لیاقت علی
لیفٹ کی کوئی جامع اورمتعین تعریف اورمفہوم ایسا نہیں ہے جس پر کامل اتفاق پایا جاتا ہو۔ مختلف ادوارمیں چلنے والی تحریکوں اورمتحرک تنظیموں جوخود کولیفٹ کہلاتی رہی ہیں،کے نزدیک اس کا مفہوم مختلف رہا ہے۔ آج بھی ایک سے زائد ایسی سماجی اورسیاسی تحریکیں موجود ہیں جو، فکری اورنظری دلائل واہداف حکومت عملی اورمقا صد کے اعتبار سے خود کو لیفٹ سے وابستہ ہونے کا دعوی کرتی ہیں گو ان میں باہمی نظریاتی اورعملی مقاصد کے اعتبار سے بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کمیونسٹوں کے نزدیک سوشل ڈیموکریٹس ان کے بدترین مخالف ہیں کیونکہ سوشل ڈیموکریٹس سرمایہ داری کے ہم نوا اوراس کو انسان دوست ثابت کرنے اورتاریخی جواز فراہم کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔نراجیت پسند کمیونسٹوں اورسوشل ڈیموکریٹس دونوں کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک کمیونسٹ فکری طور پر منجمد اورفکری اور سیاسی آزادی کے مخالف ہیں۔جہاں تک تعلق ہے سوشل ڈیموکریٹس کا تو وہ کمیونسٹوں اورنراجیت پسندوں دونوں کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک وہ اپنے خیالی نظام کے قیام کے لئے موجود سماج اور نظام کو تباہ و برباد کرنے پریقین رکھتے ہیں۔
ان تینوں نظریاتی تحریکوں نے باہمی اختلافات کے باوجود آزادی، روشن خیالی اورانسان دوستی کے مقاصد حاصل کر لئے ہیں۔
فرانسیسی انقلاب کی بدولت برابری،آزادی اورسیکولرسیاسی اورسماجی اقدار کو فروغ دینے کی جس تحریک کا آغاز ہوا تھا اس کو آگے بڑھانے اورنئی بلندیوں سے ہمکنار کرنے میں ان فکری دھاروں نے نہایت اہم اور بنیادی رول ادا کیا ہے۔ کچھ دانشوروں کا موقف ہے کہ کم از کم مغرب کی حد تک لیفٹ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔لیکن مارکسسٹ اس نکتہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک مغرب میں تمام تر سیاسی اور سماجی آزادیوں کے باوجود سرمایہ کی حاکمیت قائم ہے اورمحنت کشوں کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اورجو کچھ ہمیں بظاہر نظر آرہا ہے یہ محض نظر کا دھوکہ ہے۔
مارکسسٹوں کا یہ نکتہ نظر دراصل مارکس ازم کے معاشی نظریات سے ان کی عقیدہ پرستانہ وابستگی کا نتیجہ ہے۔ مارکس ازم کا دعوی ہے کہ وہ اپنی ماہیت میں سانٹیفک ہے اوراس سے قبل سوشلزم کے جتنے رحجانات اورنظریات تھے وہ سب کے سب یوٹوپیائی تھے لیکن اسے ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ یوٹوپیائی سوشلزم تو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن سائنسی سوشلزم نہ صرف ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے بلکہ خود نظریہ کے طور پر اس کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ آج سانٹیفک سوشلزم اپنے متحارب سوشلسٹ نظریات کی نسبت زیادہ یوٹوپپائی نظر آتا ہے۔
سوشلزم کے مارکسی ماڈل کو لینن نے آمریت کا چوغا پہنایا اور ستر سال میں ہی میں سماجی انصاف کا یہ ماڈل شخصی آزادی سے شکست کھا کر زمین بوس ہوگیا۔گذشتہ ایک صدی کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ سوشلزم کا مارکسی ماڈل ایک جمہوری سماج میں نہ صرف قابل عمل نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ فرد کی آزادی اور آزاد انتخاب کے تصورات سے متصادم ہے۔
تمام مارکسسٹ جمہوری نظام کو تلپٹ کرنے اورپرولتاری آمریت یا عوامی آمریت قائم کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔انھیں ایمان کی حد تک یقین ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ہر حال میں ختم ہوجائے گا اورمحنت کشوں کو فتح حاصل ہوگی ۔مارکسسٹوں کی یہ عقیدہ پرستی ان کی تمام ترترقی پسندی کے باوجود انھیں رجعت پسندوں کی صفوں میں کھڑا دیتی ہے۔۔وہ ابھی تک پدرسری کے منفی کردار اور عورتوں کے حقوق اور آزادی کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔وہ ذہنی اور فکری طور پر آمریت سے خود کو علیحدہ نہیں کرسکے اور ہنوز مارکس ازم کے لیننی ماڈل جو آمریت اورشہری آزادیوں کے انکار پر مشتمل ہے کو آئیڈیل بنائے ہوئے ہیں۔
مارکسسٹ نظریہ دان اور دانشوروں کا رول وہی ہے جو مذہبی ملاوں کا ہے۔ وہ رٹو طوطوں کی طرح مارکسی کلاسیکی لٹریچرکو وہراتے اور ہم عصر سیاسی، سماجی اور معاشی حقایق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ وہ دنیا میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال اوراس کے نتیجے میں ہونے والی طبقاتی تبدیلیوں کو تسلیم کرنے سے اسی طرح انکاری ہیں جس طرح مولوی سب مسائل کا حل قرون وسطی کے لٹریچر میں تلاش کرتا ہے۔
♠