قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے ایک بار پھر یہ کہا کہ کوئٹہ میں بم دھماکا خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی ہے جب کہ چودھری اعتزاز احسن نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
ان بیانات کے برعکس وزیرِ اعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت ایک اجلاس میں خفیہ اداروں کی کارکردگی کو سراہا گیا اور اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ ان اداروں کا ملک کے قومی سلامتی کے تحفظ میں ایک اہم کردار ہے۔ چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے آج کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کے لئے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے گی اور ایجنسیوں کو تمام وسائل فراہم کئے جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں حکومت کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اس قسم کے اقدامات کرے وگرنہ ان کی اپنی حکومت کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں حالیہ دنوں میں اُس وقت حدت آئی تھی، جب سیاست دانوں نے قومی اسمبلی کے ایوان کو استعمال کرتے ہوئے فوج پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی تھی۔ سب سے پہلے جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے پیر کو یہ بیان دیا کہ قوم سے جھوٹ نہ بولا جائے اور یہ بتایا جائے کہ مسلح گروہ کس نے بنائے ہیں؟ اچھے اور برے طالبان کی پالیسی پر سوالات اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے لئے ہے یا ملک اسٹیبلشمنٹ کے لئے ہے؟
اسی دن محمود خان اچکزئی نے اسٹیبلشمنٹ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا تھا،’’صرف را (بھارتی خفیہ ایجنسی) پر الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا۔‘‘ انہوں نے تجویز دی تھی کہ ایجنسیاں کوئٹہ دھماکے میں ملوث افراد کا سراغ لگائیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو جائیں تو ان ایجنسیوں کے سربراہان کو اُن کے عہدوں سے ہٹا دیا جائے۔
گزشتہ روز قائد حزبِ اختلاف نے اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سکیورٹی اور جاسوس ایجنسیوں کے سربراہوں کو ایوان میں بلائے اور وہ یہ بتائیں کہ انہوں نے عوام کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟
اس صورتِ حال پر وفاقی اُردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’نواز شریف، پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان سمجھتے ہیں کہ فوج کی غلطیوں کا خمیازہ سیاست دانوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر راضی نہیں ہے۔ اچکزئی، شیرانی اورخورشید شاہ نے صرف اپنی باتیں نہیں کہیں بلکہ یہ بیانات نواز شریف کی سوچ کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دان اس بات پر چراغ پا ہیں کہ عسکریت پسندوں کو ماضی میں حمایت فوج کی رہی لیکن آج اُن کی کارروائیوں کا سارا الزام سویلین حکومت پر آتا ہے، جب کہ فوج اور ایجنسیوں سے کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ سکیورٹی میں غفلت کیوں برتی گئی۔ تو سیاست دان چاہتے ہیں کہ فوج سے بھی مشکل سوالات پوچھے جائیں اور اُن کو بھی احتساب کے لئے کھڑا کیا جائے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کو یہ باتیں پسند نہیں ہیں۔ اِسی لئے فوج اور حکومت میں کشیدگی برقرار ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کا دھرنا اِس لئے ہے کہ راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سمیت کئی اور فیصلے حکومت سے راولپنڈی کی مرضی کے مطابق کرائے جائیں۔ نواز حکومت کا خیال ہے کہ یہ دھرنے حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش ہیں، جس سے حکومت کو بہت دانشمندی کے ساتھ نمٹنا چاہیے کیونکہ طاقت کا استعمال تیسری قوت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘‘۔
معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’نواز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی خارجہ پالیسی، نیشنل ایکشن پلان، نون لیگ کا طرزِ حکمرانی، سی پیک، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اور سندھ میں رینجرز کی کارروائیوں سمیت کئی مسائل پر اختلافات ہیں۔ فوج سی پیک میں اہم کردار چاہتی ہے، جو نواز شریف اُن کو دینا نہیں چاہتے کیونکہ میاں صاحب سی پیک کو آئندہ انتخابات میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگر آپ ماضی میں دیکھیں تو اس طرح کی توسیع ہمیشہ سے مسئلہ ہی رہی ہے۔ ماضی میں اسلم بیگ اورآصف نواز جنجوعہ کی مدتوں کے اختتام پر بھی فوج اور نواز شریف کے درمیان مسائل رہے۔ تو میرے خیال میں آنے والے دو مہینے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہیں‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں کے کہا، ’’ پی ٹی آئی اور حکومت مخالف جماعتوں کا خیال ہے کہ اچکزئی نے نواز شریف کے کہنے پر ہی ایسا بیان دیا ہے۔ اسی لئے میاں صاحب نے ایوان میں اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ نواز شریف نہیں چاہتے کہ ان کے اور فوج کے اختلافات منظرِ عام پر آئیں کیونکہ ان کے خیال میں اِس سے حکومت کمزور ہوگی۔ اسی لئے وہ ان اختلافات کو بند کمروں کے اجلاسوں میں حل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
DW
♦