لیاقت علی
معروف لکھاری مترجم اور وکھری ٹائپ کے دانشور یاسر جواد جو اپنے منفرد خیالات اور مین سٹریم سے مختلف نظریات کی بنا پر پسند کم اور ناپسند زیادہ کئے جاتے ہیں نے، ایک پنجابی بیٹھک میں پنجاب کی تاریخ، کلا اور ادب بارے اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کیا۔
یاسر جواد کا کہنا تھا کہ سوچنے سمجھنے اور راہ عمل متعین کرنے والے افراد ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں اور بھیڑ ہمیشہ ذہنی طور پر کم تردرجے کے افراد مشتمل ہوتی ہے۔ لہذا گر اس سے بات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ پنجاب کی تاریخ اس کے فنون وادب اور ثقافت( یاسر جواد کلچر کو زیادہ معتبر خیال نہیں کرتے وہ تہذیب کو اولیت دیتے ہیں) بارے چند لوگ ہی بات کرتےہیں۔ ان کا موقف تھا کہ تاریخ میں ہمیشہ تھوڑے لوگ ہی فلسفے، ادب، تہذیب اور جدید سیاسی اور سماجی نظریات پر بات کرتے رہے ہیں۔ عوام کو تو اپنے روزمرہ کے کاموں اورمشغلوں سے ہی فرصت نہیں ملتی انھوں نےان مسائل پر کیا غور کرنا ہے۔
یاسر جواد کا کہنا تھا کہ پنجابی تماش بین ہیں اور ان کا دل زیادہ کھیل تماشوں میں لگتا ہے اور سنجیدہ باتوں میں انھیں دلچسپی کم ہی ہوتی ہے۔ وہ جگتوں کو ڈرامہ اور ادب سمجھتے ہیں اور اپنے دوستوں ساتھیوں کی جگت بازی سے تضحیک کرکے خوشی حاصل کرتے ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کے قیام میں پنجاب کا حصہ کم اور سندھ اور بنگال کا حصہ زیادہ تھا۔ پنجاب نےا پنی تاریخ اور ادب وفن سے اپنی لاتعلقی کی خفت مٹانے کے لئے نئے نئے ہیروز ایجاد کرنا شروع کردیئے ہیں کبھی یہ احمد کھرل لے آتے ہیں اور تو کبھی بھگت سنگھ کو نئے کپڑے پہنا کر میدان میں کھڑا کردیتے ہیں۔ پنجابیوں کو دوہزار سال قبل سے تعلق رکھنے والے راجہ پورس کو بطور ہیرو ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہیرو خود بخود ایوالو ہوتے ہیں۔ ایجاد کردہ ہیرو علامہ اقبال کی طرح کے ہوتے ہیں جو ریاستی شہتیروں کے سہارے کھڑے ہیں جوں ہی ان شہتیروں کو ہٹایا گیا وہ دھڑام سے نیچے آگریں گے۔
میں نے عرض کیا کہ پنجابی نئے نئے قوم پرستی کی راہ پر گامزن ہوئے ہیں ان کا ماضی قوم پرستی کے حوالے سے قابل فخر نہیں ہے۔ پنجابی مسلمانوں نے پنجابی قوم پرستی کو مسترد کرکے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی۔ پنجابیوں نے اپنی زبان وادب اور ثقافت کی بجائے مذہب کے نام پر قوم پرستی اور اردو زبان وادب سے خود کو وابستہ کیا تھا۔ پنجابیوں نے نہ صرف اپنی زبان و ثقافت اور تاریخ کو مسترد کیا بلکہ پاکستان کے وفاق میں شامل دوسرے صوبوں کی زبانوں،ثقافتوں اور ان کی تاریخ بارے معاندانہ رویہ اپنائےرکھااور یہ رویہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ مستقبل قریب میں نہیں لگتا کہ پنجابی اپنی زبان اور تاریخ سے وابستہ ہوسکیں گے۔ پنجابی قوم پرستی کی لہر صرف سوشل میڈیا اور ڈرائینگ رومز تک محدود ہے پنجابی عوام میں اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔
قوم پرستی کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی قابض و جابر قوت موجود ہو جس سے کوئی محکوم قوم اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہو پاکستان میں ایسی کوئی قوت نہیں ہے جو پنجاب پر قابض ہو بلکہ اس کے برعکس پاکستان کے دوسرے صوبے غلط یا صحیح ،پنجاب پر الزام دھرتے ہیں کہ وہ پاکستان پر قابض ہے اور موجودہ پاکستان دراصل گریٹر پنجابستان ہے۔ یہ الزام درست ہے یا اس میں مبالغہ آرائی کارنگ زیادہ ہے، اس پر بات ہوسکتی ہے۔
معروف دانشور اور محقق اقبال قیصر نے تقسیم سے قبل لاہور سے شایع ہونےو الے رسالے عالم گیر کا اداریہ پڑھ کر سنایا جس میں پنجابی زبان کی فلمیں بنانے اور ان کی نمائش پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ رسالے کے اداریہ نویس کے مطابق ان فلموں کی بدولت اردو کو قومی زبان بنانے کی تحریک کمزور ہورہی تھی۔
اس پنجابی بیٹھک کا مجموعی ماحول مایوسی کاتھا لیکن اس کے ساتھ یہ عزم بھی موجود تھا کہ مایوسی کی اس فضا میں پنجابی زبان اور پنجاب کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو زیادہ قوت اور جذبے سے کام کرنے کی ضرورت ہے
♣