بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال کے باہر ہونے والے خود کش حملے میں 70 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مرنے والوں میں 34وکلا اور دو صحافی بھی ہیں ۔
جس وقت دھماکہ ہوا تو وہاں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی میت لائی گئی تھی جنھیں پیر کی صبح ہی کوئٹہ کے علاقے منوں جان روڈ پر نامعلوم افراد نے گھر سے عدالت جاتے ہوئے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
کوئٹہ کے سول ہسپتال پر ہوئے خونریز خود کش بم حملے کی ذمہ داری انتہا پسند گروپ داعش کے بعد طالبان نے بھی قبول کر لی ہے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میڈیا سے رابط کر کے کوئٹہ میں وکیل رہنما کی ہلاکت اور بعد میں سول ہسپتال میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
دھماکے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کوئٹہ پہنچ گئے۔ جنرل راحیل نے خفیہ ایجنسیوں کو ملک بھر میں شدت پسندوں کے خلاف کومبنگ آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔جبکہ آرمی چیف یہ کہتے بھی نہیں تھکتے کہ نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت ہم نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیےہیں۔
اس حملے نے ایک بار پھر پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی کے اداروں کی ناقص کارگردگی کا پول کھول دیا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں پہلے سوئی ہوئی ہوتی ہیں اور دھماکے کے بعد وہ آرمی چیف کے حکم کا انتظار کرتی ہیں؟اگر پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اس قابل ہوتیں تو یہ دھماکہ ہوتا ہی نہیں۔
ریاستی ادارے اپنی ناقص کارگردگی اور ناکامی چھپانے کے لیے اس کی ذمہ داری بھارتی خفیہ ایجنسی را پر ڈالنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔یاد رہے کہ حملے کے فوراً بعد حکومتی عہدیداروں نے اسے بھارتی خفیہ ایجنسی را کی کاروائی قرار دیا۔
مبصرین کا کہنا کہ جب تک ریاست ملک میں موجود کالعدم مذہبی جماعتوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گی اس طرح کے حملے ہوتے رہیں گے۔ریاستی ادارے طالبان اور داعش کی حامی جماعتوں کی کھلم کھلا سرگرمیوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ریاستی ادارے مسلسل انتہا پسند نظریات پھیلانے والی اور دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ جماعت الدعوۃ اور جیش محمد سیکیورٹی ایجنسیوں کی مدد سے پورے ملک میں نہ صرف ریلیاں نکال رہی ہیں بلکہ چندہ بھی اکٹھا کر رہی ہیں۔
بلوچستان کے معروف وکیل حمید الدین نے خود کش حملے کو سکیورٹی اداروں کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں حکومت قیام امن میں ایک بار پھر ناکام ہو گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ بلوچستان میں متوازی حکومت قائم ہے اور یہ حکومت ان عناصر کی ہے جو کہ یہاں ایک منظم نظریے کے تحت بد امنی پھیلا رہے ہیں۔ ‘‘۔
حمید الدین نے مزید کہا، ’’شدت پسند تنظییں صوبے سے ایسے پڑھے لکھے لوگوں کو ختم کرنا چاہتی ہیں جو کہ قانون اور اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔ سول ہسپتال میں ہونے والا آج کا خودکش حملہ ان تمام سکیورٹی انتطامات پر ایک سوالیہ نشان ہے، جن کی حکومت دعوے کرتی رہی ہے۔ آگر ریڈ زون میں بھی حکومت عوام کو تحفظ نہیں دے سکتی تو دیگر مقامات کو کس طرح محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔‘‘۔
حمید الدین کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے دو واقعات نے سکیورٹی انتطامات کا پول کھول دیا ہے اور صوبے کے عوام کے لیے یہ دونوں سانحات کسی المیے سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’بلوچستان میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کا ایک تسلسل ہے، جس کے اثرات براہ راست عام لوگوں پر پڑ رہے ہیں۔ میں ارباب اختیار سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وہ اقدامات کہاں گئے، جن کے دور رس نتائج کے دعوے کیے جا رہے تھے؟ جو حکومت عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی وہ انہیں دیگر شعبوں میں ریلیف کہاں فراہم کر سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ناکامی تسلیم کر لے اور ان خامیوں کو سامنے لائے جن کی وجہ سے آج یہ دو واقعات پیش آئے ہیں‘‘۔
خیال رہے کہ اپریل سنہ 2010 میں بھی کوئٹہ کے سول ہسپتال میں اسی مقام پر بلوچستان شیعہ کانفرنس کے صدر کے صاحبزادے کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد وہاں جمع ہونے والے افراد پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں سماء ٹی وی کے کیمرہ مین ملک عارف اور کوئٹہ پولیس کے ڈی ایس پی نثار کاظمی سمیت 10 افراد مارے گئے تھے۔
دس جنوری 2013کے دن کوئٹہ میں دوہرا خود کش حملہ کیا گیا، جو بانوے افراد کو ہلاک کرنے کے لیے کافی تھا۔ شدت پسندوں نے ایک شیعہ اکثریتی آبادی والے ایک علاقے میں واقع ایک سنوکر کلب کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں ہدف شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ تھے۔
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ اس برس مارچ کی تین تاریخ کو کراچی میں شیعہ اکثریتی آبادی والے ایک علاقے میں کار بم حملہ کیا گیا، جس میں پینتالیس افراد لقمہٴ اجل بنے۔
اس کے علاوہ ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے بے شمار واقعات ہیں لیکن روایتی بیان بازی کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔