سرمایہ داری نظام میں ارتقا پذیر ہونے والے اور ترقی پانے والےعلمِ نفسیات میں نجی ملکیت، مقابلہ بازی، مسابقت اورانفرادی خصائص کی بنیاد پر افراد کو دوسروں سے بالا تر ہوسکنے جیسی خصوصیات کو انسان کے فطری اور جبلی محرکات کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں علمِ نفسیات کے یہ بنیادی محرکات ہیں جن کی حتمیت کو بغیر سوال کئے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے۔
اس طرح بیشتر نفسیاتی امراض درحقیقت سماجی خلل ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں سماجی ابنارمل رویوں کے علاج کی بجائے انفرادی نفسیات کا علاج کیا جاتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی نفسیاتی مرض یا مسئلے کی تحقیق سماجی کے ابنارمل رویوں کو معیاری اور نارمل سمجھ کر کی جاتی ہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ ما بعد از جدیدیت اور پسِ ساختیات جیسے جدید نظریات کے منظرِعام پر آجانے کے باوجود بھی علمِ نفسیات کے ان بنیادی محرکات کو چیلنج نہیں کیا گیا۔
علمِ نفسیات کی ایک شاخ جسے منیجرئل سائیکالوجی کہتے ہیں کی توساری کی ساری عمارت ہی مینیجر یا ایک ادارے کےناظم کے انفرادی طورتمام ملازمین سے اعلی و برترہونے، زیادہ ذہین و فطین ہونے اوراسی بنیاد پردوسروں پر مسلط رہنے پر مشتمل ہے ۔ مینیجرز جو درحقیقت خود بھی ملازم ہوتے ہیں کے اذہان میں دورانِ تعلیم یا پیشہ وارانہ تربیت کے دوران ہی یہ بیٹھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنےعلم کی بنا پر دوسروں سے منفرد اور اعلیٰ ہیں اور اپنے انہی اوصاف کی بنیاد پر دوسروں کوکنٹرول کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔
لیکن انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ اُن کے اور مل مالکان کے درمیان صرف اور صرف نوکر اور مالک کا رشتہ قائم ہے اور وہ رشتہ علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ جائیداد کی نجی ملکیت اور اس پر قبضے اور ذرائع پیداوار پر قبضے کی وجہ سے ہے۔ انہیں ان بنیادی رشتوں پر جمہوری اور علمی بنیاد پر سوال اُٹھانے کی بھی کوئی اجازت نہیں ہوتی۔
مینیجر خواہ ایک مخصوص شعبہ کا ہو یا جنرل مینیجر ہو، وہ ملازمین پر کنٹرول مقابلہ بازی، مسابقت اوران کے اندر پیشہ وارانہ/محکمہ جاتی ترقی یا اجرتوں میں اضافہ کی تحریص پیدا کرکے کرتا ہے۔ مینیجر کا کام مزدوروں اور محنت کشوں کے فیکٹری میں گزارے گئے وقت سے زیادہ سے زیادہ پیداوارحاصل کرنا، خام مال کے ضیاع پر نظر رکھنا اور ہرآن لاگت کو کم کرنے کے طریقے سوچنا ہوتا ہے۔
منڈی کی اس دنیا میں اس طرح کی ذہنیت کے ساتھ داخل ہونے والے مینیجرکی مہارت منحصر ہی اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ پیداواری عمل میں مزدور اور پرزے میں فرق نہ کرے۔ جوں ہی کوئی پرزہ خراب ہویا مشینری کی مجموعی پیداوارپر اثر انداز ہورہا ہو، اُسے فوری طورپر تبدیل کردیا جائے۔ مالک اُس کی ان خصوصیات کو سراہتا ہے اور اُسے بھی مراعات، اجرت میں بڑھوتری اور محکمہ جاتی ترقی کی تحریص دیتا رہتا ہے۔
مینیجریہی تحریص مزدوروں اور محنت کشوں میں بھی منتقل کرتا ہے۔ روایتی فیکٹریوں یا موسمی پیداوار کرنے والی فیکٹریوں میں مزدوروں اور محنت کشوں کا استحصال منڈی میں اُس جیسے بے روزگاروں کی کھیپ سے کیا جاتا ہے۔ بے روزگاری مزدوروں کی رسد بڑھا دیتی ہے نتیجتاً ان کی طلب کم ہونے کی وجہ سے ان کی اجرتیں کم ہو جاتی ہیں۔ مینیجر مزدوروں اور محنت کشوں کی اس نفسیات سے کھیلتا ہے اور اُن کا استحصال آسانی سے کر جاتا ہے۔ تمام ترقی پذیر ممالک اور نیم انڈسٹریالائزڈ اور نیم زرعی ممالک میں صنعتوں، فیکٹریوں اور ملوں کی سادی اشکال موجود ہوتی ہیں اس لئے اُن میں مینیجروں کی طرف سے یہ روایتی استحصال دیکھنے میں آتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک جہاں ٹیکنالوجی انتہائی سو فیسٹی کیٹڈ ہوگئی ہے اور چھوٹے چھوٹے شعبوں میں علمی اور عملی تخصیص پیدا ہوگئی ہے۔ اُس میں استحصال کی اشکال بھی تبدیل ہوئی ہیں۔ ایسے ممالک میں استحصال صلاحیتوں کا ہوتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ انسانی محنت کو ٹیکنالوجی سے تبدیل کرکے لاگت کو کم سے کم کر لیا جائے اور وقت بھی قلیل ترین صرف ہو۔ پروڈکشن کمپنیوں میں ہنرمند اور غیر ہنر مند لیبر کے حوالے سے بھی یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا مینیجر غیر ہنر مند محنت کشوں اور مزدروں کو منڈی میں موجود بے روزگاروں کی لمبی قطار سے ڈرتا رہتا ہے۔
اس کے برعکس ہنر مند مزدروں کی ہمہ قسم ہنرمندی کو غیرمحسوس طریقے سے صرف ایک یونیفارم ہنر اور صلاحیت میں بدل کر رکھ دیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے مخصوص ہنر کے ساتھ کرنے والے دیگر چھوٹے چھوٹے ہنروں کو بھول جاتے ہیں۔ جہاں ٹیکنالوجی بہت سوفیٹی کیٹڈ ہووہاں ایسے پروفیشنلزکا استحصال زائد پیداوارپر قبضہ جما کر، کارٹلزاور ملٹی نیشئل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم کرکے کیا جاتا ہے۔ کمپنیوں کو اربوں ڈالرز کا منافع حاصل ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پروفیشنلزاور دیگر ہنرمند افراد کو اتنی شرح سے بونس اور دیگر مراعات بھی نہیں دی جاتیں اور ٹیکس بھی چوری کیا جاتا ہے۔ اس طرح پروفیشنلز اور ٹیکنیکل افراد تو صرف ذرا اوپر کے درجے کے مزدور اورمحنت کش بنے رہتے ہیں جبکہ صنعت کاروں کی کمپنیوں اور منافعوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا رہتاہے۔
انڈسٹریز، ملز اور فیکٹریوں کا یہ نظام مزدوروں، محنت کشوں اور حقیقی مالکان کے درمیان تعلق اور رشتہ کو بالکل ختم کرکے رکھ دیتا ہے اور اگر کچھ صورتوں میں یہ رشتہ برقرار رہتا بھی ہے تو وہ انسانی بنیادوں پر نہیں ہوتا بلکہ محض پیداوار اور منافع کی بنیاد پرہوتا ہے۔ بڑے کاروباروں اور بالخصوص ملٹی نیشنل کمپنیوں میں تو ملازمین بیس بیس تیس تیس سال تک ملازمت کرکے بھی اپنے اصلی مالک کی شکل نہیں دیکھ سکتے۔ صنعت کار، ملز مالکان اور فیکٹری مالکان اپنا استحصال ان درمیان کے مینیجرز ہی کے ذریعے سے مزدروں اور محنت کشوں تک منتقل کرتے ہیں۔
تاہم درمیانے درجے کے کاروباریوں کی نفسیات قدرے مختلف ہوتی ہے۔ درمیانے درجے کے کاروباروں کے یہ مالکان کبھی کبھار اپنا چہرہ مزدوروں کو دکھا دیتے ہیں۔ ایسی زیارت وہ صرف اُس وقت کراتے ہیں جب مزدروں کے لئے کچھ مراعات کا اعلان کیا جانا ہو یا پھر کسی خیرات وغیرہ کا اہتمام کیا گیا ہو تاکہ مزدوروں کے ذہنوں میں مالکان کی فرشتہ صفت شخصیت کا عکس ابھرے۔
ایسی مجلسوں کے دوران اگر کبھی کبھار مزدور اور محنت کش اپنی کچھ مجبوریوں اور مشکلات کا تذکرہ کربھی بیٹھیں تومالکان اپنے چہروں پر ایسے تاثرات سجالیتے ہیں جیسے یہ سب کچھ وہ پہلی بار سن رہے ہوں۔ انہیں مینیجر نے ہی مزدوروں کے خلاف استحصال اور زیادتیوں سے بے خبر رکھا ہے۔ گویا یہ مینیجرز ہی اس تمام ترصورتحال کے براہِ راست ذمہ دارہیں کیونکہ انہوں نے بروقت انہیں اپنے محنت کشوں اور مزدورں کی مشکلات سے آگاہ نہیں کیا۔ سو یہاں بھی وہ اپنے استحصال اور مشکلات کو مینیجروں کے کھاتے میں ڈال جاتے ہیں۔ کبھی کبھار مینیجر سمجھ دار ہونے کی وجہ سے مالکان کی ان چالاکیوں کو سمجھ جاتا ہے۔ لیکن اپنی نوکری پکی کرنے اور اپنی ترقی کی غرض سے شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفا دار بنتے ہوئے موقع ہی پر کچھ جملے اپنے خلاف بول کرمالک کی توقیر اور عزت و احترام بڑھا دیتا ہے۔ اس طرح مزدوروں اور محنت کشوں کے درمیان حقیقی استحصال کرنے والا گم ہوجاتا ہے۔ عام مزدوراور محنت کش مینیجرز اور پروفیشنلز کو ہی اپنا حقیقی دشمن گرداننے لگتا ہے۔
یہ درمیان کے مینیجرزخود بھی اگلے درجے پر ترقی کے خواں ہونے کی وجہ سے ملازمین اورمحنت کشوں کے ساتھ اپنے انسانی رشتے کو کمزور کرکے مادی رشتہ قائم کرتے ہیں کیونکہ خود ان کو اپنی نوکری پکی رکھنے، زیادہ مراعات حاصل کرنے اوراگلے درجے پر ترقی پانے کی تحریص بالکل اُسی طرح دی جاتی ہے. اس مرحلے پر مینیجرکا مالک کے ساتھ اور مینیجر کا ملازم کے ساتھ جو رشتہ بنتا یا بنایا جاتا ہے دونوں شکلوں میں وہ انسانی بنیادوں پرنہیں ہوتا بلکہ مادی پیداوار کی بڑھوتری پر ہوتا ہے۔ وہ خود بھی ایک پرزے کی حیثیت سے منڈی کے اس نظام میں کام کرتا ہے۔ مینیجرز کی خاصی بڑی تعداد اگلے درجے پر ترقی کرنے کی آڑمیں اس مصنوعی کلچر کو اپنا لیتے ہیں لیکن اس کے لئے انہیں خود کو ہروقت مصنوعی رکھنا پڑتا ہے۔
فیکٹری میں وہ اپنے چلنے۔ پھرنے۔ اُٹھنے بیٹھنے۔ اپنے ماتحت کے ساتھ اور اپنے سے سنیئر افسران کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے۔ ہر وقت مصنوعی اور محتاط رہتے ہیں۔ ایسا تصنع شدید اعصابی تناؤ کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے ان میں جذبات ہیجانی کیفیات بھی پیدا ہوتی ہیں اورایسی جذباتی شدت بڑھتی عمر کے ساتھ زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مینیجرز کا ایک ایسا طبقہ بھی ہوتا ہے جواس سارے مادی تانے بانے کو سمجھ جاتا ہے اور مزدوروں اور محنت کشوں کے ساتھ جڑت پیدا کرناچاہتا ہے لیکن اُس کی سیاسی اور اجتماعی تربیت نہیں ہوتی، اس لئے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ یہ نفسیاتی کیفیت اس کے لئے بھی کرب کا باعث ہوتی ہے۔ بہرحال یہ معروض اُن میں جڑت پیدا کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ جب محنت کشوں اور مینیجرز کے درمیان یہ ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو وہ فیکٹری، مل، انڈسٹری وغیرہ کو چلنے نہیں دیتے۔
اپنی پیشہ وارانہ تربیت کے دوران انہیں مزدوروں کے اجتماعی مفاد کی تنظیموں پربھی نظر رکھنا ہوتی ہے۔ انہیں ہر طرح سے کمزور کرنے کے نفسیاتی اور انتظامی حربے استعمال کرنا، مزدوروں کی قیادت کو خریدنا اور ہر طرح کی تحریص دے کر مزدوروں سے الگ کرنا، اجتماعی کے بجائے انفرادی مفادات پر نظر رکھنے کی طرف مائل کرنا، ملازمت کی برطرفی ۔ تبادلے اور دیگر مراعات کے ختم ہوجانے جیسے نفسیاتی دباؤ کا شکار رکھنا ایک مینیجر کے لئے قطعاً کوئی غیر اخلاقی حرکات نہیں ہوتی بلکہ یہ اُس کی پیشہ وارانہ صلاحتیوں اور مہارتوں کا درجہ کمال تصور کیا جاتا ہے۔ جو مینیجر جتنا زیادہ اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہوگا وہ اچھا مینیجر تصور ہوگا۔
یہ مادی رشتے حقیقی انسانی رشتوں میں بے پناہ جذباتی خلا اور ہیجان کو جنم دیتے ہیں۔ ستم ظرفی تو یہ ہے کہ یہ ہیجانی کیفیت دونوں مزدوروں، محنت کشوں اور مینیجرز میں پیدا ہوتی ہے۔ لیکن دونوں کی ہیجانی کیفیتوں کا درجہ اور وقوع پذیر ہونا کا وقت مختلف ہوتاہے۔ ایسے ہیجانی جذبات مزدوروں میں بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ زندگی کی تلخیوں اور مشکلات کے عادی ہونے کی وجہ سے ان پر ردِعمل اتنا شدید نہیں کرتے جتنا کہ مینیجرز کرتے ہیں۔ پھروہ کسی حد تک اپنی قسمت پر قناعت کرنے کے عادی ہو گئے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ وہ مشکلات، سختیوں اور استحصال کو محسوس کرنے کی حس ہی نہیں رکھتے۔ اُن کا صرف ایسی مشکلات کی طرف ردِعمل مختلف ہوتا ہے۔ اس کےبرعکس مینیجرزکے ہاں یہ ہیجانی جذباتیت ملازمت کے آخری وقت میں بہت زیادہ پیدا ہونے لگتی ہے۔ جب انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اس نظام میں محض ایک پرزہ تھے۔ وہ آزاد نہیں تھے بلکہ غلام تھے۔ سرمائے کے غلام۔
سائیکالوجسٹس اس جذباتی ہیجان کو کنٹرول کرنے کے لئےمختلف مصنوعی کلچرز کی تجاویز دیتے ہیں۔ وہ ایسے پروفیشنلز اور مینیجرز کے لئے نسبتاً بہتررہائش گاہیں، ان کے بچوں کے سکول اور صحت کی سہولیات کا بندوبست کرنے کی تجاویز دیتے ہیں۔ پھر ان مینیجرزکو اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ وہ ان مراعات کے مستحق بطور انسان نہیں بلکہ بطور مینیجرٹھہرے ہیں۔ گویا بنیادی ضروریاتِ زندگی پر ان کا استحقاق بطور انسان نہیں بلکہ بطور مینیجر مستحکم ہو رہا ہوتا ہے۔ اس سے انسانی بنیادوں پر قائم رشتے کمزور ہوتے ہیں اور مادی بنیادوں پر قائم رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ دوران ملازمت وہ ایسے جذباتی ہیجان کا توڑ ،انا پرستی اور خود پسندی کی شکل میں کر لیتے ہیں۔ اپنے ماتحت مزدوروں اور محنت کشوں پراپنی شخصیت اور اعلی ہونے کی صورت میں اوراُن پر اپنی دھاک بٹھا کروہ اپنے اپنا کیتھارسس کرتے ہیں۔
اسی طرح وہ ان پر اپنا انتظامی کنٹرول مضبوط کرتے ہیں۔ وقتی طورپروہ اپنے احساسِ کمتری کواحساسِ برتری اور تفاخرمیں تبدیل کرلیتے ہیں۔ انہیں یہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ فنی اعتبار سے ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں اور نئے علوم اور اپنے شعبہ میں نئی تحقیقات کو بھی نہیں سیکھ پا رہے اورخود کو مارکیٹ میں داخل ہونے والی نئی کھیپ کےمدِمقابل رکھنے کے قابل بھی نہیں بنا پا رہے۔ وقت گزرنے اور نئی سائنسی ایجادات کے ساتھ ہی انہیں یہ احساس بھی ہونے لگتا ہے کہ وہ خود بھی انڈسٹری میں ایک بیکار پرزہ کی مانند ہیں۔
پس انہی انفرادی صلاحیتوں کا سہارا لے کر صنعتی مزدوروں، محنت کشوں اور مینیجرز کے درمیان تفریق پیدا کی جاتی ہے۔ اُن کی ان صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے پیداواری عمل میں سرمائے کی بڑھوتری ، ذرائع پیداوار اور زائد پیداوارپرقبضہ جمانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام تر سماجی سرگرمیاں اسی مسابقت اور مقابلے بازی کی دوڑ میں پیدا کی جاتی ہیں۔ لیکن تمام تر صنعتی ترقی انسانوں کے درمیان انسانی رشتوں کومسلسل کمزورکرتی چلی جارہی ہے۔ حقیقی خوشی انسان کے ہاتھ نہیں آرہی۔ وہ پیداوار جو وہ اپنی خوشی اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے کرتا ہے، اُس سے وہ خوشی کے احساسات حاصل کرپارہا ہے اور نہ ہی اپنی خواہشات کی تکمیل کرپارہا ہے۔
One Comment