عالیہ شاہ
میر تقی میر کا مشہور شعر ہے ۔۔۔نازکی اس کے لب کی کیا کہیے ۔۔۔ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔
اس شعر میں ( اس ) سے مراد میرتقی میر کا محبوب ہے۔ میر نے اپنے محبوب کے ہونٹوں کو گلاب سے تشبیہ دی ہے۔ لیکن ہم نے یہ شعر یہاں اپنے محبوب کے لئے لکھا ہے۔ ہمارا محبوب۔ آپ بہت مشتاق ہوں گے یہ جاننے کے لئے کہ ہمارا محبوب کون ہے؟ تو آپ کو بتاتے چلیں کہ دیسی لبرل ہونے کے ناطے ہم ایک سے زیادہ محبوب رکھنے کے قائل ہیں۔ صف اول پر تو میرا محبوب پاکستان ہے۔ لیکن اس سے جڑی کچھ چیزیں بھی ہمارے لئے محبوب کا درجہ رکھتی ہیں۔
مثال کے طور پر جمہوریت ، جمہوریت ہمارا محبوب ہے اور ہم بچپن سے ہی اس کے عاشق ۔ کیوں کہ ابا جان کو ہمیشہ جمہوریت کے راگ الاپتے دیکھا تھا۔ یہ نہ ہوتی تو آئے روز مارشل لا کے کوڑے کھانے پڑتے۔ ہمارا دوسرا محبوب ہماری جان سے پیاری فوج۔ اورہمارا تیسرا محبوب ایجنسیاں یعنی انٹیلی جنس ادارے۔ تحفظ فراہم کرنے والے ادارے۔ یہ سب ہمارے محبو ب ہیں اور ہم انھیں شدت سے چاہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ نہ ہوں تو ہمیں دشمن سے کون بچائے؟
یہی ادارے اس ملک کی حفا ظت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مجال ہے کوئی ہماری جانب میلی نظر سے دیکھ لے۔ ان ہی کی بدولت تو ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑی۔ ورنہ آئے روز دھماکے ہو رہے ہوتے اور گھروں سے لاشے اٹھ رہے ہوتے۔ اب تک پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہوتی ۔
لیکن کیا کہیے کہ جمہوریت کی اتنی خمیدہ کمر آج سے قبل کبھی نہ ہوئی تھی ۔ ا تنی نازک تو لکھنوی معاشرے میں نواب کی عزت اور طوائف کی غیرت بھی نہ تھی۔ اتنی چھوئی موئی جمہوریت کہ کوئی غلطی سے نام بھی لے لے تو نظر لگ جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے ۔ کسی کی اربوں ڈالرز کی کرپشن پر پردہ ڈالنا اس لئے ضروری ہو جائے کہ کہیں ہماری پیاری جمہوریت لٹ پٹ نہ جائے۔ دہشت گردوں کی کالعدم تنظیموں کو سینے سے لگا کر رکھنے والوں سے در گزر اس واسطے کرنا پڑے کہ کہیں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے نہ اتر جائے۔
کمر توڑ مہنگائی کے سیلاب میں اس لئے خوشی خوشی ڈبکیاں لگانا پڑیں کہ کہیں جمہوریت کی خمیدہ کمر دوہری ہو کر ٹوٹ ہی نہ جائے۔ گویا جمہوریت کی کمر بچاتے بچاتے بے چاری عوام کی کمر اتنی خستہ ہو چکی ہے کہ کسی بھی لمحے چٹاخ کی آواز آنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ کوئٹہ میں ایک ہی دن میں نوے ہلاکتیں دیکھ کر کن انکھیوں میں گفتگو کرنا پڑتی ہے کہ منہ سے آہ بھی نکل گئی تو بس جمہوریت تو گئی تیل لینے اور نا معلوم افراد گئے پانی بھرنے۔ یہی سوچ کر اپنے بلوچی بھائیوں کے لئے آنکھوں میں در آنے والے آنسووں کو ٹپکنے سے پہلے ہی حلق میں اتار لیا۔ ایسا نہ کرتے تو دنیا میں ہمارے نمبر ایک اداروں کی عزت خاک میں مل جاتی۔اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا۔ یقین جانئے ہم مہنگائی کا انبار اور کرپشن کا بازار تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن جمہوریت کو کوئی گزند آتے نہیں دیکھ سکتے ۔
ماشااللہ ہمارے ملک میں گھرانے، اولاد میں خود کفیل ہوتے ہیں کہ اولاد تو اللہ کی دین ہوتی ہے۔ پھر اگر چھ بچوں میں سے ایک اغواء بھی ہو جائے تو کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے ۔ تو کیا اب ہم اتنی سی بات پر جمہوریت پر انگلیاں اٹھائیں ؟ صد حیف ایسے غیر محب وطن لوگوں پر۔ ویسے بھی آئی جی صاحب نے بتایا تو ہے کہ بچے خود گھرسے بھاگ جاتے ہیں۔ ہم شیعوں کا، بلوچیوں کا، ہندووں کا، عیسائیوں کا قتل عام تو دیکھ سکتے ہیں لیکن سیکیورٹی اداروں پر انگلی اٹھتے نہیں دیکھ سکتے۔
اب آپ یقیناًسوچ رہے ہوں گے کہ میرے منہ میں خاک کہیں میں مارشل لا کے حق میں تو نہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر بوٹ پالشیا ہونے کا الزام لگائیں ہم اللہ کو حاضر ناضر جان کر کہتے ہیں کہ ہم مارشل لا کے سخت خلاف ہیں۔ جتنے زخم اس ملک کو ڈکٹیٹرز نے لگائے ہیں اتنے زخم تو غیروں نے بھی نہیں لگائے۔ آدھا ملک گنوانے اور تیس لاکھ افغانیوں کو اپنے ملک میں ٹھونسنے کے بعد بھلا کون اس حق میں ہو گا کہ کوئی ڈکٹیٹر آئے۔ لیکن اس سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ ہم جمہوریت کو جوں کا توں قبول کرنے کو تیار ہیں۔
ویسے بھی جمہوریت اور حکومت میں فرق ہے۔ حکومت کے کرتوتوں سے پردہ اٹھانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے جمہوریت کی ایسی کی تیسی کر دی۔ جمہوریت جمہور کی آواز ہے۔ لوگوں کی حکومت ، لوگوں کے لئے، لوگوں کی طرف سے ۔جہاں قانون سب کے لئے برابر ہوتا ہے۔ جمہوری نظام ، حکمرانوں کی کرپشن کو دکھانے کا نام ہے دبانے کا نہیں۔ آپ ہمیں غدار کہہ لیں، غیر محب وطن پکار لیں، بوٹ پالشیا کا لقب دے لیں۔ کچھ بھی کہہ لیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کسی نے بھی ہمارے لئے کچھ نہیں کرنا۔ اس ملک سے لاشے اسی طرح اٹھتے رہیں گے اور لوگ مٹی میں مٹی یونہی ہوتے رہیں گے ۔ تو پھر ہم سچ کہنے سے کیوں ڈریں؟ ہم تو یہ بھی لکھنا چاہ رہے تھے کہ جمہوریت، انٹیلی جنس ، قومی ادارے، سب کے سب فیل ہو چکے ۔
پھر ہمارے دوستوں نے ہمیں سمجھایا کہ تم نے کبھی فلموں میں نہیں دیکھا کہ ایسا لکھنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ وہ اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ نا معلوم افراد کے خلاف کوئی بات نہ لکھنا ۔ تو خدا کی قسم ہم یہ بات با لکل نہیں لکھیں گے۔ کیوں کہ ہم انتہائی شریف ، ڈرپوک اور کمزور دل کے مالک ہیں۔ اپنا اغواء ہونا ہم برداشت نہ کر پائیں گے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ خود کو اغوا ہوتا دیکھ کر ہم کسی ڈکیٹیٹر کے حق میں نعرے لگانا شروع کر دیں کہ شائد اسی طرح ہماری خلاصی ہو جائے۔
خیر آزادی کے موقعے پر ایسی بد شگونی کی باتیں کرنے کا کیا فائدہ؟ آئیے سب مل کر آزادی کا دن مناتے ہیں۔ لیکن ٹھہر ئیے ۔۔ سب کہاں منا سکتے ہیں؟ جو آزاد ہیں وہی منائیں گے نا؟ ایک اندازے کے مطابق احمدیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے چھ لاکھ کے بیچ ہے۔ تقریبا ڈھائی ملین ہندو پاکستان کی آبادی کا حصہ ہیں ۔عیسائی مذہب کے پیروکار پاکستانی بھی تقریبا ڈھائی ملین کے قریب ہیں۔ پاکستانی شیعہ برادری کی تعداد کا اندازہ چالیس ملین لگایا گیا ہے۔تقریبا تیرہ ملین آبادی بلوچستان کی ہے۔ وہ پے در پے ہونیوالے سانحات کے بعد اس قابل ہی نہیں رہے کہ آزادی کا جشن منا سکیں۔ کل بنتی ہے تعداد 6 کروڑ ۔(ہمارا حساب خاصا کمزور ہے اس لئے مردم شماری والے اداروں سے گزارش ہے کہ ہمارے اعداد و شمار پر تکیہ نہ کریں اور تھوڑا کام خود بھی کر لیں) خیر! اٹھارہ کروڑ میں سے 6 کروڑ نکال دیجئے تو باقی بچے 12 کروڑ۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کی آٹھویں بڑی مڈل کلاس پر مشتمل ہے ۔ بے چارے مڈل کلاسی تو ویسے ہی اس جشن سے باہر ہو گئے۔ اب بچے ہوئے کروڑوں میں سے معاشرے کے پسے ہوئے، بے بس، لاچار ، محکوم شہریوں کو بھی نکال دیں تو بس گنتی کے چند حکمران اور اشرافیہ خاندان ہی بچیں گے جن کو صحیح معنوں میں آزادی حاصل ہے اور وہ آزادی کے خوب مزے لے رہے ہیں تو ان خاندانوں کو اٹھارہ کروڑ بار جشن آزادی مبارک۔
♠