ذوالفقار علی زلفی
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق بالآخر مری معاہدے کی رو سے “کروڑ پتی” متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزارت اعلی کی مسند سے دستبردار ہوگئے اب ان کی جگہ چیف آف جھالاوان سردار ثنااللہ زھری یہ نشست سنبھالیں گے۔
ڈاکٹر مالک کی طرح سردار زہری کو بھی دو مسائل سے نمٹنا ہوگا گوکہ ستم رسیدہ بلوچستان کے مسائل کی فہرست کافی لمبی ہے , غربت , پسماندگی , صحت , تعلیم , بےروزگاری , پانی , فرقہ واریت وغیرہ وغیرہ مگر چونکہ پاکستانی ریاست کیلئے یہ مسائل سرے سے مسائل کے زمرے میں نہیں آتے اس لیے مسئلے فقط دو ہیں۔۔۔ جی ایچ کیو کے پیوستہ مفادات کا ہر ممکن تحفظ اور بلوچ تحریک کی بیخ کنی ۔۔۔ہرچند یہ دونوں مسائل درحقیقت ایک ہی ہیں ۔۔۔اس حوالے سے اگر “متوسط طبقے” کی حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً ان کی کارکردگی ہر لحاظ سے شاندار رہی ہے۔
مزاحمتی تحریک کو بیدردی سے کچلا گیا , مرد تو مرد ہیں خواتین بھی نہ چھوڑے انہوں نے , زندہ رہنماؤں و کارکنوں سمیت شہید رہنماؤں مثلاً غلام محمد بلوچ کا گھر بھی نذرآتش کیا گیا تانکہ بلوچ درس عبرت حاصل کریں , کتابوں پر پابندی عائد کی گئی تاریخ میں پہلی دفعہ بلوچی کتابوں کو ممنوع مانا گیا , براہمدغ بگٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا یا شاید ان کو طبقاتی مفادات کے ہرممکن تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی , گوادر کو بلوچستان سے جدا تسلیم کروایا گیا۔۔۔
یعنی ڈاکٹر مالک نے ڈھائی سالوں میں وہ کردکھایا جو نواب اسلم رئیسانی پانچ سالوں میں نہ کرسکے۔
اب سردار ثنااللہ زہری کو یہ سلسلہ آگے بڑھانا ہوگا۔۔۔غور کیا جائے تو سردار زہری کی کامیابی کے امکانات ڈاکٹر مالک کی نسبت زیادہ روشن ہیں ۔۔۔سردار ہونے کی وجہ سے ان کو براھمدغ بگٹی , حیر بیار مری اور میر سلیمان داؤد جیسے “مزاحمتی” سرداروں تک براہ راست رسائی حاصل ہے۔
قبل ازیں بھی وہ پس پشت رہ کر اپنی اس حیثیت کا استعمال کرواچکے ہیں ۔۔۔پھر وہ ایک مسلح قبائلی و نیم مذہبی جتھے کے سربراہ بھی ہیں جو ایک عرصے سے بلوچ مزاحمت کاروں کے قتل و سرینڈر کا کام بڑی کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ان کی قبائلی طاقت اور دبدبے سے سرداران مینگل بھی خائف رہے ہیں ۔
رہ گئے مکران اور رخشان کے مزاحمت کار تو ان کی حیثیت یوں بھی سردار گزیدہ تحریک میں ثانوی ہے اور دوسرا وہ پے درپے اندرونی و بیرونی حملوں کے باعث تقریباً نڈھال ہوچکے ہیں , سو , راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
اگر ڈاکٹر اللہ نذر اور خلیل بلوچ منتشر طاقت کو مجتمع کرکے نئے سرے سے عوام کو منظم کرنے کی کوشش کریں اور اس کوشش کو خالصتاً طبقاتی بنیادیں فراہم کی جائیں یعنی اچھے سردار اور برے سردار کی تفریق مٹاکر صرف سردار کو مدنظر رکھا جائے تو چیف آف جھالاوان کے نیک اردوں کے سامنے بند باندھا جاسکتا ہے۔گوکہ فی الحال اس کے آثار دور دور تک عنقا ہیں مگر اب تک دل خوش فہم کو ہیں ان سے امیدیں۔۔۔
حیربیار مری , جاوید مینگل , مہران مری اور براھمدغ بگٹی جیسے سردار آپس میں لاکھ اختلاف رکھیں اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ میں وہ متحد ہیں ۔۔۔سردار دوسرے سردار پر حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار بحر قلزم کی تہہ ٹٹولتا ہے مگر نچلے طبقے کا “انقلابی” ان کیلئے کسی چیونٹی سے بھی زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔
اس لیے حالیہ تحریک میں مسلح قبائلی پراکسیوں کے ہاتھوں نچلے طبقات کے اراکین ہی شہادت کے رتبے سے سرفراز ہوئے ۔بگٹی , مری , مینگل یا کسی اور سردار خیل گھرانے کے چشم و چراغ کو گزند تک نہ پہنچی۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سردار ثنااللہ زہری کا شمار خاکی وردی کے اہم ترین وفاداروں میں ہوتا ہے پھر ان کا تعلق بلوچ قبائلی نظام کے اس بوسیدہ حصے سے ہے جو عورتوں کو زندہ درگور کرنے کو عین بلوچ روایت مانتے ہیں , وہ اس گلے سڑے سماجی نظام کے مضبوط پہریداروں میں سے ہیں جہاں جمہوریت , مکالمہ اور سیاسی آزادی کو کفر کے مترادف مانا جاتا ہے۔
خاکی وردی کا یہ گھوڑا نہ صرف تیز دوڑے گا بلکہ راہ میں آنے والی گھاس کو کچلنے کے شوق میں بھی مبتلا ہوگا , اسلیے , مشتری ہوشیار باش
♣
3 Comments