لیاقت علی ایڈوکیٹ
گیارہ اگست 1947کو پاکستان کے نامزد گورنر جنرل محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی آئین اورقانون سازاسمبلی کے پہلے اجلاس سے بحیثیت صدر (سپیکر )خطاب کیا ۔ ان کے اس خطاب کی اہم بات جس پر آجکل بہت زور دیا جاتا ہے وہ ہے ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کے بارے میں ان کے خیالات۔ اپنی اس تقریر میں اور بہت سی باتوں کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ نئی مملکت میں تمام شہری بلا لحاظ مذہب مساوی ہوں گے اور ریاست کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا موقف ہے کہ جناح کی یہ تقریر دراصل پاکستانی ریاست کو سیکولر بنانے کی دستاویز ہے ۔ ان کے نزدیک جناح چاہتے تھے کہ پاکستان کو ایک جدید جمہوری اور سیکولر ریاست بنایا جائے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی اس تقریر کے لئے قومی اسمبلی کے فورم کا انتخاب کیا تھا ۔جناح سمجھتے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد دو قومی نظریہ اپنی اہمیت کھوچکا ہے لہذا جتنی جلدی ممکن ہوسکے اس کو پس پشت ڈال کرایک نئے عہد کا آغاز کیا جائے ایک ایسا عہد جس کی بنیاد مذہب کی بجائے پاکستانیت ہو ، ۔
لیکن ہمارے سیکولر ازم کے حامی یہ نہیں بتاتے کہ جناح جنھوں نے مذہب کو قوم کی بنیاد قرار دیا تھا اور دو قومی نظریہ کا بیانیہ ایجاد کیا تھا وہ یکایک سیکولر کیسے ہوگئے ۔ مذہب کی بنیاد پر جس تقسیم کا مطالبہ انھوں نے کیا تھا اس کی بدولت ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا ۔ لاکھوں لوگ ان کے دوقومی نظریئے کی بھینٹ چڑھ رہے تھے ۔ مذہب کے نام پر ہر طرف ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہورہا تھا۔ ہزاروں سالوں سے جمی جمائی بستیاں اور شہر اجڑ رہے تھے ۔ جو لوگوں مذہبی تفریق کے باوجود صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے دو قومی نظریہ انھیں علیحدہ کر رہا تھا تو پھر یکا یک یہ سیکولرازم کہاں سے آگیا ۔
قائد اعظم کا کوئی پاکستان اگر تھا تو اسی دن ختم ہوگیا تھا جس دن پاکستان کی قومی اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کی تھی ۔ قرار داد مقاصد کی منظور ی کے بعد جناح پاکستان سیاست میں غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے سبھی حکمران خواہ وہ فوجی تھے ،سویلین یا جمہوری اس قرار داد کے حامی رہے ہیں۔ اس قرار داد کی موجودگی میں جناح کے ویژن کی کوئی اہمیت نہیں۔
جناح کی یہ تقریر دراصل لفاظی کا شاہکار ہے ۔ اس تقریر کے بعد وہ چودہ مہینے تک زندہ رہے لیکن ماسواے اس تقریر کے انھوں نے کونسا ایسا اقدام اٹھایا جس سے یہ پتہ چلے کہ وہ پاکستان کو سیکولر اور جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے ۔بطور گورنر جنرل انھوں نے دو منتخب صوبائی حکومتوں کو توڑ کر ایک ایسی سیاسی روایت قائم کی جو تادیر پاکستان میں چلتی رہی ۔
انھوں نے اپنی زندگی میں وزیر اعظم لیاقت علی خاں کوکبھی یہ اجازت نہ دی کہ وہ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کریں حالانکہ یہ ان کا آئینی استحقاق تھا ۔ ہر کابینہ اجلاس کی صدارت وہ خود کیا کرتے تھے ۔انھوں نے جوگند ر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا اور سر ظفر اللہ کو وزیر خارجہ تو کیا اس سے پاکستان کا سیکو لر ہوگیا تھا۔ بھگوان داس یا کارنیلس کے چیف جسٹس بن جانے سے پاکستان میں سیکو لر ازم آگیاتھا ۔ کارنیلس تو یحییٰ خان کے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے طور پر ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے پر کام کر رہے تھے ۔
سیکولرازم کے حامیوں کو جرات سے یہ بات کہنی چاہیے کہ ہم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان کی بقا، خوشحالی اور سالمیت کی یہی راہ ہے ۔ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر پاکستان زندہ رہ سکتا اور قوموں کی برادری میں باعزت مقام حاصل کر سکتا ہے ۔ جناح سیکولر تھے یا نہیں، اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ جناح کو فوت ہوئے 67 برس بیت چکے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ۔ جناح پاکستان کی سیاست میں غیر متعلق ہوچکے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ’ ہم پاکستان میں سیکولر ازم چاہتے ہیں‘ انھیں جناح کی شخصیت کی آڑ نہیں لینی چاہیے ایسا کرنے سے سیکولر پاکستان کے لئے ان کا مقدمہ کمزور ہوتا ہے ۔
پاکستان میں’ اسلامی نظام ‘ کے نفاذ کے حامی بھی اپنے موقف کے حق میں سند جناح ہی سے حاصل کرتے ہیں ۔ جناح کیسے’ اسلامی‘ تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب تک وہ زندہ رہے پاکستان کی قومی اسمبلی کو کوئی بھی اجلاس تلاوت کلام پاک سے نہیں شروع ہوا تھا ۔قیام پاکستان کی خوشی میں بطور نامزد گورنر جنرل انھوں نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور یہ لنچ کی دعوت کی تھی ۔ جب ان سے کہا گیا کہ رمضان کا مہینہ ہے آپ لوگوں کو لنچ پر مدعو کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ جو لوگ روزے سے ہوں گے وہ نہ کھائیں ۔’جناح شراب پیتے ، سور کھاتے اور کبھی مسجد میں نہیں جاتے تھے لیکن بر صغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کے رہنما تھے ‘(فریڈم ایٹ مڈ نائٹ)۔
دراصل جناح پاپولر سیاست دان تھے ۔ پاپولزم کی ایک بنیادی خصوصیت ہے نظریاتی ابہام ۔ آپ نے سماج کے سبھی طبقوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اس لئے آپ کوئی واضح نظریاتی پوزیشن نہیں لے سکتے ۔ جناح اقتداری سیاست کررہے تھے اس لئے وہ خود کوکسی ایک نظریئے سے وابستہ نہیں کرسکتے تھے۔
جب کوئی مغربی صحافی ان سے پوچھتا کہ پاکستان تھیو کریٹک ریاست ہوگی تو وہ پوری قوت سے کہتے کہ بالکل نہیں ۔ لیکن پیر صاحب آف مانکی شریف کو ملک میں شریعت کے نفاذ کا وعدہ کرتے ۔ جناح نظریاتی نہیں اقتداری سیاست دان تھے ۔ نظریات اور عوام ان کے لئے ایسے ہتھیار تھے جو انھیں اقتدار کی منزل سے ہمکنا ر کرسکتے تھے ۔جناح نہ سیکولر تھے اور نہ ہی اسلامی نظام کے داعی ۔سیاست ان کے لئے شطرنج کا کھیل تھا اور اس کھیل کے وہ بہترین کھلاڑی تھے ۔
♣
12 Comments