آصف جاوید
گیارہ اگست 1947، پاکستان کی تاریخ کا وہ اہم دن ہے ، جس دن پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے تحریک پاکستان کے عظیم رہنماء بیرسٹر محمّد علی جناح کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل منتخب کیا تھا۔ گورنر جنرل منتخب ہونے کے بعد، مسٹر جناح نے دستور ساز اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست پاکستان کے خدوخال واضح کئے تھے۔ ریاست پاکستان کا ڈھانچہ کس طرز کا ہوگا؟، ریاست کی پالیسیاں کیا ہوں گی؟۔ ریاست کے اپنے عوام کے ساتھ کس قسم کے تعلّقات ہونگے؟ ریاست کے عمرانی خاکے کے تمام امور کی وضاحت کی تھی۔
اس موقع پر بیرسٹر محمّد علی جناح نے جو اسٹیٹ پالیسی بیان کی وہ پاکستان اور پاکستان میں اقلّیتوں کے حقوق کے حوالے سے ایک رہنما پالیسی سمجھی جاتی ہے۔ اس تقریر میں قائداعظم نے کہا تھا کہ
۔“آپ کا تعلّق کسی بھی مذہب سے ہوسکتا ہے۔ کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدے کے ساتھ ہو سکتا ہے، یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے، آپ جانتے ہیں کہ تاریخ میں عقائد اور مذاہب کی بنیاد پر امتیاز روا رکھا جاتا رہا ہے۔ برطانیہ میں صورتحال بہت ابتر رہی ہے، جہاں مختلف فرقوں سے تعلّق رکھنے والے لوگوں نے ایک دوسرے پر بہت مظالم ڈھائے ہیں۔ حتّی‘ کہ آج بھی کچھ ریاستیں موجود ہیں جہاں ذات پات کا امتیاز موجود ہے۔ لیکن میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم اپنے تاریک دور سے آغاز نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ ہم تو ایک ایسے عہد میں اپنے ملک کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس میں ذات پات اور برادریوں ، مذاہب اور عقائد کے درمیان کوئی فرق، کوئی امتیاز اور کوئی دوری نہیں ہے۔ ہم ایک ایسے یقین اور بنیادی اصول سے اپنی جدوجہد کا آغاز کررہے ہیں جس کے مطابق پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم سب برابر ہیں۔ ہم سب ایک قوم ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اب اس رہنما اصول کو اپنا لینا چاہئے کہ ہم میں سے کوئی مسلمان نہیں، اور نہ کوئی ہندو ہے۔ یقین جانئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے درمیان تمام تفریقات کا خاتمہ ہوجائیگا۔ اکثریت اور اقلّیت کی تقسیم بے معنی ہوجائیگی۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان پایا جانے والا فرق ختم ہوجائیگا ۔ کیونکہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپ کے درمیان پٹھان پنجابی، شیعہ اور سنّی کی تقسیم موجود ہے۔ اور اس ہی طرح ہندو بھی برہمن ، کشتری، بنگالی، مدراسی وغیرہ کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یقین کیجئے کہ ان سب کے درمیان پایا جانے والا فرق مٹ جائے گا۔ میرے خیال میں عقیدے ، رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق بھارت کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوچکے ہوتے۔ ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔ ” اب آپ آزاد ہیں، اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں ، اپنے مندروں میں جانے کے لئے، اپنے کلیسا میں جانے کے لئے، اپنی مساجد میں جا نے کے لئے یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لئے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ پاکستانی ریاست کے تما م شہریوں کو انکے مذاہب اور عقیدوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔ میں ایسا مذہبی بنیادوں پر نہیں کہ رہا ہوں ۔ کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے۔ لیکن ہم سب لوگوں کے درمیان سیاسی طور پر مذاہب اور عقائد کا فرق ختم ہوجانا چاہئے۔ تم دیکھو گے تم سیاسی مفہوم میں بطور ریاست کے شہری کے، ہندو ہندو نہ رہو گے، اور مسلمان مسلمان نہ رہیں گے، مذہبی مفہوم میں نہیں، کیونکہ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے تقریر کے اختتام سے قبل قائداعظم نے پاکستان میں قیام پذیر اقلّیتوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ترک وطن نہ کریں اور پاکستان کو ہی اپنا وطن بنائیں”۔
یہ الفاظ بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی اس تقریر کا متن ہیں جو انھوں نے 69 سال قبل 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی۔ لیکن پاکستانی ریاست کے قبضہ گیروں نے اس تقریر کا صوتی ریکارڈ تک غائب کردیا گیا ہے، تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ اور یہی نہیں بلکہ بہت سے شدّت پسند اور بنیاد پرست حلقے ایسے بھی ہیں جو تاریخ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی ایسا کہا ہی نہیں ہے۔ اور اس ثبوت کو مٹانے کے لئے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے شعبہ آر کائیوز سے اس تقریر کا صوتی ریکارڈ یعنی وہ ٹیپ جس پر قائد کی تقریر محفوظ تھی غائب کر دی گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس وقت کی بنیاد پرست اشرافیہ اور نوکر شاہی میں موجود بنیاد پرستوں پر بانی پاکستان کے اس اسٹیٹ پالیسی بیانیئے کے برملا اظہار کے بعد سکتہ طاری ہوگیا تھا، کیونکہ وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ قائدِ اعظم پاکستان کو ایک بنیاد پرست ریاست بنائیں گے۔اس کے بعد بند کمروں میں سازشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا دور شروع ہوگیا۔ انہی بنیاد پرستوں نے بانیِ پاکستان کی اس تقریر کے بعض اقتباسات کو اخبارات میں چھپنے سے روکنے کی شعوری کوششیں کی تھیں، مگر روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کی مزاحمت کے باعث ایسا نہیں ہوسکا تھا۔ اور یہ تقریر من و عن روزنامہ ڈان میں چھپ گئی تھی۔
یہ تقریر ریڈیو پاکستان کی نشریات میں قائدِ اعظم کی زندگی میں بھی چلی ہے، لوگوں نے خود اس کو اپنے کانوں سے سنا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز میں سقوطِ ڈھاکہ تک اس تقریر کا ریکارڈنگ کی موجودگی کے سینکڑوں گواہان موجود تھے ، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اور نہ ہی تقریر کی ریکارڈنگ کہیں موجود ہے۔
آپ لوگوں نے ملاحظہ کر لیا ہوگا کہ جناح صاحب نے اپنی اس تقریر میں پوری اسٹیٹ پالیسی بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی تھی۔ بانیِ پاکستان کی تقریر کوئی فی البدیہ یا بے ساختہ اظہارِ جذبات نہیں تھا۔ بلکہ بڑے غور و خوص کے بعد لکھی گئی ایک پوری اسٹیٹ پالیسی تھی ، جس کو بانیِ پاکستان نے بطور ہیڈ آف اسٹیٹ اور بطور ایک ماہر قانون دان، دستور ساز اسمبلی کے ممبران اور پریس کے سامنے وضاحت سے پیش کیا تھا۔
قائدِ اعظم کی اس تقریر کی ریکارڈنگ کو پراسرار طور پر ضائع یا مخفی کردیا گیا ہے۔ اس بارے میں خود ذولفقار علی بھٹّو صاحب نے ایک دفعہ سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ جنرل یحی‘ کی کابینہ کے وزیر نوابزادہ شیر علی نے قائد اعظم کی اس تقریر کو جلا دینے اور اس کا ریکارڈ غائب کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں ۔ پاکستان کو جس طرح جھوٹ اور اسلامی انتہا پسندی کی طرف لے جایا گیا ہے۔وہ قائد اعظم کی سوچ ، طرزِ فکر ، طرز زندگی اور تصوّر پاکستان کے بالکل متضاد ہے۔
اس انتہا پسند سوچ کا خمیازہ یہ ہے کہ پاکستان ایک دفعہ ٹوٹ چکا ہے، دوبارہ ٹوٹنے کے لئے تیّار ہے۔ آج پاکستانی ریاست و معاشرت ، کمزور ترین ، انتشار زدہ، تقسیم در تقسیم، ابہام در ابہام کا شکار ہے۔ قائدِ اعظم نے تو پاکستان کےلئے ایک سیکولر معاشرے کے قیام کی بنیاد رکھی تھی۔ قائداعظم نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں پاکستان کا روڈ میپ بیان کرتے ہوئے پاکستان کے پہلے عمرانی معاہدے کی بنیاد رکھتے ہوئے بلا امتیاز مذہب و عقیدہ ، زبان و لسّانیت تمام شہریوں کے لئے مساوی رتبے اور حقوق کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ قائدِ اعظم کے انتقال کے بعد اس عمرانی معاہدے کی بنیاد سے یکسر انحراف کرتے ہوئے دستور ساز اسمبلی نے 12مارچ 1949ء کو قرار داد مقاصد کے ذریعے اس عمرانی معاہدے سے انحراف کیاجس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا۔
بند کمروں میں ہونے والی سازشوں کے نتیجہ میں اس ملک کو شرعی اسلامی ملک بنانے کا منصوبہ قائدِ اعظم محمّد علی جناح کی وفات کے بعد عمل میں آیا، جب 12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد پاس کی گئی۔ بس یہی وہ وقت تھا جب ملّاوں نے بھی لنگوٹ کس کر پاکستانی سیاست میں چھلانگ لگا دی اور اسلام کے نام پر ملّائیت اور بنیاد پرستی کو آگے رکھ کر اس ملک کے لوگوں کی گردن پر اپنا شکنجہ کس دیا۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الاللہّ کا نعرہ بھی اس ہی دور میں گھڑا گیا۔
محمد علی جناح کی تقریر کہاں گئی یہ معمہ تو ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ مگر ہم اپنے اگلے مضمون میں پاکستان بننے کے بعد 15 اگست 1947 کو قائدِ اعظم کی اس تقریر کا بھی جائزہ لیں گے ، جو انہوں نے قیامِ پاکستان کے فورا” بعد دستور ساز اسمبلی کے سامنے کی تھی۔ ہم ان قوّتوں اور عوامل کا جائزہ بھی لیں گے، جو قائدِ اعظم محمّد علی جناح کے پاکستان کو ایک بنیاد پرست ریاست میں تبدیل کرنے کے مشن پر پچھلے 69 سالوں سے اپنی پوری ڈھٹائی کے ساتھ کاربند ہیں۔
(جاری ہے)
Pingback: پاکستان ، اقلّیتوں کا قبرُستان۔قسط دوم – Niazamana