ظلم کی تعریف بہت وسیع ہے۔اس لفظ کا ایک سادہ مطلب کسی چیز کا اپنی جگہ پر نہ ہونا بھی ہے۔کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے جو اس کی صلاحیتوں کے مطابق نہیں۔کوئی ایسے عہدے پر فائز ہے جو اس کے رحجان طبع کے مطابق نہیں۔کوئی ایسا فریضہ سر انجام دینے پر معمور ہے جس کی اس کو کوئی سدھ بدھ نہیں۔ یہ سب ظلم ہی کی شکلیں ہیں۔
یہ ظلم ہمارے ہاں بہت ہوتا ہے۔جس کو جو کام کبھی نہیں کرنا چاہیے وہ ساری زندگی وہی کام کرتا رہتا ہے۔اور جس کو جو کام کرنا چاہیے اسے وہ کام کرنے کا کبھی موقع نہیں ملتا۔اس کیفیت کو عام زبان میں مس فٹ کہتے ہیں۔یہ دراصل بہت ہلکا لفظ ہے جو اس کفیت کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔یہ لفظ ظلم کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو بذات خود ظلم ہے۔یہ کیفیت عام دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہمارے ہاں کوئی ایسا شخص استاد ہو گا جسے اپنی رحجان طبع کے مطابق قصائی ہونا چاہیے تھا۔کوئی قصائی ایسا ہو گا جسے سماجی کارکن ہونا چاہیے تھا۔اور سماجی کارکن ایسا ہو گا جسے گورکن ہونا چاہیے۔اور ممکن ہے گورکن ایسا ہو جسے دیکھ کر گل فروش یاد آئے۔مگر یہ ظلم اتنا عام ہے کہ اس پر کوئی اب توجہ نہیں دیتا۔
چنانچہ یہ ظلم دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ظلم کی اس روایت کو قائم رکھنے میں ہماری حکومتیں سب سے آگے ہیں۔چونکہ ہماری حکومتوں میں اکثر ایسے لوگ آتے ہیں جن کو حکومت کرنے کے علاوہ دنیا کا ہر کام کرنا چاہیے تھا۔چنانچہ وہ حکومتوں میں آکر اس روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس کی ایک جھلک ہمارے اسمبلی ممبران ،وزیروں اور مشیروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ہمارے ہاں ایسے وزیر تعلیم رہے ہیں جو خود کبھی ہائی سکول تک نہ پہنچ سکے تھے۔یا پھر ایسے وزیر صحت رہے جو علم صحت کی الف، ب، پ سے نا بلد تھے ۔وزیر قانون ایسے رہے ہیں جن کا شمار قانون شکن لوگوں میں ہوتا تھا۔یہ فہرست کافی لمبی ہے۔ ایک لمبی فہرست ان المناک کارناموں کی ہے جو ہمارے قانون سازوں نے قانون سازی کے نام پر سر انجام دئیے۔اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک تازہ ترین اضافہ سائبر کرائم بل کے نام پر ملائیت اور رجعت پسندوں کا سماج پر کھلا حملہ اور اعلان جنگ ہے۔یہ بل بنانے والوں کا خیال ہے کی اگر فیس بک پر پابندی عائد کی جائے تو معاشرے سے آدھی سے زیادہ برائیاں کم ہو جائیں گی۔۔ مگر برائی روکنے کا جو حل انہوں نے تجویز کیا اس کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ یہ حل تاریخی حقائق سے متصادم ہے۔انسانی تاریخ کے سارے تجربات یہ ثابت کرتے ہیں ذرائع ابلاغ پر پابندی سے سماجی برائیاں رکنے کے بجائے بڑھتی ہیں۔اور جن سماجی برائیوں کو یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں وہ ایسے معاشروں میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں جن میں اظہار کے حق پر زیادہ پابندیاں ہیں۔پاکستان میں فحاشی کی روک تھام کے حوالے سے سخت قوانین رائج ہیں۔فحش مواد دیکھنے دکھانے پر پابندی ہے۔
لیکن ایک مستند رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ فحش مواد پاکستان میں دیکھا جاتا ہے۔دوسر ا اور تیسرا نمبر بھی ان ممالک کا ہے جن میں ان چیزوں پر پابندی ہے۔اس کے بر عکس جن سماجوں میں ان چیزوں پر کوئی پابندی نہیں ان کا نمبر اس درجہ بندی میں کئی نہیں آتا۔مگر پابندی کا اختیار رکھنے والے نمبروں اور اعداد شمار کے گورکھ دھندے میں نہیں پڑتے۔یہ محنت و تردد کا کام ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ سنی سنائی باتوں، ضعف اعتقادات اور بنیاد پرستوں کے سماجی ، سیاسی اور نفسیاتی دباؤ کی بنیاد پر اقدامات کرتے ہیں۔
اس کی ایک بہترین مثال انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اور شہکار یوٹیوب پر پابندی تھی۔اس اعتبار سے پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا جس پر اس حوالے سے یوٹیوب پر پابندی لگائی گئی تھی۔مذہبی پابندیوں کے اعتبار سے سعودی عرب اور سیاسی پابندیوں کے اعتبار سے چین بھی اس مقابلے میں کچھ پیچھے رہ گئے۔یوٹیوب پر موجود بیش بہا علمی خزانے سے نو جوان نسل کو ایک انجانے اور بے بنیاد خوف کی وجہ سے محروم کر دیا گیا تھا۔حالانکہ فحاشی کی رووک تھام ہی اگر مسئلہ تھا تو اس کے لیے انٹرنیٹ پر دیگر بے شمار ذرائع موجود ہیں جو ان کو بلا روک ٹوک میسر ہیں۔
اب ہو سکتا ہے کہ انٹرنیٹ کے ایک اور بڑے شہکار یعنی فیس بک پر بھی حملہ ہو۔یہ دراصل فحاشی اور عریانی کی آڑ میں آزادی اظہار پر حملہ ہے۔حکمران طبقات آزادی اظہارکے ان متبادل ذرائع سے خوفزدہ ہیں جن پروہ اپنا کنٹرول نہیں رکھ سکتے۔دھونس، دھاندلی یا لالچ کے ذریعے اس پر اپنا اثر قائم نہیں کر سکتے۔یہی وجہ ہے کہ سماجی برائیوں میں ان کو صرف فحاشی و عریانی ہی نظر آتی ہے۔ رشوت، سفارش اور نا انصافی، ظلم تشدد، غربت، بے روزگاری وغیرہ پر ان کی نظرکبھی نہیں جاتی۔