۔
سوویت یونین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج اور سب سے زیادہ نیوکلئیر ہتھیار تھے۔ اس وقت کی دوسری سپر پاور امریکہ نے آمنے سامنے سوویت یونین کے خلاف کوئی لڑائی نہیں لڑی۔ ان کے دانشوروں اور فوجی ماہرین کو اس ناقابل تصور تباہی اور بربادی کا اندازہ تھا، جو اس طرح کی کسی مہم جوئی کے نتیجے میں ناگزیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس میدان میں آمنے سامنے آنے کے بجائے پراکسی جنگوں کا راستہ اختیار کیا۔ اس مقصد کے لیے ویت نام سے لیکر افغانستان تک دوسرے ملک، دوسری قومیں اور ان کی سر زمین استعمال ہوئی۔ جیتا کوئی اور فتح کے جشن کئی اور منائے جاتے رہے ۔
بات کہیں اور نکل گئی ،بات یہ ہو رہی تھی تاریخ سے سبق سیکھا جائے کہ دنیا میں اصل اور بڑا مسئلہ معاشی ہے، اور اس بنیادی مسئلے کے حل بغیر کوئی اور مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ اب بات یہ ہے کہ سولہ ماہ کی حکومت میں جس بحران پر قابو پا لیا گیا تھا، وہ دوبارہ پہلے سے زیادہ شدت سے سر اٹھاتا ہو نظر آ رہا ہے۔ ملک کا سارا انتطام و انصرام قرض پر چل رہا ہے۔ اور اس انتظام کو چلاتے رہنے کے لیے “مزید قرض” کی ضرورت ہے۔ کسی ہنگامی ضرورت کے لیے گاہے قرض لے لینا اور بات ہے، اور روزمرہ کی زندگی کو چلانے کے لیے قرض پر ہی انحصار کرنا، اور قرض کو ہی بطور ذریعہ آمدن استعمال کرنا دوسری بات ہے۔
دنیا کا مشترکہ تجربہ یہی ہے کہ جب قرض ایک ہنگامی ضرورت نہیں بلکہ ایک مستقل ذریعہ آمدن بن جائے وہاں صورت حال تشویشناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس طرح معیشیت کو چلانے کے لیے، جس کا انحصار بنیادی طور پر بیرونی قرضوں پر ہے حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی اور سیاسی طور پر طاقت ور ممالک کے ساتھ اچھے دوستانہ تعقات قائم کرنا ہے۔ اس میدان میں موجودہ حکومت کے لیے روایتی مشکلات کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا چیلنج اپوزیشن بھی ہے۔ اپوزیشن اس میدان میں حکومت کے لیے جو مشکلات پیدا کر سکتی ہے، اس کی ایک جھلک امریکی کانگریس کے ممبران کی ایک گروپ کی حالیہ سرگرمیوں میں نظر آتی ہے۔
حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے 31 ممبران نے گزشتہ دنوں اس سلسلے میں امریکی صدر جو بائیڈن اورسیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلیکن کو ایک خط لکھا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے ان رہنماوں نے صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کرے جب تک ان انتخابات میں لگائے جانے والےدھاندلی کے الزمات کی تحقیقات کے نتائج سامنے نہیں آ جاتے۔ ان ممبران نے کہا کہ ان الزامات کے تحت پاکستان کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات سامنے آئے ہیں، اور ان الزامات کی تحقیق و تفتیش کے بغیر نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے جمہوریت اور آزادانہ انتخابات جیسی اقدار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان ممبران نے ماضی میں لاطینی امریکہ میں امریکہ کی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک میں جمہوریت اور آزادانہ انتخابات کے حوالے سے امریکی پالیسی درست نہیں تھی، جس سے ناصرف لاطینی امریکہ کے عوام کو نقصان پہنچا بلکہ اس کی وجہ سے خود امریکی مفادات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اگرچہ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کے کچھ اہل کار حزب مخالف کے اس اقدام کو “غیر محبب الوطنی ” قرار دے چکے ہیں، لیکن مغرب میں سرگرم حزب مخالف کے ہمدرد اپنی اس مہم کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کر چکے ہیں۔ اس طرح نئی حکومت کومعیشت بحال کرنے اور بیرونی قرضوں کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
♣