ریاست ماں نہیں ہوتی

faiz-pic

فیض کاکڑ

ریاست کی ماں کے ساتھ مشابہت اور ریاست کو ماں کہنا ماں کی توہین ہے۔ ماں دنیا کی سب سے رحم دل جبکہ ریاست دنیا کی سب سنگ دل ہستی ہے۔ صرف بیسوٖیں صدی میں ریاستوں نے مجموعی طور پر سترہ کروڑ سے زائد لوگ مار دیے۔ لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ماں نے کبھی اپنے بیٹے یا حتیٰ کہ دوسروں کے بیٹے کو اذیت دے کر مار ا ہو خواہِ بیٹا جو بھی جرم کرے؟

کیا تا ر یخ میں کو ئی ایسی ماں گزری ہے جس نے اپنے بچوں کے اوپربمباری کرکے ان کے پرخچے اڑائے اور ان کے گھر مسمار کئے؟ کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ ماں خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہی ہو اور اس کے بچے بھوکے، پیاسے ، ننگے، بیمار، بے گھر اور بے تعلیم رہ رہے ہوں ؟ کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ بیٹا کتنا ہی لالچی، خود غرض اور بے وفا کیوں نہ ہوجو اکثر شادی کرنے کے بعد ماں سے الگ بھی ہو جاتا ہے تو ماں نے اسے غدار قرار دے اسے کے جسم سے بوٹیاں نوچ نوچ کر اسے مار دیا ہو؟

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کہ ماں نے ایک بیٹے سے سب کچھ چھین کر دوسرے بیٹے کو دے دیا؟ کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ ماں نے گھر کے کونے میں جیل بھی بنایا ہو اور دفا ع کے نام پر اسلحے کا ڈھیر بھی لگا رہی ہو؟

میرے تیس سال کے مشاہدے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ پہلے ماں نے خود کھانا کھایا اور بعد میں ہم بہن بھا ئیوں کو کھلایا۔ اگر کبھی کھانا کم بھی ہوا تو یہی کہا کہ مجھے ویسے بھی بھوک نہیں تھی۔ اور جب کھانا نہیں ہوتا تھا تو پہلے خوب روتی اور پھر ساتھ والے گھر سے آٹا ادھار لیتی اور ہمارے لئے روٹی کا بندوبست کرتی۔

ریاست بھی عوام کے نام پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ لے تو لیتی ہے لیکن عوام پر خرچ کرنے کی بجا ئے اسلحے پر لگا دیتی ہے یا حکمران خود ہڑپ کر جا تے ہیں۔ میری ماں میری طرح نامِ نہاد تعلیم یافتہ تو نہیں لیکن آج تک پوچھتی ہے کہ بیٹا تمھاری تعلیم مکمل کیوں نہیں ہوتی؛ زندگی پڑھتے پڑھتے بیت گئی اور اس کے بعد سرکار اچھی نوکری دے گی نا؟

ان کو غلط فہمی ہے کہ سرکار کو بھی ان کے بیٹے کی فکر ہوگی لیکن وہ بیچاری کیا جانتی ہیں کہ جو تعلیم میں حاصل کر رہا تھا وہ صرف ریاستی ماں کا وفا دار بننے کے لئے تھا، مجھے کوئی ایسا ہنر نہیں سکھایا گیا جو مجھے روزگار کے قابل بنا تا حتی کہ میں وہ زبان بھی اچھی طرح نہیں سیکھ پایا جو ریاستی ماں نے میرے لئے لازمی قرار دیا تھا جسے غلط بول کر میرے پیارےریاستی بھائی آج بھی میرا مذاق اڑاتے ہیں۔

میری اپنی ماں کی طرف سے زبان کی کوئی پا بندی نہیں رہی ہے وہ میرا چہرہ پڑھ کر بتا سکتی ہے میں خوش ہوں یا پریشان۔ ماں کو دیکھنے کے لئے انساں ہر وقت ترستا رہتا ہے لیکن ریاستی ماں کے بیٹوں یعنی پولیس اور ایف سی دیکھ کر ہم خوف سے کانپنے لگتے ہیں۔ ہم دوست ایک دو بار لاہور گھومنے گئے۔ جب پولیس کی چوکی نظر پڑتی تو منہ سے بے اختیار نکلتا اوف پھر پو لیس! کو ئٹہ میں ایف سی کسی چیک پوسٹ پر ہمٖیں روک لیتی،تو ڈر سے زبان اٹک جاتی ہے۔

کیا ماں کا چہر ہ اتنا خوف ناک ہوتا ہے؟ نہیں ماں اتنی بے رحم، سنگ دل اور خوفناک ہر گز نہیں ہوسکتی۔ ماں کے ساتھ کسی آئین، معاہدوں اور قانون پر دستخط نہیں کرنے پڑتے بلکہ ان کی محبت دنیا کے تمام معاہدوں سے زیادہ بااعتماد اور پریکٹیکل ہے۔

اگر ریاست ماں نہیں ہے تو پھر ریا ست کیا ہے۔ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔ ٖ میں ریاست انسانوں کے درمیان ایک سماجی معاہدہ ہے جس کے مطابق ریاست اور شہری دونوں پر اپنے پنے فرا ئض اور حقوق عا ئد ہوتے ہیں۔ ریاست کے بنیادی فرائض میں شہریوں کے جان، مال اور آزادی کی حفا ظت شا مل ہیں اور حقوق مٖیں شہریوں کی طرف سے ریاست کی دفا ع اور ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔

دوسرے الفا ظ میں ریاست کے فرائض لوگ کے حقوق ہیں اور لوگ کے فرائض ریاست کے حقوق ہیں اور انہی حقوق اور فرائض کی بنیاد پر ریاست اور شہری ایک دوسرے کو جوابدہ ہیں۔ ان حقوق اور فرا ئض کو سمجھنے کے لیے ریشنل اپروچ کی ضرورت ہے تا کہ جذبات،سنسنی اور پروپیگنڈا کی بجائے منطق، تحقیق اور شفاف انداز میں حق و سچا ئی اور عدل و انصاف کی بنیاد پر ریاستی امور چلایا جائے ۔

ایک اور ہم نقطہ سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ عوام ہو گی تو ریاست ہوگی اور ریاست ہوگی تو حکومت ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں عوام سب سے اہم ہے۔ ریاست اور حکومت ہوتے عوام کے لئے ہیں۔

اگر دنیا میں موجودہ ریاستوں کی حالتِ زار کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے ان ریاست میں جھگڑے، غربت اور جرائم کم ہوتے ہیں جہاں ریاست کی ترجیح عوام کی فلا ح و بہبود، ان کی تعلیم اور صحت ہو۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور آ ئس لینڈ ایسی ریاستوں کی زندہ مثالیں ہے۔ لہذا عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حقوق و فرائض کا ادراک کریں تا کہ ریاست ماں ہےجیسے جذباتی نعروں سے ان کو نہ ورغلایا جائے۔

2 Comments