جرمن حکومت کی ایک خفیہ دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ترک صدر ایردوآن کے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ قریبی رابطے ہیں۔ اسی دستاویز میں جرمنی میں ایردوآن کے حامیوں کی لابی سرگرمیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
ڈوئچے ویلے کے ماتھیاس بوئلِنگر نے اس بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بنیادی طور پر یہ کوئی بہت غیر معمولی دستاویز نہیں ہے۔ اس میں جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت ’دی لِنکے‘ کے ارکان پارلیمان کے ایک گروپ نے وفاقی حکومت سے 19 سوالات پوچھے ہیں۔
یہ سوالات ترک حکومت کی جرمن سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوششوں اور انقرہ حکومت کے مختلف اسلام پسند گروپوں، خاص کر فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور مصر کی اخوان المسلمون کے ساتھ رابطوں کے بارے میں بھی پوچھے گئے ہیں۔
جرمنی میں ارکان پارلیمان کی طرف سے وفاقی پارلیمنٹ میں ملکی حکومت سے ایسے سوالات اکثر پوچھے جاتے ہیں اور ’دی لِنکے‘ نامی جرمن سیاسی جماعت ماضی میں بھی ترک حکومت سے متعلق بہت سے تنقیدی سوالات پوچھتی رہی ہے۔
اس کے باوجود ترکی سے متعلق جرمن حکومت کی اس دستاویز کا ایک نیا اور اہم پہلو بھی ہے۔ جس روز جرمن ارکان پارلیمان نے میرکل حکومت سے پارلیمان میں ان سوالات کے جوابات طلب کیے تھے، اس کے اگلے ہی روز ترکی میں مسلح افواج کے ایک دھڑے کی طرف سے بغاوت کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی تھی اور جس میں قریب تین سو افراد مارے گئے تھے۔
ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ حکومت نے ملک میں سرکاری اداروں کی ’تطہیر‘ کا جو عمل شروع کیا، اس دوران مسلح افواج کے ارکان سمیت ہزارہا سرکاری ملازمین برطرف یا گرفتار کر لیے گئے اور ساتھ ہی برلن اور انقرہ حکومتوں کے مابین باہمی تعلقات میں واضح دراڑیں بھی پیدا ہو
گئیں۔
اس دوران ترکی کی صورت حال ایک کھلا عوامی موضوع بن گئی۔ کولون میں ایردوآن کے حامی ہزارہا ترک نژاد باشندوں نے مظاہرہ بھی کیا اور ترک شہریوں کے لیے یورپی یونین کے ویزا فری سفر کی ممکنہ سہولت سے متعلق انقرہ اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے مکالمت اور اس بارے میں طے شدہ امور پر عوامی بحث بھی شروع ہو گئی۔
پھر یہ سولات بھی اٹھائے گئے کہ آیا جرمنی میں ترک نژاد مسلمانوں کی مسجدوں کے اتحاد کی طرف سے یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ وہ ان مسلم عبادت گاہوں کے ذریعے جرمنی میں ترک نسل کے باشندوں کو انقرہ میں ایردوآن انتظامیہ کے حق میں تحریک دے۔
دوسری طرف ’دی لِنکے‘ کی طرف سے پارلیمان میں پوچھے گئے سوالات کے وفاقی حکومت کی طرف سے دیے گئے جوابات بھی ناامید کر دینے والے ہیں۔ وفاقی جرمن وزارت داخلہ میں ریاستی امور کے سیکرٹری اولے شروئیڈر کے مطابق ایسے معاملات میں وہ جرمن خفیہ اداروں کی طرف سے مہیا کردہ معلومات کے باعث کئی کئی سوالوں کے ایک ہی متن کے ساتھ جوابات دے دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ کہ ’جن وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے، ان کی بنیاد پر وفاقی حکومت کے پاس اس سے زیادہ کوئی معلومات نہیں ہیں، جو کہ ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں میں مہیا کی ہیں‘۔
جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے برلن اسٹوڈیو کے مطابق اس جواب میں مرکزی دستاویز کے ساتھ ہی ایک دوسری دستاویز بھی نتھی کی گئی ہے، جس کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’یہ معلومات شائع نہیں کی جا سکتیں اور صرف سرکاری استعمال کے لیے ہیں‘۔
اے آر ڈی کے برلن اسٹوڈیو نے اس دستاویز کے خفیہ حصے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس میں ’ترک صدر ایردوآن کی جماعت اے کے پی اور اخوان المسلمون کے مابین نظریاتی قربت‘ کی بات کی گئی ہے۔
اس دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایردوآن کے دور اقتدار میں ترکی فلسطینی تنظیم حماس اور مصر کی اخوان المسلمون کے ساتھ اپنے رابطوں میں واضح اضافہ کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ ’ترکی مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ کے اسلام پسند گروپوں کی کارروائیوں کے لیے ان کا مرکزی پلیٹ فارم‘ بن چکا ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ اخوان المسلمون کے کئی سیٹلائٹ نشریاتی ادارے اپنی نشریات ترک ریاستی علاقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان پارلیمانی جوابات پر جرمن سیاسی جماعت ’دی لِنکے‘ کا موقف یہ ہے کہ اس دستاویز نے اس کی سوچ کی تصدیق کر دی ہے۔ مزید یہ کہ جرمن خفیہ اداروں کی نظر میں ترک حکومت کا حماس کے قریب ہونا بھی غیر اہم نہیں ہے کیونکہ جرمنی نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
اس کے علاوہ اسی سرکاری جرمن دستاویز میں یورپی ترک جمہوریت پسندوں کی یونین (یو ای ٹی ڈی) نامی تنظیم کے کردار کو بھی، جس نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد جرمن شہر کولون میں صدر ایردوآن کے حق میں ایک بہت بڑی ریلی کا اہتمام کیا تھا، کافی تنقیدی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔
یو ای ٹی ڈی نامی تنظیم کے بارے میں اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ترک حکومت کے لیے بیرون ملک آباد ترک باشندے انقرہ کی خارجہ سیاست میں ایک اہم آلے کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس زاویہ نگاہ سے صدر ایردوآن کی جماعت کے لیے لابی کا کام بھی کرتی ہے۔
یاد رہےکہ 2004 میں طیب اردوان نے وزیراعظم بننے کے بعد ترکی کے سیکولر تشخص کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا۔ اردوان حکومت نے حماس اور اخوان کے ساتھ ساتھ داعش کی بھی بھرپور امداد کی ہے اور اسے اسے خطے میں مضبوط کرنے میں اہم کردار کیا ہے۔
DW