خان زمان کاکڑ
جس طريقے سے پاکستان کے ایک لبرل دانشور ارشد محمود اس خطے ميں رہنے والے انسانوں کے طرز زندگی، تاريخ، آرٹ اور علمی ورثے کو ‘ثقافتی گهٹن‘ کی ايک متعصبانہ اصطلاح سے ليبل کرتے آرہے ہيں، اس کو ميں ايک سطحی لبرل نعره بازی کا نام دينے ميں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہيں کرتا۔
ارشد محمود اور ان کے پاکستانی لبرل ہمنوا ايک بدترين علمی گهٹن ميں پهنسے ہوئے لوگ ہيں۔ان کی ايک پرانی کالونيل سوچ ہے۔ان کو شايد پتہ نہيں کہ وه نوآبادياتی تناظر جن کے تحت مختلف محکوم اقوام کی ثقافتوں کے بارے میں ايک وسيع پيمانے پر متون پيدا کيے گئے تهے وه تناظر اب يورپ ميں بهی کسی خاص کام کے نہيں رہے ہيں اور انسانی و سماجی علوم ميں مابعد نو آبادياتی اور مابعدجديد تصورات نے ماضی کی اس استعماری علم کی د ھجیاں اڑادی ہيں ۔ يہ پاکستانی لبرلز ابهی تک انگريز منشيوں کی زبان ميں بات کرنے کو جديديت، تہذيب اور ترقی کا نام ديتے ہيں۔
ارشد محمود کی کتابوں اور تحريروں سے ميں کافی سالوں سے آشنا ہوں۔وه جس توہین آميز اور انتہائی قابلِ اعتراض لہجے ميں لوگوں کی ثقافتوں کو نشانہ بنانے کی روایت کو آگے لے جارہے ہيں اور جس طرح سے زندگی کے ہر شعبے کو ثقافت کے عنوان کے تحت لاکر اس کی گمراه کن تشريحات کرتے ہيں، اس کو برصغیر ميں انگريز منشيوں اورمستشرقين کی دو صدی يا اس بهی پہلے کی روايت کے ايک ناکام چربے کا نام ديا جاسکتا ہے۔ان کی بدقسمتی یا پسماندگی يہ ہے کہ وه ابهی تک معاصر کالونیلزم کے تناظر اور لہجے سے بهی کوئی آشنائی پيدا نہيں کرسکے ہيں۔ ان کی تحریروں ميں نئے ڈسکورسز کا دور تک کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔
ارشد محمود کی کتاب (ثقافتی گهٹن اور پاکستانی معاشره) کے ايک ايک مفروضے سے نہ صرف اختلاف کيا جاسکتا ہےبلکہ اس سے پهيلنے والی گمراہيوں کا اگر سنجيده جواب نہیں ہوا تو اس سے مطالعہ پاکستان کی طرح تاريخی شعور کے حوالے سے ايک خطرناک علمی گهٹن کی روايت قائم ہوجائےگی۔ يہ کتاب کئی سالوں پہلے چهپ چکی ہے۔ مجهے نہیں پتہ کہ کسی نے اس کو ايک سنجيده جواب دينے کی کوشش کی ہوگی لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ ارشد صاحب کو ابهی تک اپنی ثقافتی گهٹن کے مفروضے پہ ايسا ايک پختہ يقين ہے جيسا ان کے ايک اور ہمعصر مبارک حيدر کو ‘تہذيبی نرگسيت‘ کے مفروضے پہ يقين ہے۔
“ثفاقتی گهٹن اور پاکستانی معاشره” کا پہلا باب (ثقافتی گهٹن کے اسباب پر ايک مختصر نظر) ہے۔ ہم اپنے تبصرے کو اسی ايک باب تک محدود رکهتے ہيں۔
‘علاقے کے تجرد‘ کو ثقافتی گهٹن کا پہلا سبب قرار دے کر انہوں نے بڑی بے مفہوم قسم کی تجريدی باتيں کی ہيں۔ ان کا مفروضہ ہے کہ برصغير کا اسلام دنيا ميں نرالا ہے۔اس مفروضے کو ثابت کرنے کيلئے انہوں نے دعوی کيا ہے :۔
“بيشتر مسلمان ملکوں میں اقلیتوں کی حالت ہم سے اچھی ہے۔ قحبہ خانے، نائٹ کلب، گانے بجانے، ناچنے اور مخلوط محفلوں کا انعقاد عام ہے۔ لوگوں کی معصومانہ خوشیوں پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی، جب تک کہ کوئی بات سچ مچ فحاشی کے زمرے میں نہ آئے یا فساد کا سبب نہ بنے“۔
يہاں پہ ‘ہم‘ سے مراد ان کا برصغير ہے۔مطلب يہ کہ برصغير سارا ايک جيسا ہے۔ يہاں پہ جو بے شمار ثقافتوں کے لوگ رہتے ہیں وه سارے ايک جيسے ہيں۔سارے اقلیتوں کے دشمن ہيں۔تاريخ ميں اگر ارشد صاحب کی کوئی دلچسپی ہوتی تو وه يہ بهی بتاتے کہ اس برصغير ميں اقليتوں کی حالت سو دو سو سال پہلے ابتر تهی يا آج؟ پاکستان ميں اقليتوں کے خلاف عام مسلمان سرگرم ہیں يا ايک رياستی مشینری؟۔
اقليتوں کے خلاف يہ سوچ سماج سے رياست تک اوپر گئی يا رياست نے ايک پاليسی اور سياست کے تحت سماج ميں اس کیلئے خطرناک حد تک گنجائش پيدا کر دی؟ اس کے علاوه ايک جواب طلب سوال يہ بهی ہے کہ يہاں پہ تاريخی نوعيت کی سيکولر تحریکیں چلی ہيں، مذہبی اقليتوں کے حقوق کيلئے جدوجہد کرنے والے لوگ رہے ہيں، ان کا پهر کس ثقافت سے تعلق ہے؟
قحبہ خانے کو لوگوں کی ایک ‘معصومانہ خوشی‘ کہنا کتنا مناسب ہوگا اس پہ بات کرنے کی ضرورت نہيں ليکن انہوں نے جو ‘سچ مچ فحاشی کے زمرے‘ کی بات کی ہے اس ميں وه ہمیں يہ بتانا بهول گئے ہیں کہ ‘سچ مچ فحاشی ‘ ہوتی کیا ہے؟ قحبہ خانہ تو کم از کم ان کی نظرميں سچ مچ فحاشی نہيں۔پهر شايد عام بازاروں ميں سيکس کرنے کو سچ مچ فحاشی کہتے ہونگے يا پهر شايد سچ مچ فحاشی کا سيکس سے کوئی تعلق نہيں ہوگا اور کوئی اس طرح کا عمل ہوگا جس کا ہم جيسے ثقافتی گهٹن کا شکار لوگوں کو پتہ ہی نہیں۔يہ ‘معصومانہ خوشی‘ کیا ہوتی ہے؟ اس کی تعريف اگر وه کرتے تو پهر ہميں ‘غیرمعصومانہ خوشیوں‘ کا بهی پتہ چلتا۔
انہوں نے دعوی کیا ہے:۔
“پوری تاریخ گواہ ہے، برصغیر کے مسلمان خود کبھی نہیں بدلے، کبھی آگے نہیں بڑھے۔ ہم اس وقت تھوڑا سا بدلتے ہیں جب تاریخی قوتیں ہمیں بدلنے پر مجبور کر دیتی ہیں، اور زمانہ بہت آگے کو جا چکا ہوتا ہے” ۔
کونسی تاريخ؟ کس علاقے کی تاريخ ؟ کيا برصغير میں تاريخ سارے علاقوں اور قوموں ميں ايک ہی سمت ميں سفر کرتی رہی؟ کونسی ‘تاريخی قوتيں ہميں بدلنے پر مجبور کرديتی ہيں‘؟ باہر کی قوتيں يعنی عربوں، مغلوں اور انگريزوں کی قوتيں؟یا کوئی اور شے؟ کالونیلزم کو جائز کرنے کیلئے تو لفاظی ہی کرنی پڑتی ہے۔
علاقے کے تجردکے مفروضے کو ثابت کرنے کيلئے ان کے پاس کوئی دليل نہيں کہ برصغير کے مسلمان کيوں ساری دنيا سے نرالے ہيں؟۔ وجوہات کیا ہیں ؟ ۔
آگے لکھتے ہيں، “ کیا اس خطے کی مٹی میں کچھ ایسی بات ہے کہ ساری دنیا بدل سکتی ہے، آگے کو دیکھ سکتی ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے، لیکن ہم بر صغیر کے مسلمان اپنے خود ساختہ بُنے جال سے باہر نہیں نکل سکتے؟” يہ غيرجمالياتی قسم کا فقرہ ہے جس سے ان کو کسی علمی گهٹن کا احساس نہيں ہوا۔
ارشد صاحب! آپ جس ‘ثقافتی گهٹن‘ کے خلاف لڑنے والی لشکر کی سربراہی کررہے ہيں تو ذرا يہ راز بهی بتائيں کہ آپ خود کس مٹی کے بنے ہوئے ہيں؟ آپ کيوں اس خطے کے باقی ‘پسمانده‘ لوگوں کی طرح نہيں اور اتنے ‘ترقی يافتہ‘ ہوچکے ہيں؟
“ہم جیسی اپنی خوشیوں اور ترقی کی دشمن قوم شاید ہی دنیا میں کوئی اور باقی رہ گئی ہو۔” قوم سے ان کی مراد پاکستانی قوم ہے جو کہ ان کی علمی گهٹن کا ایک بڑا ثبوت ہے۔
مذہب کو ثقافتی گهٹن کا دوسرا سبب بتاتے ہوئے انہوں نے برصغير اور بالخصوص پاکستان ميں آرٹ اور فنون لطيفہ کی ‘حالت زار‘ کا رونا رويا ہے۔ آرٹ اور فنون لطیفہ کی ترقی کی راه ميں مذہبی طبقے کے منفی کردار کی نشاندہی کرنا ضروری ہے ليکن اس خطے میں آرٹ اور فنون لطيفہ کے ساتھ لوگوں کے تعلق کو جس طرح سے ارشد صاحب نے بتايا ہے اس کو ایک محدود مطالعے کا شاخسانہ کہا جاسکتا ہے۔ یہاں پہ مختلف اقوام کے لٹريچر، ڈانس اور ميوزيک کی ايک بڑی شاندار تاريخ ہے ، اس ميں وقت کے ساتھ بڑی بڑی تبديليوں کو ديکها جاسکتا ہے، مذہب اور رياست نے اگر ان اقوام کے آرٹ اور فنون لطيفہ کے اس تاريخی عمل کو متاثر کيا ہے تو اس کی ذمہ داری لوگوں پر ڈالنے کی بجائے اس خاص طبقے اور ادارے پہ ڈالی جائے جس نے يہ جرم کيا ہے۔
ارشد صاحب کا مسئلہ يہ ہے کہ وه ہر جگہ پہ اس طرح کا آرٹ اور فنون لطيفہ ديکهنا چاہتے ہيں جس کو آج کی دنيا کی مارکيٹ ميں پذيرائی حاصل ہے۔ آرٹ اور فنون لطیفہ کو ساری دنیا میں یکساں طور پر دیکهنے والے اس پاکستانی رياستی اشرافيہ سے مختلف نہیں جو تاريخی اقوام کو يکساں طور پر ايک زبان، نظریے اور ثقافت ميں سمونے کی ايک خطرناک رجعتی کوشش ميں مصروف ہے۔
ارشد صاحب نے ثقافتی گهٹن کا تيسرا سبب معاشی پسماندگی بتايا ہے اور پہلے جملے ميں ہی ايک قابل بحث نکتہ عرض کيا ہے:۔
“اس ميں کوئی شک نہيں، اگر ہم اقتصادی طور پر ترقی يافتہ ہوجائيں تو ثقافتی پسماندگی کا مسئلہ خود بخود حل ہوسکتا ہے“۔
اقتصادی طور پر ترقی يافتہ ہونے کا مطلب کيا ہے؟ جب ہم سارے سرمايہ دار ہوجائيں؟ ہم ترقی یافتہ کس طرح ہوجائيں؟ یورپ اور امريکا جيسے؟ کسی کو کالونی بنائيں اور کسی کے وطن کو جنگ و جدل کا مرکز بنائيں؟ پاکستان میں جو لوگ اقتصادی طور پر ‘ترقی يافتہ‘ بن چکے ہيں وه کيا ثقافتی گهٹن سے نکل چکے ہيں؟
ابهی ايک ہفتہ پہلے سينٹ ميں پاک فوج کےانتظامی کنٹرول ميں چلنے والے پچاس تجارتی اداروں، پروجيکٹس، يونٹس اور ہاؤسنگ کالونيز کی تفصيلات پيش کی گئيں، اس سے پہلے جو ريسرچ منظرعام پر آئی ہے اور جو گوشے پوشیده ہیں اس سے قطع نظر سینٹ میں پيش ہونے والی تفصیلات کیا پاک فوج کو اقتصادی طور پر ايک ترقی يافتہ اداره ثابت نہیں کرتی ہيں؟ ارشد صاحب سے سوال يہ ہے کہ پاک فوج کی ثقافتی پسماندگی کا مسئلہ کس حد تک ختم ہوچکا ہے؟
ارشد صاحب ‘بے رحم مقتدر ايليٹ کلاس ‘ کا ہاتھ روکنے کی نصحيت بهی کرتے ہيں جس نے ‘ملک کے وسائل پر قبضہ کر رکها ہے اور جسے وه عوام کی بہبود پر خرچ کرنے کی بجائے علاقائی تناؤ کو قائم رکهنے پر ضائع کرتی ہے۔ اس کيلئے فيوڈل اور قبائلی نظام کا فوری خاتمہ ضروری ہے تاکہ ہم مکمل خواندگی اور صنعتی ترقی کی طرف گامزن ہوسکيں‘۔
چلیں مان لیتے ہيں کہ کوئی فیوڈل اور قبائلی نظام ہے لیکن ارشد صاحب اس کے فوری خاتمے کا کوئی طريقہ کار نہيں بتا تےہيں۔ جب يہ نظام ختم ہوجائے گا تو اس کی جگہ کونسا نظام لے گا؟ يہاں پہ آئيڈيالوجی کا سوال اگر ہم کريں تو ا ن کے نزديک آئيڈيالوجی بذات خود ثقافتی گهٹن کی ايک بڑی وجہ رہی ہے اور ان کو یہ سوسائٹی آئيڈیالوجی کی اسیر نظر آتی ہے۔ شايد ان کی نظر ميں فيوڈلزم اور قبائيليت کے خلاف بات کرنا اور اس کے فوری خاتمے کو ضروری سمجهنا کوئی آئيڈيالوجی نہيں؟ يہ ‘ايليٹ کلاس‘، يہ ‘صنعتی ترقی‘ اور ‘خواندگی‘ کی اصطلاحات کسی آئيڈيالوجی سے تعلق نہيں رکھتیں؟
اقتصادی پسماندگی کے بعد انہوں نے ثقافتی گهٹن کی ایک اور وجہ پدرسری نظام بتائی ہے ۔ وه لکهتے ہیں:
“یہ نظام مردانہ آمريت کو فروغ دیتا ہے اور عورت کی حیثیت کو انسان سے کم تر کرکے اسے ملکیتی چیز میں بدل دیتا ہے اور جنسی آزادی پر ناروا پابندیاں لگاتا ہے، جس سے معاشرے ميں گهٹن کی فضا پيدا ہوتی ہے اور معاشرے کی روحانی اور ذہنی ترقی رک جاتی ہے“۔
ملکيتی چيز سے کيا مراد ہے؟ کيا ارشد صاحب صرف عورت کی حیثيت ملکیتی چيز ميں بدلنے کے خلاف ہيں يا ملکيت کے نظام کا؟ پدرسری نظام کوئی آزادانہ طور پر کهڑا نہيں، يہ کسی بڑے اقتصادی نظام کا ايک حصہ ہے جس کی بنیاد ہی ملکیت پر ہے لیکن جب ملکیت کے اس نظام کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو ارشد صاحب کو وه ثقافتی گهٹن کا شکار اور آئيڈيالوجی کا اسير بنده نظر آتا ہے۔ کیا ارشد صاحب بتاسکتے ہيں کہ تاريخ ميں ايسے معاشرے بهی ہيں جنہوں نے پدرسری نظام کے خلاف کسی آئيڈيالوجی کے بغير جدوجہد کی اور ثقافتی گهٹن سے باہر نکل آئے؟
ارشد صاحب نے ثقافتی گهٹن کی ايک اور وجہ ماضی سے وابستگی بتائی ہے کہ، ‘جس کی ترقی رکی ہوتی ہے وه قوم ماضی پرست ہوتی ہے۔‘ وه شايد يہ کہنا چاہتے ہيں کہ جو قوم ماضی پرست ہوتی ہے اس کی ترقی رکی ہوتی ہے۔ ميں نہيں سمجهتا کہ يہاں کے عام انسان ماضی ميں پڑے ہوئے ہيں۔ ماضی سے ایک تعلق بہرحال فطری طور پر رہتا ہے، اس ميں کوئی برائی نہیں، ماضی پرست ہونے کا قطعاً يہ مطلب نہیں کہ حال اور مستقبل کے تقاضوں سے بالکل لاتعلق ہوجائيں۔ ماضی کے ‘اچهے دنوں‘ کی یاد اصل میں حال کے ‘برے دنوں‘ کے خلاف ایک احتجاج بهی ہے اور حال کے مسائل سے وابستگی کا ایک ثبوت بهی۔ ماضی سے سيکها بهی جاسکتا ہے، اس کو یاد کرنے سے لوگوں کو موبلائز بهی کیا جاسکتا ہے اور اس کو ایک تاريخ کے طور پر مشعلِ راه بهی بنايا جاسکتا ہے۔ ماضی سے وابستگی ایک انتہائی پيچيده مسئلہ ہے۔
ہمارے نزديک يہاں کے لوگوں کے بہت سارے سياسی اور ثقافتی مسائل کی ايک بڑی وجہ يہ ہے کہ ان لوگوں کو ايمپائرز اور رياستوں نے اپنے ماضی سے بہت بری طرح سے عليحده کيا ہے۔ ماضی سے وابستگی نے نہيں بلکہ ماضی سے لاتعلقی نے قومی اور ثقافتی تشخص کے بہت سارے مسائل کو جنم ديا ہے۔
ارشد صاحب پاکستان کے ہر شہر کے چوک پہ کهڑے ديہاڑی والوں اور ريڑهی والوں سے انٹرويوز کريں کہ وه کسی ماضی ميں پڑے ہوئے ہيں يا دو وقت کی روٹی پانے کی فکر ميں؟ وه سٹوڈنٹس سے بات کريں کہ وه ماضی ميں پڑے ہيں يا روزگار کے حوالے سے ايک تاريک مستقبل ميں؟ وه قبائلی علاقوں سے جو لاکهوں لوگ بے دخل ہوئے ہیں ان سے معلوم کريں کہ کيا وه کسی ماضی میں پڑے ہیں يا سيکورٹی، راشن اور مکان پانے کے چکر ميں؟ وه تحریک انصاف سے تعلق رکهنے والے مڈل کلاس پاکستانيوں سے کوئی نشست کريں کہ وه کسی ماضی ميں پڑے ہيں يا اس دن کے ديکهنے ميں جب عمران خان وزيراعظم ہوگا ، کوئی کرپشن نہیں ہوگی اور پاکستان کے ہر شعبے ميں ايماندار اور ديانتدار لوگ عوام کی خدمت ميں لگے ہوئے ہونگے؟
‘تہذيبِ نو کے مفروضہ نقائص‘ کو بهی ثقافتی گهٹن کا ايک سبب قرار ديا جاچکا ہے اور لکها گيا ہے:
“پسمانده قوموں کا ايک مسئلہ یہ بهی ہے کہ نئی تہذيب کی اچهائیوں کو کم اور اس کی برائيوں کو زياده دیکھتی ہيں۔ لوگ ان برائيوں کو بنياد بنا کر اپنی کہنہ اقدار کی خيالی خوبيوں پر اتراتے رہتے ہیں اور انہی کے ساتھ چمٹے رہتے ہيں۔“
يہ نئی تہذيب کیا ہے؟ يہ اچهائی اور برائی کا سوال کيا ہے؟ تہذيب سے شايد ان کی مراد ‘سویلائزیشن‘ ہے جو کہ ايک انتہائی پیچیده مادی ، سياسی اور علمی مظہر ہوتا ہے۔ اس کو آپ کبهی بهی اچهائی اور برائی ميں تقسيم نہيں کرسکتے ہیں۔ اس تہذيب نامی شے سے لوگوں کے بڑے پيچيده تعلقات ہوتے ہيں، يہ اتنا ساده نہيں ہوتے جتنا ارشدصاحب ان کو اچهائی اور برائی ميں بانٹ کر ديکهتے ہيں۔
آگے لکهتے ہيں:
“اورجہاں تک نئی تہذيب کے نقصانات، تضادات اور مسائل کا تعلق ہے، ان کے حل کيلئے مغرب کی اقوام بهی ہر وقت کوشاں ہيں اور پهر ضروری نہيں ہے کہ ہم اندهی تقليد کريں۔ ہميں عقلی اور سائنسی بنيادوں پر ان مسائل کا تجزيہ کرنا چائيے ، اور يوں ہم خود کو ان منفی اثرات سے محفوظ کرسکتے ہيں“۔
وه اگر ان نقصانات، تضادات اور مسائل کی کوئی مثال دے ديتے تو پهر ذرا بات ہماری سمجھ ميں آجاتی کہ فائده مند کيا ہے اور نقصانده کيا۔ اب اگر اپنے ہر وعوے اور مفروضے کو اس طرح مبہم چهوڑا جائے تو صرف لفاظی ہی میں غوطے لگانے ہونگے اور کسی بات سے کوئی مطلب نہيں ليا جاسکے گا۔
پاکستان کے لبرل اور ليفٹسٹ حلقوں ميں يہ ‘عقلی‘ اور ‘سائنسی‘ بنيادوں کی بات بڑے مقبول پرائے ميں استعمال کی جاتی ہے ليکن يہ ايسےکنجوس لوگ ہيں کہ کبهی بهی يہ نہيں بتاتے کہ يہ عقلی اور سائنسی بنياديں ہوتی کيا ہيں؟ وه خود کتنے ان بنيادوں پر زندگی گزارتے ہيں؟ وه آپ سے کہيں گے کہ فلاں مسئلے کو عقلی اور سائنسی بنيادوں پر حل کيا جاسکتا ہے۔ جب آپ ان سے پوچهتے ہیں کہ کس طرح عقلی اور سائنسی بنيادوں پر؟ تو پهر ان کے پاس مزيد بات کرنے کيلئے کچھ بچتا نہيں۔
مجهے ہميشہ ان لوگوں کی عقلی اور سائنسی بنيادوں والی بات بڑی غيرعقلی اور غيرسائنسی لگی ہوئی ہے وه اس لئے کہ انہوں نے صرف يہ فرض کیا ہے کہ عقل اور سائنس ہے جس ميں ہر مسئلے کا حل موجود ہے، اگر ايسا ہے تو پهر اس عقل اور سائنس کی تبليغ کرنے کی بجائے آپ ڈائريکٹ اسی طريقہ کار پر جاتے کيوں نہيں؟ مذہبی طبقے کا ايمان اب يہ بنتا جارہا ہے کہ سائنس اسلام سے ماخوذ ہے۔ اب وه اگر ملکيت کے اس دعوے کی بجائے ڈائريکٹ کسی سائنسی ايجاد يا نظريے پہ جائيں تو پهر شايد ان کے ساتھ کوئی تعلق بنانے کا مقصد بنے۔
اسی طرح لبرل حضرات عقل اور سائنس کے قصیدے گانے کی بجائے اگر عقلی اور سائنسی بنیادوں پر کسی مسئلہ کو سمجھ کر اس کا کوئی حل بتائيں تو پهر ہمارا ان کے ساتھ کوئی تعلق بن سکتا ہے۔ اب اگر مجهے روزانہ دس ہزار دفعہ بتايا جائے کہ آپ عقلی اور سائنسی بنيادوں پر زندگی گزاريں تو اس سے ميں کوئی مطلب نہیں لے سکتا ہوں جب تک ميرے لئے ايک ايسی صورتحال نہ بنائی جائے جس کی عقل اور سائنس کے تحت مجهے پهر رہنا پڑے گا۔ اگر نصحيت سے ممکن ہوتا تو ڈاکٹر پرويز ہود بهائی سارے پاکستان بلکہ سارے جنوبی ایشیاء ميں عقلی اور سائنسی انقلاب کب کے لے آتے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو يہ ہے کہ عقل اور سائنس کو کائناتی حقيقت سمجهنے والے لوگ ساری دنيا کو ایک لاجک کے تحت چلانا اور بيرونی مداخلتوں کو جواز فراہم کرنا چاہتے ہيں۔ کريٹيکل تهيوريز اور پوسٹ مارڈن ڈسکورسز کو اگر يہاں کے لبرلز کبهی ايکسپوز ہوجائيں تو پهر اس مسئلہ پہ بحث کهل جائے گی کہ سائنس واقعی کوئی کائناتی حقيقت ہے يا يہ بهی کسی کے ہاتھ ميں استحصال کا ايک ہتهيار ہے۔
مختصراً يہاں پہ اتنا کہنا ضروری ہے کہ ہر سوسائٹی کی اپنی بهی کوئی سائنس ہوسکتی ہے۔ عقل اور سائنس کے کائناتی خدا کی فرمانبرداری کی تلقين کرنے والے نہ صرف اس دنيا کی رنگینی کو ختم کرنا چاہتے ہيں بلکہ سماج ميں بہت ساری تنقيدی روايات کو بهی مٹانا چاہتے ہيں۔ فو ک لور، صوفی ازم، جادو، مذہب وغيره کو لاجک سے پہلے کا دور قرار دينے والوں نے انسانوں کو ايک استحصالی نالج اکانومی کا غلام بنايا۔ اس غلامی کے خلاف مزاحمت کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
نالج اب ايک اسحتصالی اور ظالم نظام کی شکل اختيار کرچکی ہے۔ اب اس قول زرين پہ اکتفاء نہيں کيا جاسکتا ہے کہ علم روشنی ہے۔ علم کے موجوده نظام کو تنقيدی نظر سے ديکهنے والے لوگ کبهی يہ کہنے کی جسارت بهی کرجائیں گے کہ علم اندهيرا ہے اور ايک بڑی خباثت ہے۔
ارشد صاحب کہتے ہيں، “ازمنہ وسطی کے قاعدے اب ہمارا کچھ نہيں سنوار سکتے۔” لبرل طبقہ ايک خطرناک قسم کے اينکرانزم کا شکار ہے۔ وه ہر مسئلے ميں ازمنہ وسطی کی بات لے آتے ہيں اور پتہ نہيں کس طرح سے ہميں ماضی کے اس قديم دور ميں پهينک ديتے ہيں؟ ان کو شايد پاکستان کی فوج کے قاعدے ازمنہ وسطی کے لگتے ہيں اور نہيں ديکهتے ہيں کہ دنيا کی اس ‘ساتويں نمبر‘ بڑی فوج کے قاعدے انتہائی ماڈرن ہيں۔ يہ بهی بتاتا جاؤں طالبان اور القاعده جو بهی ہيں، جدیدیت کے جتنے حق ميں ہيں يا خلاف ہيں ليکن يہ کسی بهی طور پر ازمنہ وسطی کے قاعدوں کے تحت کام نہيں کرتے۔
پاکستان ميں ثقافتی گهٹن کی آخری وجہ سياسی نظام کی پسماندگی بتائی گئی ہے جو کہ ارشد صاحب کے بقول سب سے اہم نکتہ ہے۔ وه سياسی نظام کے تقاضوں کے حوالے سے کچھ انتہائی غیرواضح بات کرتے ہيں۔ ان کے خيال ميں ايليٹ کلاس جوکہ ملٹری اور سول بيوروکريسی پر مشمتل ہے اس لئے راج کر رہی ہے کہ عوام جاہل ہیں۔ ان کے خيال ميں اس کلاس کے ڈانڈے اس ملک کے فيوڈل کلاس سے جڑے ہوئے ہيں۔
يہاں پہ يہ سوال بنتا ہے کہ پاکستان ميں کونسی فيوڈل کلاس ہے اور واقعی يہاں پہ سرمايہ دارانہ نظام نہيں آچکا ہے؟ انڈيا ميں فيوڈلزم کی بحث اکيڈميا ميں کئی دہائيوں پہلے بعض بہت سيرحاصل نتائج پر پہنچ چکی تهی ليکن پاکستان ميں يہ بحث ابهی تک ايک ايسے طريقے سے کهل نہيں چکی ہے کہ جس سے ہم اس اصطلاح اور اس سے جڑے تصورات کا کوئی مطلب نکال سکيں۔
مجهے ياد پڑتا ہے کہ 2008 ميں ڈان ميں عائشہ صديقہ اور حيدرنظامانی نے اس بحث کو کهولنےکی ايک چهوٹی کوشش ايک آدھ مضمون کی شکل ميں کی اور پهر ڈاکٹر مبارک علی نے اس موضوع پہ تهوڑا بہت لکها ليکن وه بهی ايک تهيوريٹکل پہلو تک محدود ايک کوشش تهی جس سے سماج ميں آنے والی تبديليوں کا اپنی اپنی علاقائی، سياسی اور جغرافيائی خصوصيتوں کے ساتھ ہميں کوئی اندازه نہيں ہوا۔
سياسی اور اقتصادی منظرنامے ميں بڑی تاريخی اور کيفيتی تبديلياں آئی ہيں، پوری کی پوری پوليٹيکل اکانومی ايک اور رخ اختيار کرچکی ہے جس کا خدوخال بنيادی طور پر سرمايہ دارانہ ہے اور اسی طرح سماج ميں نئے بننے والے پيٹرونيج نيٹ ورکس کا مسئلہ ہے۔ اب وه دور نہيں کہ لوگ ايک گاؤں ميں خاندانی اور شراکتی طرز زندگی ميں ايک قبائلی شخص کو علامتی طور پر اپنا سربراه تسليم کرکے اس کے ارد گرد پاور کے تعلقات بنانے پہ مجبور تهے۔ بڑے بڑے شہر بن چکے ہيں، بہت سارے دیہات اب شہروں ميں بدل چکے ہيں اور يا وہاں پہ کچھ اس طرح کا طرز زندگی شروع ہوچکا ہے جو ماضی سے بہت ہی مختلف ہے۔
اپنی ايک خاص نوعيت کی مڈل کلاس ابهر چکی ہے جو کہ ماضی کی بہ نسبت بہت ہی انفراديت کا شکار اور غيرسياسی ہے، يہاں پہ يہ کہنا بهی بہت ضروری ہے کہ بلوچوں کی مڈل کلاس وه نہيں جو پنجابيوں کی ہے۔ پشتونوں کی مڈل کلاس کے ارمانوں کو دہشت گردی نے تباه وبرباد کرکے رکھ ديا، بعض سماجی موبلٹی ميں اپنے آپ کو محفوظ رکهنے ميں ايک حد تک کامياب ہوچکے ہيں يا اپنے آپ کو کچھ محفوظ مقامات تک پہنچا چکے ہيں۔
پشتونوں کی مڈل کلاس شايد باقی سب قوموں سے پيچيده ہےاور اس کی تاريخی وجوہات ہيں۔ اس کے علاوه فاٹا اور پختونخوا ميں وار اکانومی کی ايک بڑی سلطنت قائم کرنے کی جو پاليسی ہے، ميں نہيں سمجهتا کہ اس کی کوئی فيوڈل صورت ہوگی۔ زمين کی حیثيت جو ايک وقت ہمارے مقبول تصور ميں تهی اب وه حیثيت حيران کن حد تک تبديل ہوچکی ہے۔ سرمايہ دارنہ نظام ميں زمين کی حیثيت وه نہيں رہتی جو قبائلی اور ديہاتی نظام ميں ہوتی ہے۔ زرعی سوال ميں جو تبديلياں آئی ہيں ان کو نظرانداز کرنے کا نتيجہ يہ نکلا کہ سياسی نظام کے بارے ميں عمومی تصور غيرواضح اور مبہم ہوگیا۔
ارشد صاحب اس ملک کی اشرافيہ کے ڈانڈے تو فيوڈل کلاس سے ملاتے ہيں ليکن اسے اس کلاس کا عالمی سرمايہ دارانہ نظام سے کوئی تعلق نظر نہيں آتا۔ تاريخ کا مطالعہ رکهنے والے لوگ بخوبی جانتے ہيں کہ پاکستانی اشرافيہ کی پيدائش اور افزائش کا سوال بنيادی طور پر عالمی سرمايہ دارانہ نظام سے وابستہ ہے۔ نوآبادياتی نظام کی پوری تاريخ کو سمجهے بغیر پاکستانی ملٹری اور بيوروکريسی کی ساخت، مفادات اور طريقہ کار کو سمجهنا ممکن نہيں۔ ہمارے بعض پشتون قوم پرست آج تک کہتے ہيں کہ انگريز نہيں چلے گئے ہيں۔ اس بات ميں بڑی وزن ہے۔
ارشد صاحب فرماتے ہيں، “عوام بے چارے جاہل، غريب اور کمزور ہیں۔ وه اس طاقت اور ايليٹ کلاس کی چالوں کو سمجهنے سے قاصر ہيں۔ مقابلہ کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔”
ماضی کی تفصيل ميں نہيں جاتے کہ اسی پاکستانی عوام کی ايسی سياسی تحريکيں بهی تهيں جن سے نمٹنے کيلئے اس کلاس کے پاس مارشل لاء لگانے کے سوا کوئی اور راستہ نہيں بچتا۔ فوج کشيوں کی ذريعے اس باشعور عوام کو دبانے کی بدترين کوششيں کی جاتی تهيں۔ آج بهی صورتحال ایسی نہيں جيسا تاثرارشد صاحب دے رہے ہيں۔ پيپلزپارٹی کے کسی راہنما نےایک دن کسی ٹی وی ٹاک شو ميں کہا تها کہ اس عوام کی ايک بڑی تعداد روز ذوالفقار علی بهٹو اور خان عبدالولی خان کی قبروں پہ حاضر دیتی ہے، کسی ايوب خان يا ضياء الحق کی قبر پہ لوگ نہيں جاتے۔
يہ جو “شکريہ راحيل شريف” والے لوگ ہيں ان کو بهی ميں جاہل نہيں کہہ سکتا۔ يہ مجهے بڑے سمجھ دار لوگ نظر آتے ہيں۔ ان کو ہم اور ارشد صاحب سے زیاده اپنے ذاتی مفادات کا پتہ ہے۔ يہ اس نظام کا تجربہ رکهنے والے لوگ ہيں جس کی تعريف و توصيف کرنا ارشد محمود صاحب کا مشن بن چکا ہے۔
ساری عوام کو جاہل کہنا ايک سنگين نوعيت کی ناانصافی اور ظلم ہے۔ غريب لوگوں پہ لعن طعن کرنا اور تاريخی قوموں کی ثقافتوں کو بيک جنبش قلم پسمانده ڈکلئير کرنا اب ایک مقبول لبرل رويہ بن چکا ہے۔ يہ لبرل طبقہ جو سازش کرتا آرہا ہے وه ملاؤں کی نسبت تاريخ کے اس موڑ پہ زياده خطرناک نظر آتی ہے۔ اس لئے ہم ضروری سمجهتے ہيں کہ ہم اس لبرل طبقے کے ساتھ ايک ڈائيلاگ کی صورت بناسکیں لیکن وه ڈائيلاگ سے زياده لیبلنگ کا ہنر خوب جانتا ہے۔
Twitter: @khanzamankakar
14 Comments