انسانی آزادیاں اور انسانی حقوق کا مسئلہ

anb

ارشد نذیر

انسانی آزادیاں اور انسانی حقوق ناقابلِ تنسیخ، ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ تردید ہوتے ہیں۔ ہر انسان کو یہ حقوق چاہئے ہوتے ہیں۔ مسئلہ انسانی آزادیوں اور انسانی حقوق کی تفہیم، تشریح اور توضیحات کا نہیں ہے کیونکہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی، ملکی اور انفرادی سطح پر پامالی سب سے زیادہ انسانی حقوقہی کی آڑ میں میں کی جاتی ہے۔

فرسٹ ورلڈ کے ممالک تھرڈ ورلڈ کے ممالک کے خام مال کا حصول اپنے سیاسی، ثقافتی اور معاشی حقوق کی آڑ میں کررہے ہیں۔ فرسٹ ورلڈ کے ممالک سیکنڈ ورلڈ کے ممالک کو محض صارف بنائے ہوئے ہیں اوراس صارفیت میں ان کی انفرادی حسیات حتیٰ کہ ذائقوں تک کو، ثقافت، آرٹ، موسیقی، مذہب، رہن سہن اور بود و باش الغرض ہر چیز پر ایک غیر محسوس طریقے سے کنٹرول کرتے ہیں۔ ان کی انفرادیت اور اجتماعیت کوختم کرتے ہیں۔

علم و سائنس اور ٹیکنالوجی کے بجائے انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ اسلحہ کبھی بھی اکیلے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ اسلحہ کا لزومہ آئیڈیالوجیز ہوتی ہیں۔ ان آئیڈیالوجیزکے تضادات ان کو لڑائیوں اور جنگوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ پھر انسانی حقوق کے انفرادی پہلوؤں میں بھی ہر ملک کے لوگوں اور اداروں میں واضح تفریق موجود ہے۔

ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انسانی حقوق ناقابلِ تقسیم، ناقابلِ تردید، ناقابلِ تنسیخ ہوتے ہیں۔ جی اگر ایسی بات ہے تو پھر مسئلہ انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کی محض تفہیم، تشریح و توضیحات کا نہیں ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آخر کیوں، کیسے اور کون ہم سے ہمارے یہ ناقابلِ تقسیم، ناقابلِ تردید، ناقابلِ مصالحت، ناقابلِ تنسیخ حقوق چھین رہا ہے؟

جب ہم اس سوال پر غور کرنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ آنے لگتی ہے کہ ان حقوق کے چھینے جانے اور غصب کئے جانے میں سیاست کارفرماہے اور سیاست بھی ایسی جس کا محرک معیشت ہی ہوتی ہے۔ جو لوگ انسانی حقوق کو غیر سیاسی کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت سرمایہ داروں ہی کا آلہ کار ہوتے ہیں۔ وہ درپردہ انہیں کے عزائم کو پورا کرتے ہیں۔ جب یہ انسانی حقوق کو غیر سیاسی کرکے پیش کرتے ہیں تو یہ انسان کی انفرادی آزادیوں اور انفرادی اور اجتماعی حقوق کا تمسخراُڑا رہے ہوتے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی کوئی خدمت نہیں ہے۔

پھرانسان کے معاشی، سیاسی، معاشرتی، ثقافتی، مذہبی اور تمدنی حقوق میں درجہ بندی کے حوالے سے بھی بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں۔ کیا انسان کو انسان بننے کے لئے پہلے اپنی مادی احتیجات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے یا دیگر حقوق کی۔ اس کی مثال ایک نومولود بچے کی پیدائش سے دی جاسکتی ہے۔ ایک نومولود جب پیدا ہوتا ہے تو ڈاکٹر اُسے الٹا لٹکا کر اُس کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے تاکہ وہ آکسیجن یعنی مادے کی گیس شکل حاصل کرکے زندگی کو بحال کرسکے۔ تب ہی وہ زندہ انسان تصور کیا جاتا ہے اور مکمل زندگی کی علامت بن جاتا ہے۔

پھر اُسے موسم کی شدت سے بچانے کے لئے کپڑوں میں لپٹا جاتا ہے۔ ماں کے پستان سے دودھ یعنی (مادہ کی مائع شکل) پلایا جاتا ہے پھر کہیں بعد کے مرحلے میں آذان (یعنی مذہب کا تصور) کا وقت آتا ہے۔ اس کے بھی بہت بعد میں اُسے اجتماعی زندگی اور اپنے سماجی اقدار، رنگ، نسل، خاندان، قوم، قبیلہ وغیرہ کی شناخت ہوتی اور کرائی جاتی ہے۔ لیکن جب یہ انسان بڑا ہوجاتا ہے تو پھر وہ ساری زندگی انہیں حصوں بخروں میں بٹا رہتا ہے۔ اُسے مذہب اعلیٰ و ارفیٰ یا انسانی مادی ضروریات اعلی و ارفیٰ کے چکر میں ڈالا جاتا ہے۔ آیا ثقافتی حقوق پہلے ہیں یا معاشی۔ تمام سیاست معاشی حقوق کے افضل ہونے یا ثقافتی حقوق کے برتر ہونے کے گرد گھومتی ہے۔ کن کو کن پر فوقیت دی جانی چاہئے۔

یہی سوال اپنی سرشت میں جتنے سادہ معلوم ہوتے ہیں اتنے سادہ ہیں نہیں کیونکہ ان کے پیچھے سیاست کارفرما ہے اور سیاست بھی طبقاتی۔ ظالم اور مظلوم، جابر اور مجبور، حاکم اور محکوم طبقات کی۔ جب تک انسانی حقوق کو اس تناظر میں نہیں دیکھا اور سمجھا جاتا توانسانی حقوق کی یہ سیاست سرمایہ داری نظام ہی کا پھیلایا ہوا جال معلوم ہوتی ہے۔ یہ کیسے ناقابلِ تنسیخ، ناقابلِ مصالحت اور ناقابلِ تردید حقوق ہے جس کو یہ غاصب اور استحصالی طبقہ جب، جہاں اور جن حالات میں چاہے غصب کرلے۔ اس طرح انسانی حقوق پر سیاست کرنے والے بھی انہی کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں۔

اب ذرا دوبارہ اُسے نومولود بچے کی طرف دھیان لگائیے۔ اگر یہ نومولود بچہ کسی ایسی ماں کا ہو جو خود غذائی قلت کا شکار ہے اور اسی غذائی قلت کی وجہ سے شیرِ مادر خشک ہوچکا ہے تو ایک بار پھر ثقافت، سیاست، معاشرت، مذہب و روحانیت سے پہلے معیشت آ جاتی ہے۔ یہ معیشت بھی مصنوعی دودھ بنانے والی کمپنیوں اور ڈاکٹروں جنہیں عرف عام میں مسیحا کہا جاتا ہے کہ ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ یہ سیاست انسان کی زندگیوں کے ساتھ کھیلتی ہے۔ آخرغذائی قلت کا شکار اس ماں اور ایک سٹنٹڈ نومولود کو جنم دینے والی کو آپ کونسے حقوق سمجھائیں گے۔ آپ اُسے غربت کی کونسی تعریف سمجھائیں گے۔ آپ اُسے غربت کی شدت سے کیا آگاہی فراہم کریں گے۔ اگر کسی نے کوئی ایسا فارمولہ سوچا ہوا ہے تو میرے خیال میں انسانیت کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

اگر آپ ایک خاتون خواہ وہ کسی بھی ملک یا خطے سے تعلق رکھتی ہوکی غذا کی بات کریں گے تو آپ کو سائنس پر اعتبار کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عورت کے ایک صحت مند ذہن اور صحت مند جسم کم ازکم دو ہزار کیلریز روزنہ کی بنیاد پر درکار ہیں۔ کیونکہ اگر اس میں عمر، جسمانی سرگرمیاں اور دیگر سرگرمیوں کا اضافہ کر لیا جائے تو یہ مقدار بڑھ بھی جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ ایک صحت مند جسم اور ایک جمہوری ذہن اور ایک ذمہ دار شہری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو غذائیت کا یہ کم ازکم معیار خاتون کو فراہم کرنا ہوگا۔ لیکن ایسا کرنا ریاست کے بس کی بات ہی نہیں رہی۔ آج پاکستان کی ستر فی صد آبادی صحت، صفائی، پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے لیکن ہمیں جمہوری حقوق پڑھائے اور سکھائے جارہے ہیں۔

کتنی ستم ظرفی ہے کہ غریب کی غربت، خطِ غربت کا پیمانہ، فی کس آمدنی کے معیارات سب کچھ کی تعریفات ایک ایسا طبقہ متعین کررہا ہے جو خود استحصالی ہے۔ پھر اس طبقے سے یہ سوال کہ جناب ہمارے یہ ناقابلِ تقسیم، ناقابلِ تردید اور ناقابلِ تنسیخ حقوق کون اور کس سیاست کی آڑ میں ہم سے چھین رہا ہے کیا جانا چاہے۔ لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس قسم کے جمہوری اور حقوق سے متعلق سوالات اُٹھائے جانے کا حق بھی ہمیں یہی طبقہ دیتا ہے۔ آخر ایسے حالات میں یہ کیسے اور کیوںکر ممکن ہے کہ یہ حقوق بس آرام سے حاصل ہو جائیں گے۔ استحصال کرنے والے طبقات جن کے اس نظام کے ساتھ براہِ راست مفادات وابستہ ہیں ہمیں کبھی بھی اخلاقی بنیادوں یا انسانی اقدار یا پھر محض انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے یہ سب حقوق نہیں دیں گے بلکہ وہ ان حقوق کی آڑ میں سیاست کرتے ہیں جو کہ آج تک ہوتی چلی آرہی ہے۔

استحصال کرنے والا یہ طبقہ ہمیں انسانی حقوق کی بحالی اور حصول کا واحد راستہ جمہوریت بتاتا ہے لیکن جب اس استحصالی طبقے سے سوال کیا جائے کہ جناب پاکستان کی تقریباً 19کروڑ کی آبادی میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 11 کروڑ عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔ اس جمہوری عمل میں ان کی شریک کو کیسے ممکن بنایاجاسکتا ہے جب تک کہ ان کے معاشی حقوق بحال نہیں کئے جاتے، تو جواب ملتا ہے کہ یہ ارتقائی عمل ہے۔ جمہوریت کو چلنے دیجیئے، اچھی طرزِ حکمرانی، قانون کی حکمرانی اور میرٹ پر یقین رکھئے۔سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔

جب ان سے یہ سوال کر لیا جائے کہ جناب پاکستان میں ایک کروڑ بچے سٹنٹڈ یعنی غذائی قلت کی وجہ سے معیاری قدکاٹھ اور ذہنی و جسمانی نشوونما ہی نہیں پا رہے، پاکستان میں حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 8 کروڑ سے زیادہ پڑھے لکھے بے روزگار پھر رہے ہیں، کیا ان سےجمہوریت اور جمہوری روایات کے درخشاں مستقبل کی توقعات باندھی جاسکتی ہیں۔ جب یہ سوال اُٹھتا ہے تواسی جمہوریت میں اور جمہوری حقوق کے پاسداران ایسے سوالات اُٹھانے والوں کو جمہوریت دشمن کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ واہ کیسے انسانی حقوق ہیں اور کیا کیا ان کی تشریحات اور توضیحات ہیں۔ جب یہ کہا جائے کہ یہ تو بورژوا طبقے کی جمہوریت ہے تو جواباً پرولتاریہ طبقے کی ڈکٹیٹرشپ کا طعنہ تیار رکھا جاتا ہے۔

ایسی مثالیں دینے والوں کا رول ماڈل مغربی جمہوریتیں ہوتی ہیں۔ لیکن وہ ان جمہوریتوں میں جنم لینے والے انسانی استحصال اور معاشی استحصالات کا کوئی جواب دینے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے اور انسانی حقوق، انسانی حقوق کی رٹ لگائے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان میں اور کسی طوطے کے بولے گئے رٹے رٹائے جملوں میں کوئی فرق رہ جاتا ہے یا نہیں۔ پھر ہم سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آخر اس سوال پر غور کیوں نہیں کیا جاتا۔ کہیں اس سوال پر غور نہ کئے جانے میں بھی تو کوئی سیاست پوشیدہ نہیں ہے۔

جی ہاں! جب اس سوال پر غور کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے سامنے معاشی سوال آجاتا ہے جو پورے کے پورے معاشی ڈھانچے اور نظاموں کو للکارتا ہے۔ یہ تسلیم کرنے کےلئے کہ واقعی ہمارا معاشی نظام ناکام ہوگیا ہے اس سے جن مطلوبہ حاصلات کی توقعات تھیں وہ حاصل نہیں ہو پارہیں۔ تو جواب ہاں میں ملتا ہے۔ اب ہاں میں جواب وصول کرنے کے بعد نئے نظام کی سوچ و بچار کا عمل شروع ہوتا ہے۔ کسی نئے نظام پرصرف غور کرنے کا مطلب بھی اس نظام سے مستفید ہونے والوں کی مراعات کے چھن جانے کا خوف پیدا کردینا ہوتا ہے تو پھر بہتر نہیں ہے کہ اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے انسانی حقوق، انسانی حقوق کا غلغلہ اُٹھایا جائے تاکہ گلشن کا کاروبار بس اسی طرح چلتا رہے۔

انسان حقوق کا سب سے بڑا مامایو۔این۔ او جس کی اپنی ابتدا ظلم و بربریت سے آلودہ ہے۔ جنگوں کا خاتمہ کرنے اور دنیا میں قیامِ امن لانے والی یہ بین الاقوامی تنظیم نہ امن لاسکتی اور نہ ہی جنگوں پر قابو پاسکی۔

مسئلہ دہشت گردی کے خاتمے کا ہویا ایٹمی اسلحہ پر پابندیوں کا یا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کا، مسئلہ فلسطین کا ہو یا کشمیر کا، ان تمام مسائل میں یو۔این۔او بری طرح ناکام رہا ہے۔ استحصالی قوتوں نے تمام انسانی اقدار کو پامال کیا۔ لاکھوں لوگ قتل ہوئے اوردوسری عالمی جنگ بعد اسی اولین مقصد کہ دنیا میں امن قائم کیا جائے گاکے تحت قائم ہونے والی یہ تنظیم طاقت ور اور استحصالی طاقتوں کا منہ تکتی رہ گئی۔ 1970 میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاوکے روکنے کے معاہدے، جس پرکل 190ممالک نے دستخط کئے جن میں پانچ ایٹمی طاقتیں فرانس، برطانیہ، روس، چین اور امریکہ بھی شامل تھے لیکن اس معاہدے کی کوئی پاسداری نہ ہوسکی۔ یو۔این۔او منہ تکتا رہ گیااور دیگر ممالک نے نہ صرف اسلحے کے ڈھیر لگانا شروع کر دیئے بلکہ بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل نے ایٹم بم تک بنا ڈالے۔ یو۔این۔اواس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کا کچھ بھی نہیں کرسکا۔

پوری دنیا کی نمائندگی کرنے والی اس تنظیم کی سیکیورٹی کونسل پندرہ رکن ممالک پر مشتمل ہوتی ہے دس رکن ممالک جن کا چناؤ دو سال کے عرصہ کے لئے ہوتا ہے جبکہ پانچ مذکورہ بالا ایٹمی طاقیں اس سیکیورٹی کونسل کی مستقل رکن ہیں۔ ان سپر پاورز کو کسی بھی معاملے میں ویٹو کرنے کا اختیار ہے۔ واہ! اس کو جمہوریت اور جمہوری حقوق کہتے ہیں۔ اس کا سادہ لفظوں میں مطلب یہ ہواکہ ظالم ظلم بھی کرےاور اگراس ظلم کے خلاف آواز اُٹھنے لگے تو اس آواز کو دبانے کا اختیار بھی انہیں کو حاصل ہو۔ کیا ایسے میں یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ اسی کو حقیقی آزادی کہتے ہیں۔ کیا یہ طریقے استحصالی ممالک کے استحصال کو روک سکتے ہیں۔

کیا سیکیورٹی کونسل اپنے موجودہ ڈھانچےکے ساتھ دنیا میں امن قانم کرسکتی ہے؟ ملکی سطحوں پر استحصال کے اس عمل کو روکنے کے لئے بنائے جانے والے اس ادارے کی ناکامی کے باوجود ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جمہوریت دنیا کا بہترین نظام ہے۔ یعنی طاقتورملکوں کا کمزوروں کا بازو مروڑنا یہ عمل ہی جمہوریت کی تعریف ٹھہرا۔ یہ روائتی اور استحصالیوں کی جمہوریت ہے۔ یہ ظالم کی جمہوریت ہے۔ یہ عوام کی اکثریت کی جمہوریت نہیں ہے۔ یہ 99٪ کی جمہوریت نہیں ہے۔ یہ مزدور، محنت کش اور غریب کی جمہوریت نہیں ہے۔ ہمیں اس جمہوریت کی بات کرنی چاہئے جس میں99٪ عوام کی شمولیت کے مواقع موجود ہوں۔

بین الاقوامی معاہدے اور پالیسیاں ملکوں اور قوموں کے استحصال کرنے کے لئے نہ ہوں بلکہ دنیا میں حقیقی امن کے قیام کے لئے ہیں۔ ایسی دنیا قائم ہوجہاں پر نظام انسان اور انسانیت کی بھلائی، اس کی جسمانی، ذہنی، فکری، علمی اور روحانی ترقی کا سبب ہوں جہاں حقیقی معنوں میں سماجی ، سیاسی اور معاشی انصاف قائم ہو۔ اس کے لئے نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ اس نظام پر سوال اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

لیکن نام نہاد جمہوریت نوازاور انسانی حقوق کے یہ ٹھیکیدار یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ موجودہ نظام ناکام ہے۔ یہ نظام وحشت و بربریت کے سوا اور کچھ دے ہی نہیں سکتا۔ اس کا معاشی ڈھانچہ بوسیدہ ہو چکا ہے۔ خواہ آزادیاں انفرادی ہوں یا اجتماعی یہ سرمایہ داری نظام کو بحال رکھتے ہوئے حاصل نہیں ہو سکتیں۔

سرمایہ داری نظام کے یہ رکھوالے اسی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے جن آزادیوں کی یقین دہانی کراتے ہیں، ایسی آزادیاں کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں موجودہ نظام کو چیلنج کرنا ہوگا۔ ہمیں نئی سوچ اپنانا ہوگی۔ اب ہمارے پاس اس کے سواکوئی دوسرا راستہ ہے بھی نہیں۔ سوشلزم سے اللہ واسطے کا بیراپنے دلوں سے نکالنا ہوگا۔ اس معاشی اور سیاسی نظام کوجدید تقاضوں کی روشنی میں ڈھالتے ہوئے ہی ہم انسانیت کو سرمایہ داری کی پھیلائی گئی بربریت سے نجات دلاسکتےہیں۔

Comments are closed.