شکریہ! راحیل شریف

13767348_10208177711053468_2656519165861739623_o (2) (1)

علی احمد جان

راحیل شریف کا شکریہ تو پورے ملک کے ہر چوک اور ہر جگہ ادا کیا  گیا  ، پھر  نہ جانے میں  نا شکرا اس شکریے میں کیوں  شامل نہ ہوسکا ؟ کئی بار سوچا بھی ، لب بھی کھولے    پر شکریہ ادا کرنے کی معقول  وجہ  نہ مل پائی ۔ پھر  پتہ چلا کہ  شکریہ ادا کرنے والوں کو بھی نہیں  معلوم  کہ وہ کیوں شکریہ ادا کر رہے ہیں  اور  سوچا  کہ چلو ان کی طرح شکریہ ادا کرنے کے لئے ہی  شکریہ ادا کرلو ں لیکن ناشکرا پن دیکھیں  نہ کرسکا ۔

شندور  کے میدان کارزار میں گلگت بلتستان اور چترال کے درمیان پولو1990سے باقاعدہ طور پر کھیلا جاتا  ہے جس کے فایٔنل میں  ملک کے صدر اور وزیر اعظم    یا ان دونوں کے نہ ہونے کی صورت میں جو بھی ملک چلارہاہو  صدر نشیں یا مہمان خصوصی ہوتا ہے۔اس دفعہ سپہ سالار اعظم جنرل راحیل شریف آخری میچ میں مہمان خصوصی تھے جنھوں نے اپنے خطاب میں اس علاقے  کی محرومیوں اوردرپیش  مشکلات کا ذکر کرکے  گویا مجھ جیسے غافل کو خواب غفلت سے جگادیا ۔

مجھ سا بے خبرا  تو سمجھتا تھاکہ گلگت بلتستان ایک جنت بے نظیر ہے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔   لوگ خوشحال ہیں ، ہماری حکومت دن رات ہسپتال اور سکول بنانے میں لگی ہے فوج بھی لوگوں کو سہولتیں دینے میں  سول حکومت کی مدد   کررہی  ہے  ، گاؤں گاؤں ، قریہ قریہ  سڑکوں پر ایرانی قالین بچھے ہیں ۔ لوگ دن رات حکومت پاکستان کے گن گارہے ہیں۔ اب تو اس علاقے کو آئینی نہ صحیح  ایک صوبے کا درجہ دیا گیا   ہے،  لوگوں کی اپنی منتخب ا سمبلی ہے ، ایک وزیر اعلیٰ ہے ، پوری کابینہ ہے، ایک گورنر ہے پھر مشکل حالات سے کیوں گزر رہا ہے؟

 مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ  مشکلات، محرومی اور تکالیف کا ذکر تو ملک  دشمن عناصر بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر یہاں افراتفری پھیلانے کے لیے کررہےہیں   ورنہ تو یہاں سُکھ ہی سُکھ ہے ۔   ہم تو سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں چند  لوگ  اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر   حکومت پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ  یہ علاقہ مشکلات میں ہے  وگرنہ  یہاں  پر  تولوگ پوری دنیا کے لوگوں زیادہ طویل عمر   پاتے ہیں، قدرتی فضا میں جیتے ہیں ،  صاف پانی  میسر ہے اور فطری ماحول میں جی رہے ہیں جس میں قدرتی طور پر جانور آج بھی رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ  کی ثنا ءخوانی کرتے اور شکرر بجا لاتے  ہیں۔  مشکلات کیسی؟

ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ  حکومت پاکستان ہمارے عظیم ہمساۓ عوامی جمہوریہ چین کے تعاون   سے ایک  فقیدالمثال  منصوبے پر کام کرہی ہے  جس کے نتیجے میں میں  یہ علاقہ   دن رات کھلے ہوٹلوں ، بازاروں کے علاوہ کھلی اور کشادہ سڑکوں اور ریلوے کی ایک بے مثال لائین  سے مالامال ہوگا  جو اس کے حسن پر چار چاند لگادینگے۔  لوگوں کو ان کے بنجر اور بیکار زمینوں کی  من مانی قیمتیں دی جائینگی جس سے وہ  اس خشک پہاڑی دور افتادہ  علاقے میں رہنے کے بجاۓ لندن اور امریکہ نہیں تو کم از کم لاہور، کراچی اور اسلام آباد  کے شہروں میں زندگیاں گزار ینگے۔    یہاں کے تو دن پھرنے والے ہیں ۔ مشکلات کیسی؟

حکومت پاکستان کی مہربانی ہے کہ اس نے دیامر کے بنجر علاقے میں بھاشا ڈیم کا عظیم منصوبہ بنایا ہے جس سے لوگوں کو  محنت مزدوری کرنے کے بجاۓ  نہ صرف مفت میں ان کی بیکار زمینوں کے پیسے دئیے گئے بلکہ علمائے حق کے ذریعے ان کی اسلامی بنکاری کے ذریعے  جائزمنافع کے لیٔے راہنمائی بھی کی گئی۔ کیا ہوا اگر دنیا میں ان کو پیسے واپس نہ ملے، آخرکو تو  سب نےمحشر میں ہی  جانا ہے،  وہاں تو پیسے   بمع  ستر گنا   منافع کے ملیں گے، فکر کیوں؟

 یہ ناشکرے بیکار میں پروپیگنڈہ کرتے ہیں ، احسان فراموش کہیں کے۔ میں نہیں مانتا ان کے پروپیگنڈے کو کہ ان کے پیسے ڈوب گئے ہیں اور ان کو واپس نہیں ملیں گے۔   اگر نہیں بھی ملے تو کیا ہوا پیسے لینے والے بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں ، شاید اللہ نے ان کا رزق ہمارے ہاتھ میں لکھا ہو، غذر میں بھی  کارگل  میں شہید ہونے والوں کے لوا حقین سے چند سو کروڑ بگ بورڈ کے ہمارے مسلمان بھائی لےکر گئے تو  کون سی قیامت آگئی؟    یہ بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر پروپیگنڈا کرنے والے لوگ اسلامی بھائی چارے کو سمجھتے  نہیں ہیں کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر ایسا حق ہے جیسے اس کے سگے بھائی کا۔ اس میں دھوکہ دہی  کیسی؟ 

کیا ہو ا اگر چند لوگوں کو سڑکوں میں بسوں سے اتار کر تلاشی لی جاۓ اور بد تمیزی کرنے پر ان کو مار دیا جاۓ، لوگوں کو کیوں سمجھ میں نہیں آتا کہ جب کوئی ان کی بس کو روکے تو خود کو پہلے ہی گولی ماردیں  یا قریب کے دریا میں چھلانگ لگائیں  تاکہ ایک مسلمان بھائی کی گولی کا تو  نقصان تو نہ ہو۔ اگر پچاس سو لوگ  مار بھی دیٔے جائیں تو کیا ہوا ایک قوم کو بنانے کے لیٔے  اس سے کہیں زیادہ بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔قومیں ایسے ہی تھوڑی بن جاتی ہیں۔ پاکستان کے عظیم فاتح جنرل حمید گل نے فرمایا تھا پچاس ساٹھ ہزار   لوگ بیس بائیس کروڑ  کی آبادی میں  کوئی زیادہ تو نہیں اگر ایک قوم بنانے کے لیٔے قربان کیٔے جائیں۔  کیا ہوا اگر چند سو افراد گلگت  بلتستان سے بھی اس عظیم قربانی میں شامل ہوں۔ شہادت تو ہماری میراث ہے اس میں گلہ کیونکر؟

یہ کیلاش کے لوگ بھی انتہائی احسان فراموش ہیں   جن کو اسلامی ریاست  نے   کافرانہ زندگی   ختم کرکے ایک اسلامی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیٔے ہیں  لیکن یہ ناشکرے ہیں کہ اب تک  گمراہی پر تلے ہوۓ ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ کتنے سائنس دان ، انجینئر ، پروفیسر ، علماء سارا سال ان ناشکروں کو راہ  حق پر لانے میں مصروف ہیں۔  مبلغین اسلام ا ن کافروں کے بچوں کو پاکستان کے کالجوں اور سکولوں تک بھی جاکر دعوت حق دیتے رہتے ہیں  مگر یہ ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔ 

کیا ہوا اگر ان کی چند ہزار بکریاں مجاہدین اسلام اٹھاکر لےگیٔے  ہیں ۔  آخر یہ مجاہدین بھی تو اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔  یہ  کافر بھی بکواس کرتے ہیں کہ ان کی بکریاں اٹھاکر لے گئےان کے لوگوں کو مار ڈالا۔  یہ کافر سمجھتے ہی نہیں کہ یہ سب  مشیت  ایزدی سے ہو تاہے کیونکہ جو مرگئے ان کی موت ت ایسی لکھی تھی باقی  رہیں بکریاں تو یہ مجاہدین کے رزق میں تھیں۔ ان کی بوٹی بوٹی پر کسی کا نام تھا  جسے کوئی   نہیں مٹا  سکتا۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی  میں پرواہ ہی نہیں کرتا ۔

 فاتح افغانستان شہید محمد ضیالحق نے ان جیسے کافروں سے اس سے بڑی بڑی قربانیاں لی ہیں۔ گلگت بلتستان  کے ضلع غذر میں رہنے والے اسمعٰیلیوں  سے مجاہدین سالانہ ایسا خراج وصول کرتے رہتے ہیں ۔ اس میں کونسی بڑی بات ہے؟

یہ بات کوئی اور خصوصاً  کوئی سویلین  کرتا تو میں اعتبارہی نہیں کرتا ، میں کیا کوئی بھی نہیں کرتا  بلکہ ایسی باتیں کرنے والے کئی ایک  سے تو 124 الف نام کےایک  قانون کے تحت  ایسی جھوٹی باتیں کہنے کی  وجہ بھی پوچھی  گئی  ، پر اب تو  ملک کا سپہ سالار کہتا ہے تو وجہ ہی نہیں اعتبار نہ کرنے کی۔   مجھے خوب غفلت سے جگانے اور میری غلط فہمیوں کو دور پرنے پر اب میں  بھی را حیل شریف کا شکریہ بہ بانگ دہل  ادا کرتا ہوں ۔

 شکریہ !  راحیل شریف۔     

3 Comments