ڈاکٹر پرویز پروازی
مشہور صحافی، کالم نگار، نفسیات دان اور استاد محترمہ راشدہ نثار کی خودنوشت’’ آپ اپنی تماشائی‘‘ کے عنوان سے گلبن کراچی کی جانب سے 2009ء میں چھپی ہے۔ راشدہ نثار نے اسے ایک بھر پور زندگی کی داستان کہا ہے او ران کی بھر پور زندگی کی داستان واقعتہً بھر پور طریق سے معرض بیان میں آئی ہے بعض باتیں بار بار بیان ہوئی ہیں مگر ان سے کتاب کی دلچسپی میں فرق نہیں آیاورنہ خودنوشت کے فن میں تکرار کو بڑا عیب کہا جاتا ہے۔
ان کے والد گرامی ڈاکٹر افضال قادری ملک کے نامور سائنسدان تھے او رجامعہ کراچی کے شعبہ حیاتیات کے صدر شعبہ تھے۔ راشدہ نثار کے لڑکپن اور جوانی کا زمانہ کراچی یونیورسٹی کے کمپس میں بسر ہوا اس لئے ان کی روح میں جامعہ کراچی کی فضا رچی بسی نظر آتی ہے۔ نئے خیالات کی ہیں مگر خود نوشت کے مطالعہ میں بہت بعد کو پتہ چلتا ہے کہ مشہور ماہر عتیقیات ڈاکٹر احمد حسن دانی کے نزدیک ’’ان کی روح بہت قدیم ہے‘‘(آپ اپنی تماشائی صفحہ 408)۔
نوجوانی ہی میں اخبار میں کالم نگاری شروع کردی۔ جنگ میں طلبا کے صفحہ پر ان کے کالم چھپنا شروع ہوئے پھر’’مشرق میں ان کا پہلا کالم شہزادی ثروت کی شادی پر‘‘ (صفحہ173) چھپا۔ خاصی مقبول کالم نگار بنیں۔شادی کے لئے بھی ایک صحافی کا انتخاب کیا۔ نثار زبیری سے بیاہی گئیں تو گویا سارے زبیریوں سے ان کا ناتا بن گیا ۔ یہ انہی کا کہنا ہے کہ بدایوں کے رہنے والوں کو اپنے کلچر پر اتنا غرور تھا کہ’’ایک خاتون کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہؐ بدایوں کے ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔‘‘(صفحہ179)۔
محترمہ راشدہ نثار نے نفسیات میں ایم اے کیا۔ کچھ عرصہ تک پڑھاتی بھی رہیں۔ صحافت میں بھی ایم اے کرلیا اور زیادہ تر وابستگی صحافت سے رکھی۔ ان کی خودنوشت میں بھی ذرا ذرا سی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی صحافتی چٹکلہ نکل آتا ہے۔ اپنی آٹھ سال کی عمر کی ایک ملاقات بیان کرتی ہیں جو مسز ظفرالاحسن لاری او ربیگم رعنالیاقت علی خان کے ساتھ ہوئی۔ ’’وہ دونوں مجھے پیاری بچی اچھی بچی کا ٹائیٹل دیتی رہیں لیکن غالباً’’دونوں نے دانت صاف نہیں کئے تھے‘‘ اس لئے مجھے یاد رہ گئے ان کے منہ سے کسی چیز کی’’مہک‘‘ آرہی تھی لیکن بہتر ہے کہ خدا مجھے خوش گمانی کا شکارہی رکھے۔‘‘ (صفحہ203)۔
اپنے خاندانی پس منظر کے لحاظ سے اس دادا کی پوتی ہیں جس میں جائیداد کے تقاسمے پر دونوں بھائیوں میں ایک چھوٹی سی مہابھارت ہوئی تھی’’اس لڑائی میں خاندان کی ہر چیز تقسیم ہوگئی صحن میں تو دیوار کھڑی کردی گئی کہ دونوں بھائی تھے ناک والے اس غصہ اور نفرت کی شدت میں انہوں نے ہر چیز آدھی آدھی کرلی۔۔۔ مشہور یہ ہے کہ مویشی بھی کھڑے کھڑے چیرے گئے چینی کی پلیٹیں توڑ توڑ کر آدھی کی گئیں۔‘‘ (صفحہ34)۔
محترمہ راشدہ نثار کو یہ تقاسمہ اتنا عزیز ہے کہ کتاب کے اواخر میں پھر اس کا ذکر کرتی ہیں(صفحہ370) اور تقسیم کئے جانے والے مویشیوں کی پہچان بھی لکھ دیتی ہیں کہ دو بیل تھے۔ خدا جانے انہیں کاٹ کر کیوں تقسیم کیا گیا؟ بیلوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں گن کر تقسیم کرلیتے۔ پلیٹوں کو توڑ توڑ کر تقسیم کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ انہوں نے خود گھر کی بہت پلیٹیں توڑی ہوں گی اور’’ٹنگڑیاں مار کر گرانا ہی تو ان کا آتا ہے۔‘‘(صفحہ161)۔
اخبار کی ملازمت کے دوران انہیں خاصی مشکلات کا سامنا رہا وہی مشکلات جو خواتین ملازموں کو پیش آسکتی ہیں۔ افسروں سے بہت بیزاررہیں مگر اصل بات اپنے کراچی یونیورسٹی کے پی آراوہونے کے زمانے میں لکھی ہے کہ ان کا مقصد’’باس لوگوں کی ذہنیت کو آشکار کرنا ہے۔‘‘ (صفحہ 258) ایک جگہ وائس چانسلر کا ذکر کررہی ہیں کہ انہوں نے باہر دو آدمی بٹھا رکھے تھے او رکہتے تھے میں نے دو مرغے باہر بٹھا رکھے ہیں حالانکہ ان میں ایک اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ (صفحہ303)۔
اس کتاب میں احوال الرجال کا حصہ کم ہے یوں تو بیسیوں شخصیتیں آتی او رچلی جاتی ہیں۔ آل احمد سرور اس لئے آگئے کہ ان کی امی کے ماموں ہیں۔ ڈاکٹر دانی کا مختصر سا ذکر آچکا ہے۔ مشرق کے عنایت اللہ کا ذکر ایک بیچارہ سا آدمی کے عنوان سے ہے(صفحہ124) ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے ذکر خیر کا یہ پہلو پہلی بار ہماری نظر سے گذرا کہ’’مغرب کی نماز آنسوؤں سے ہوتی ہے سجدے طویل ہوتے ہیں پھر رات کو مایا جمیل کے ساتھ بزم جمتی ہے۔ انکل سلیم الزماں کے بارے میں مجھے دل سے اس کا یقین ہے جو اس شعر میں مذکور ہے۔ ’’رند بخشے گئے قیامت میں ۔ شیخ کہتا رہا حساب حساب‘‘ (صفحہ410)۔
اسی بیان میں خود ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا یہ خوبصورت شعر بھی درج ہے۔’’دعائیں کرتے ہیں احباب میرے مرنے کی۔ خدا جو چاہے تو میں ان کی ضد میں مرکے نہ دوں‘‘ ۔اپنے کارناموں میں یہ کارنامہ بھی درج کیا ہے شاہنامہ اسلام کواردو کے نصاب میں شامل کروانے کے لئے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی سے لڑتی رہیں۔(صفحہ290) مگر ابواللیث صاحب دھن کے پکے نکلے اردو کے نصاب کو مسلمان نہ ہونے دیا۔ انہیں خود شاہنامے کے بہت شعر یاد ہیں اور وقت بے وقت ان کا ورد کرتی ہیں۔ آج کے نصاب کی کتابیں تو انہیں بہت خوش آتی ہوں گی کہ ان میں سائنس کی کتابیں بھی مسلمان ہوگئی ہیں او رکوئی غیر اسلامی بات ان میں درج نہیں۔
راشدہ نثار کی ایک غلط فہمی بھی دور کردوں۔ آپ نے لکھا ہے کہ’’آل احمد سرور کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔‘‘(صفحہ264) آل احمد سرور نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے’’انہیں غلام محمد صادق نے کشمیر یونیورسٹی کی وائس چانسلری پیش کی تھی مگر بیل سرے نہ چڑھی۔‘‘ اس پر سرور صاحب کاردعمل یہ تھا’’آج کل یونیورسٹیوں کی جو حالت ہوگئی ہے اس میں وائس چانسلری ایک عذاب بن گئی ہے۔‘‘ (خواب باقی ہیں صفحہ278)۔
راشدہ نثار زندگی کی صعوبتوں سے دوچار رہیں مگر ہمت نہیں ہاری۔ ہر چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ فالج جیسی بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے معمولات میں فرق نہیں آنے دیا حج بھی کر آئیں باہر کا سفر بھی کرلیا اب اپنی اولاد واحفاد کے درمیان خوش ہیں۔ آپ نے اپنی عائلی زندگی کو دو شعروں سے عبارت کہا ہے’’میری پوری زندگی صرف دو اشعار سے عبارت ہوسکتی ہے جس کے بعد او رکچھ نہیں کہنا۔ پہلا
ان کی نظر میں میری تباہی کے واسطے
اتنا خلوص تھا کہ شکایت نہ ہوسکی
اور دوسرا۔
کتاب عمر کا جتنا بھی گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھوں تو بس خسارہ ہے
۔(صفحہ356)۔ یہ دونوں شعر محترمہ نے پہلے بھی کسی کی تعریف میں لکھے تھے۔ خلوص اور شکایت والا شعر محترمہ نے ایک بار انہیں مخاطب کرکے پڑھا تھا تو مخاطب نے کہا تھا محترمہ میں کسی کو معاف نہیں کرتا اس کا ایسا انتقام لوں گا کہ آپ ساری زندگی یاد ہی کریں گی۔(صفحہ134) اور مخاطب نے محبت کرنے والا شوہر بن کر خوب انتقام لیا۔ دونوں کی زندگی اپنی محبت کے انتقام ہی کی خوش گواری میں گذر گئی۔ اصل شعر میں کتاب کی جگہ حساب کا لفظ ہے۔ حساب عمر کا جتنا بھی۔۔۔!
اس خود نوشت نے ایک پرانی بات ہمیں بھی یاد کروادی۔ پروفیسر کرارکی صاحبزادی شائستہ بیزار، کراچی کی مشہور ڈی بیٹر اور ہماری ہم عصر ہیں۔ ہمارے ہاں پنجاب یونیورسٹی کے ایک مباحثہ میں تشریف لائی ہوئی تھیں۔ قرار داد پر بحث کرنے والوں میں ایک مقرر مشتاق چیمہ تھے ،ایک ہاجرہ افضل تھیں۔ شائستہ بیزار اور مشتاق موضوع کے حق میں بولے ہاجرہ مخالفت میں۔ ہمارے ایک ذہین ڈی بیٹر مرحوم ارشاد حسین کاظمی ہوا کرتے تھے ان کی باری ہاجرہ کے بعد آگئی۔ انہوں نے غالب کے ایک شعر میں ذرا ساتصرف کرکے سجع کہا’’یہ ہیں مشتاق اور وہ بیزار۔ یا الٰہی یہ ہاجرہ کیا ہے؟‘‘ اور ہال لوٹ پوٹ ہوگیا۔ ان کی’’شائستہ باجی‘‘(صفحہ403) کو شاید یہ بات یاد ہو۔
♥