بیرسٹر حمید باشانی۔ ٹورنٹو
ان دنوں جشن کا ساماں ہے۔پاکستان اور ہندوستان اپنی اپنی آزادی کا جشن منارہے ہیں۔یہ جشن گزشتہ انہتر سال سے ہر سال باقاعدگی سے بنایا جاتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ سا تھ جوش و خروش میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔زیادہ تر تقریبات سرکاری سرپرستی میں ہوتی ہیں، اور شہری علاقوں تک محدود ہوتی ہیں۔
گاہے غیر سرکاری تقریبات بھی ہوتی ہیں جن میں زیادہ کاروباری اور تجارت پیشہ لوگ ہوتے ہیں۔یہ لوگ ایسے دنوں کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کے فروغ یا پھر سوشل نیٹ ورک کے لیے استعمال کرتے ہیں۔پاکستان اور ہندوستان کے عام لوگوں کی بہت بڑی اکثریت شہروں سے باہر رہتی ہے۔چنانچہ عوام کی اس بھاری اکثریت کا ایسی سرگرمیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔سوائے اس کے کہ ان کو ریڈیو ، ٹی۔وی یا دوسرے زرائع ابلاغ سے اس جشن کی خبر مل جاتی ہے۔
یہ جشن ازادی بالکل بجا، مگر یہ جشن مناتے ہوئے ان دونوں ملکوں میں اس بات پر بھی غور ہونا چاہیے کہ جس آزادی کا ہم جشن منا رہے ہیں وہ کیا واقعی ہمیں حاصل ہے ؟ اور ظاہر ہے اس سے پہلے اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ ٓازادی ہوتی کیا ہے ؟ کیا آزادی کا مطلب صرف غیر ملکی قبضے کا خاتمہ ہے ؟ یعنی انگریزوں کا بر صغیر سے نکل جانے اور اقتدار کی باگ ڈور پاکستان و بھارت کے مقامی حکمرانوں کو منتقل ہونے کے عمل کو آزادی کہا جا سکتا ہے ؟
کسی بھی ملک سے غیر ملکی قبضے کے خاتمے کو اس ملک کے عوام کی آزادی نہیں کہا جا سکتا۔تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب غیر ملکی تسلط کے خاتمے کے بعد مقامی قوتوں نے عوام پر ایسے نظام مسلط کیے جو غیر ملکی تسلط سے کئی زیادہ، ظالمانہ یا وحشیانہ تھے۔چنانچہ کسی ملک کا کسی غیر ملکی تسلط سے چھٹکارہ ہی آزادی نہیں، بلکہ اس ملک کے عوام کا معاشی، سیاسی، سماجی اور فکری طور پر اپنی مرضی اور پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے اختیار کو آزادی کہا جا سکتا ہے۔
کیا بر صغیر سے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد یہاں کے عوام کو یہ اختیار مل گیا ؟ کوئی دیانت دار شخص اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دے سکتا۔نہ ہندوستان میں، نہ پاکستان میں۔
اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی کچھ بنیادی شرائظ ہیں۔اس میں پہلی شرط یہ ہے کہ انسان معاشی طور پر آزاد ہو۔معاشی طور پر آزاد ہوئے بغیر انسان سیاسی اور فکری طور پر ٓازاد نہیں ہو سکتا۔اور ایک منصفانہ معاشی نظام قائم کیے بغیر عوام معاشی طور پر آزاد نہیں ہو سکتے۔صرف ایک منصفانہ معاشی نظام ہی عوام کو بلا رشوت، شفارس، لالچ اور خوف کے روزگار کی ضمانت دے سکتا ہے۔اس ضمانت کے بعد انسان محتاجی سے باہر نکلتا ہے۔اپنے پاؤں کے نیچے زمین محسوس کر سکتا ہے۔اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
معاشی طور پر آزاد ہونے کے بعد انسان سیاسی طور پر آزاد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔وہ اپنے ضمیر اور پسند کے مطابق ووٹ دیتا ہے۔کوئی اسے دھونس، دھاندلی جبر یا لالچ کے ذریعے ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔اس آزادانہ رائے کے اظہار کے نتیجے میں سماج میں سیاسی آزادیاں آتی ہیں۔ شہری آزادیاں آتی ہیں۔بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ ملتا ہے۔جبر سے پاک ایک آزاد سیاسی نظام قائم ہوتا ہے۔معاشی اور سیاسی آزادیوں کے بعد انسان فکری طور پر آزاد ہوتا ہے۔
وہ خوف اور لالچ سے نکل کر آزادانہ طور پر سوچنا شروع کرتا ہے۔اپنی فکر کا آزادانہ اظہار کرنا شروع کرتا ہے۔وہ مذہب اور فلسفے پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔اسے یہ خوف نہیں رہتا کہ الگ طریقے سے سوچنے کی پاداش میں اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔کافر قرار دے دیا جائے گا۔ یا پھر اسے قتل کر دیا جائے گا۔چنانچہ معاشی، سیاسی اور فکری آزادی کے بغیر آزادی کا کوئی تصور نہیں۔
پاکستان و بھارت میں بے شک جمہوریت ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں۔مگر ان ممالک میں ابھی تک منصفانہ معاشی نظام نہیں ہے۔عوام کی ایک عظیم اکثریت غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔سماج میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہے۔ رشوت اور اقربا پروری ہے۔ دھونس اور دھاندلی کا چلن ہے۔ظلم و نا نصافی ہے۔طبقاتی تقسیم اور لوٹ کھسوٹ ہے۔
ایسے سماجوں میں عام آدمی اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کر سکتا۔ اورجب تک یہ عام آدمی آزاد نہیں ہو جاتا اس وقت تک آزادی کا جشن بے معنی ہے۔چنانچہ آزادی کا جشن منانے والوں کو یہ جشن مناتے وقت اپنے ملکوں میں معاشی و سماجی انصاف کی بات بھی کرنی چاہیے۔عام آدمی کو اس جشن میں شامل کرنے کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔
♠
One Comment