بصیر نوید
تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے ندیم ملک کے 22 اپریل کے پروگرام میں تحریک انصاف کی جانب سے قائم کردہ چھ جماعتی اتحاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “ہم نے شیعہ سنی اتحاد قائم کیا ہے“جس کا واضح اشارہ تھا کہ تحریک انصاف ایک سنی جماعت ہے اور ‘سنی اتحادکونسل” سے انتخابی اتحاد کرکے سنیوں کی نمائندگی کرتی ہے اور یوں چھ جماعتی اتحاد میں ایک شیعہ تنظیم ‘مجلس وحدت المسلمین‘ شامل ہے جو کہ ان کی نظر میں ایک شیعوں کی نمائندگی کرتی ہے اس طرح سنی شیعہ اتحاد قائم کردیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے ایک بڑے لیڈر کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیا کہ ان کی جماعت سنی فرقہ کی جماعت ہے۔ انکی اس بات نے بہت ساروں کو چونکا دیا کہ ملک میں شیعہ سنی تنازعہ کی ایسی کوئی فضا نہیں کہ اس موقعہ پر شیعہ سنی اتحاد کا ذکر کیا جائے۔ مگر جب سے 8 فروری کے انتخابی عمل کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کو اس کے روشن خیال ماضی سے نکال کر مذہبی جماعتوں کی صفوں میں شامل کیا جائے۔ شاید یہ عمل بھی اس وقت سے شروع ہوا جب عام انتخابات سے قبل اس کا انتخابی نشان پہلے الیکشن کمیشن پھر سپریم کورٹ کے ذریعے چھین لیا گیا تھا تو فوری رد عمل کے طور پر خیال کیا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی کسی غیر مذہبی یا غیر فرقہ وارانہ جماعت سے اتحاد کرنے کی بجائے ان نئی سیاسی گروہوں سے اتحاد کرے گی جو پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو ئے تھے۔
ایسی جماعتوں نے بھی آگے بڑھ کر بھرپور طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ مگر پی ٹی آئی نے انہیں اپنے ہم پلّہ نہ سمجھا (ہوسکتا ہے کسی اور نے کہا ہو) اسی دوران شیعہ فقہ سے تعلق رکھنے والی جماعت وحدت المسلمین سے پی ٹی آئی کی قربت بھی بڑھ چکی تھی جو اپنے وجود میں پارلیمانی درجہ بھی رکھتی ہے لیکن اچانک سے نہ جانے کس جانب سے اشارہ ہوا کہ سنی اتحاد کونسل کو پی ٹی آئی کا ہم پلّہ و ہم رکاب قرار دیکر اتحاد کرلیا گیا، جبکہ یہ جماعت پارلیمانی حیثیت بھی نہ رکھتی تھی مگر اشاروں کی منتظر جماعت کیلئے اس موقعہ پر سوچنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی مخصوص سیٹوں کی ایک بڑی تعداد سے بھی محروم ہوگئی۔
اس پورے عمل میں کسی کو بھی گمان نہ تھا کہ مذہبی گروہوں سے اتحاد کو کیوں ترجیح دی جارہی تھی۔ لیکن جناب سلمان اکرم راجہ کے انکشاف نے تحریک انصاف کی نئی سمت کا واضح اشارہ دیدیا۔ ایک ایسی جماعت جس کا رہنما اپنی نوجوانی سے لیکر آج تک اپنی نجی زندگی میں ہر لحاظ سے مادر پدر آزاد رہا ہو، خواتین سے آزادانہ تعلقات کو چھپاتا نہ ہو قابل اعتراض وڈیوز و آڈیوز کے طشت از بام ہونے پر کبھی ناگواری کا اظہار کیا اور نہ تردید، بلکہ ایسی سرگرمیوں کو اپنی زندگی کا اعزاز ہی سمجھا، جوا کھیلنے کا برملا اعتراف بھی کرتا ہو، نشہ وغیرہ کے ذکر پر مسکرا کر خاموش رہ جاتا ہو۔ یہودی خاندان سے تعلق بھی چھوڑنے پر تیار نہ ہو۔ اسے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ فرقہ وارانہ تنظیموں کے جھرمٹ میں سجادیا گیا۔
ایسی سیاسی جماعت جو پاکستانی سیاست میں بالکل منفرد انداز سے داخل ہوئی ہو جس میں خواتین پر کسی پابندی کے بنا جلوسوں، جلسوں آزادانہ انداز سے شرکت کی ہمت افزائی کی گئی، خواتین کھل کر ڈانس کرتی تھیں، جلسوں میں ان کی شرکت ان کا طرہ امتیاز تھی جن کی شرکت پر سیاسی جماعتوں نے بشمول ن لیگ نے اعتراضات کئے تھے شاید اب ایسی تمام سیاسی جماعتیں بھی مطمئن ہوگئی ہوں گی کہ ایک اکھڑ مزاج سیاسی جماعت جو کسی روایت و مذہبی قیود کی پابند نہ تھی بالآخر ان کی صفوں کی طرف خود ہی کھنچی چلی آرہی ہے۔ شیعہ سنی اتحاد کی بے وقت گفتگو آنے والے وقتوں سے خبردار کررہی ہے کہ پہلے تو ایک شیعہ تنظیم کو پی ٹی آئی کا پارلیمانی درجہ دینے کی کوشش ہورہی تھی پھر یک دم سنی اتحاد بنانا اور اسے شیعہ سنی اتحاد قرار دینا۔۔ کچھ اچھا شگون نہیں لگ رہا۔