بلوچ قومی تحریک کی حالیہ لہر میں جہاں متعدد افراد جاں نثار کرچلے وہاں کچھ تاریک زندانوں میں زندہ چن دیے گئے اور بعض جلاوطنی کی ذلت آمیز اور بے شناخت زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے…..البتہ دیگر تحریکات کی طرح بلوچ تحریک میں بھی ایک طبقے نے بہتی گنگا میں خوب اشنان کیا ۔ کسی نے مال و زر بٹورے , کسی کے حصے میں بلاوجہ کی شہرت آئی اور بعض لاشوں اور شکستہ خوابوں پر چڑھ کر مستقبل سنوار گئے….
کچھ ایسا ہی قصہ ایک معروف بلوچ گلوکار کا بھی ہے…میرے جگری دوست اور بڑے بھائیوں کی طرح قابل احترام کالم نگار رزاق سربازی نے مذکورہ گلوکار حفیظ بلوچ کی شخصیت اور مبینہ قربانیوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً انگشت بدنداں رہ گیا ، سوچ رہا ہوں روؤں دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں….
بلاشبہ حفیظ بلوچ ایک معروف فنکار ہیں اور ایک فنکار کی حیثیت سے ان کو قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے مگر بلوچ تحریک سے ان کا تعلق کب اور کیسے پیدا ہوا ؟ یہ سوال میرے قلب مضطر کے نہاں خانوں سے رہ رہ کر اٹھ رہا ہے…ان کی فنکارانہ زندگی مارکیٹ سے منسلک رہی ہے، مارکیٹ میں قوم پرستانہ گیتوں کی مانگ بڑھنے پر انہوں نے بھی ایک آدھ گیت گاکر داد سمیٹی…عارف بلوچ اور شاہجہان بلوچ ان سے زیادہ اس دشت کی سیاحت کا تجربہ رکھتے ہیں بلکہ یہ دونوں فنکار تاحال مارکیٹ کے مطالبات پورا کررہے ہیں تو کیا مان لیا جائے عارف بلوچ اور شاہجہان بلوچ سب سے بڑے مزاحمتی فنکار ہیں؟؟؟….
حفیظ بلوچ محض ایک گلوکار ہیں ان کے ساتھ انقلابی , قوم پرستی , مزاحمتی یا کوئی اور لاحقہ و سابقہ لگانا نہ صرف نری زیادتی ہے بلکہ ان حقیقی انقلابی گلوکاروں کی حق تلفی بھی ہے جو وطن پرستی کی آگ میں جل کر خاک ہوئے…..حفیظ بلوچ کو اگر استاد عبدالستار بلوچ جیسے قابل فخر بلوچ فرزندوں کی شاگردی کا شرف حاصل ہے تو اس شرف کے بھی وہ اکیلے حصہ دار نہیں شوکت مراد , عارف بلوچ , شاہجہان بلوچ , مسلم حمل , اسلم اسد سمیت متعدد گلوکار ان سے فیض حاصل کرچکے ہیں…..بڑی بات تب ہوتی جب وہ استاد کی سنت کو زندہ رکھتے جو وہ نہ کرسکے اور شاید یہ ان کا مطمع نظر بھی نہ تھا تو ایسے میں ان سے تعلق کی شیخیاں بگھارنا چہ معنی دارد؟؟..
محترمہ عمیرہ بلوچ کے ارشادات و فرمودات بھی حقیقت سے میل نہیں کھاتے…ان کے مطابق انہوں نے اپنے شوہر (حفیظ بلوچ) کی قوم پرستانہ گلوکاری کے باعث پاکستان میں بہت کچھ جھیلا اور مزید فرماتی ہیں زکری کمیونٹی سے تعلق رکھنے کے باعث میں نے دوہری نفرت دیکھی….اول ان کے شوہر کا قوم پرستانہ گلوکاری سے کوئی تعلق نہیں اگر ہوتا تب بھی ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا….متعدد جلاوطن بلوچوں (حقیقی انقلابی) کے اہل خانہ پاکستان میں ہیں معدودے چند چوٹی کے رہنماؤں کے کسی کے اہل خانہ نے کبھی تنگی داماں کی شکایت نہ کی….جملے کا دوسرا حصہ سرے سے بلوچ معاشرے پر وار ہے….
زکری کمیونٹی بلوچ معاشرے کا حصہ ہے اور ان کو وہ تمام معاشرتی حقوق حاصل ہیں جن کی ضمانت بلوچ معاشرہ دیتا ہے….چونکہ بلوچ معاشرے میں ذکری–نمازی تضاد کی شدت و حدت نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے پاکستان میں دیگر اقلیتی فرقوں کی نسبت ذکری فرقہ نہ صرف زیادہ محفوظ ہے بلکہ ان کے بعض افراد بلوچ تحریک کے اہم ترین رہنماؤں میں بھی شمار ہوتے ہیں…..دوہری نفرت کہاں اور کس جگہ محترمہ کے مشاہدے میں آئی؟؟….کوئی ہم کو بھی سمجھاوے , بھلا ہوگا….
بلوچ تحریک سے منسلک خواتین کا کردار یقیناً ستائش کے قابل ہے، ان کا نام ماتھے پر سجانے کو جی چاہتا ہے جیسے محترمہ سلمٰی غلام محمد بلوچ , محترمہ کریمہ بلوچ , محترمہ فرزانہ مجید بلوچ , محترمہ سمی بلوچ یا ڈاکٹر خالد کی والدہ ماجدہ , ان گنت نام ہیں جنہوں نے سنتِ بانڑی کو زندہ رکھا….تاہم ان تمام گراں قدر خواتین کی دھول میں بھی عمیرہ بلوچ ندارد….پھر اس افسانہ طرازی کا مقصد؟؟؟….
کراچی سے یورپ تک کے سفر میں جن اذیتوں ، مصیبتوں ، ملامتوں اور بلاؤں کا عمیرہ بلوچ نے بہادری سے سامنا کیا وہ یقیناً تعریف کے قابل ہے….اس سفر میں انہوں نے تاریکی کی قوتوں کو شکست دے کر اپنی ذات کا جو لوہا منوایا اس سے بھی انکار نہیں مگر یہ سفر ایک بہتر اور تابناک مستقبل کا سفر تھا , خالصتاً ذاتی سفر……
یہ اپنے محبوب شوہر سے ملنے کا حسین اور رومانی سفر تھا….داستان عشق میں ایک بے بہا اضافہ بھی کہا جاسکتا ہے یا ایک ماں کا اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کی خاطر بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق بھی ہوسکتا ہے….اپنی ذات کیلئے سوچنا اور اس کیلئے کچھ کر گزرنا برا نہیں ہرذی نفس کو یہ حق حاصل ہے مگرذاتی مفاد کو قومی مفاد کے نام سے پیش کرنا درست نہیں ….
یہ تابناک مستقبل کا ایک ایسا سفر تھا جو کامیابی سے ہمکنار ہوچکا ہے جبکہ موت کے کندھوں پر جو سفر بلوچ کررہا ہے اس کی کامیابی ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے محترمہ عمیرہ بلوچ کو نہ اس سفر کا شوق تھا نہ ہے , سو وہ منزل پاکر خوش رہیں….میری طرف سے بھی نیک تمنائیں…..
♠