نیشنل ایکشن پلان یا نیشنل ان ایکشن پلان؟  

aimal-250x300

ایمل خٹک

سانحہ کوئٹہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان  ( نیپ) یا قومی منصوبہ عمل ایک دفعہ پھر موضوع بحث بن رہا ہے ۔ اس دفعہ مبصرین یا تجزیہ نگار نہیں بلکہ خود اعلی حکومتی اور فوجی حلقے اس پر اپنی تحفظات کا اظہار کر ر ہے ہیں ۔ اس دفعہ فرق یہ پڑا ہے کہ نیپ پر عملدرآمد کے حوالے سے اعلی فوجی اور سویلین قیادت دونوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ دنوں جی ایچ کیو میں ایک اعلی سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی منصوبہ عمل پر پیش رفت نہ ہونے  سے آپریشن ضرب عضب متاثر ہو رہا ہے۔ فریقین کی طرف سے بامعنی اقدامات اور مناسب اقدامات نہ ہونے سے امن قائم نہیں ہو گا ۔ تمام ادارے باہمی تعاون سے شدت پسندی کا خاتمہ یقینی بنائیں ۔ 

   بدقسمتی سے فوجی اور سویلین قیادت قومی منصوبہ عمل کے سلسلے میں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ وسائل کی فراہمی ، عملدرآمد کے طریقہ کار ، قومی منصوبہ عمل کی ملکیت اور پنجاب میں آپریشن کے مسئلے پر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد پے درپے اعلی سطحی اجلاسں ہوئے ہیں جس میں فوجی اور سویلین قیادت الگ الگ بھی اور مل کر بھی سر جوڑ کے بیٹھی رہی۔  ان اجلاسوں میں نہ صرف نیپ پر عملدرآمد کی رفتار کا جائزہ لیا گیا بلکہ عملدرآمد کی رفتار تیز کرنے اور اس پر کام کو زیادہ مربوط اور موثر بنانے پر غور و حوض بھی کیا گیا۔ حکومت نے آپریشن ضرب عضب اور قومی منصوبہ عمل پر عملدرآمد تیز کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں کئی اہم فیصلے بھی کیے گئے۔   

 قومی منصوبے کے حوالے سے کہا گیا کہ اس کے بیس نکات میں سے آٹھ پر عملدرامد نہ ہوسکا۔ جبکہ چند ماہ قبل وزارت داخلہ کی قومی منصوبہ عمل کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق قومی منصوبہ عمل کی بیس میں سے نو نکات پر عملدرآمد کی رفتار سست رہی جبکہ دس نکات مثلاً دہشت گردوں کے خلاف ایکشن، پھانسی کی سزا اور نفرت انگیز مواد پر کنٹرول وغیرہ پر کارگرگی کی رفتارکو تسلی بخش قرار دیا گیا تھا۔

لیکن سرکاری دعووں کے برعکس آزاد تجزیہ نگار چار پانچ  کے علاوہ نیپ کے دیگر نکات پر عملدرآمد کو غیر تسلی بخش قرار دے رہے ہیں ۔ جن نکات پر تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے اور یا کام شروع ہو چکا ہے۔ اس میں ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے ۔  دہشت گردی کے مقدمات سننے کیلئے خصوصی فوجی عدالتیں قائم اور دہشت گردوں کو پھانسی پر چڑھانے کا سلسلہ شروع ہے۔ صوبوں میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی محکمے اور فورسز بن چکی ہے۔ کراچی میں آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش بھی جاری ہے۔ 

قومی منصوبہ عمل پر بھرپور قومی اتفاق رائے اور وسیع عوامی حمایت کے باوجود اس کے تمام نکات پر عملدآمد نہ ہوسکا۔ فاٹا میں اصلاحات کا مسئلہ ابھی تک اٹکا ہوا ہے ۔ امید کی جارہی تھی کہ چودہ اگست کو حکومت فاٹا کے حوالے سےاصلاحات کا اعلان کرے گی مگر کچھ نہیں ہوا۔ جہاں تک مدرسوں کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کا تعلق ہے اس پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرب عضب کے دوران نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی اپنے اپنے علاقوں میں تاحال واپسی مکمل نہیں ہوسکی۔

شورش زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی کا کام نہ ہونے کے برابر ہے اور نصف کے قریب آئ ڈی پیز تاحال اپنے اپنے گھروں کو واپس نہیں گئے اور جو گئے ہیں وہ گو نا گوں مشکلات کا شکار ہیں ۔ ایک تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف جنوبی وزیرستان کے محسود رہائشی علاقوں میں گیارہ ہزار مکانات تباہ ہوئے ہیں ۔  شمالی وزیرستان میں تباہ شدہ مکانات کی تعداد اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوگی۔ پنجاب میں فرقہ ورانہ تنظیموں کے خلاف محدود کاروائی شروع  ہے۔ مگر اس کریک ڈاؤن کی کامیابی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

اب پھر کومبنگ آپریشن کو تیز کرنے کی باتیں ہو رہی ہے۔  نفرت انگیز مواد کے خلاف مہم میں کچھ ابتدائی پیش رفت کے بعد کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ کالعدم دہشت گرد تنظیمیں اور دہشت گرد دوسرے نام سے تنظیم بنا کر کام کام کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو فنڈز کی ترسیل مکمل طور پر نہیں روکی جا سکی ہے۔ گزشتہ رمضان میں کئی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی چندہ اکٹھا کرنے کی اطلاعات تھی۔ کچھ عسکریت پسندوں کی تربیتی مراکز بھی قا ئم ہیں۔   

قومی منصوبہ عمل کے آنے سے پہلے دہشت گردی کے حوالے سے قومی سطح پر ہونے والی بحث و مباحثے کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کا فقدان تھا اور منصوبہ عمل کا قیام یقیناً ایک اہم پیشرفت اور کامیابی تھی۔  قومی منصوبہ عمل اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے شروع دن سے قومی سطح پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے اور اس پر کافی لکھا جاچکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ مسئلے کی شدت اور اہمیت کی وجہ سے اس پر مزید بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے گرد بحث کا مقصد عملدرآمد میں خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی اور بروقت اصلاح ہے تا کہ دہشت گردی کی وباء کا مکمل خاتمہ اور بیخ کنی ہو ، ملک میں امن و استحکام قائم ہو تاکہ عوام بلا وخوف وخطر اپنے معمولات زندگی اور قومی ترقی میں حصہ لے سکیں ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ نیپ  اے پی ایس پشاور کے دہشت گرد واقعے کے ردعمل میں بنا تھا ۔ اور بد قسمتی سے اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی پروایکٹیو سے زیادہ ابھی تک ری ایکٹیو ہے۔ ھر بڑے دہشت گرد حملے کے بعد حکمرانوں کو قومی منصوبہ عمل یاد آتا ہے ورنہ نسبتا پرامن ماحول میں اس کو بھول جانے کی عادت ہے۔ بڑے حادثے کے بعدکچھ گہماگہمی رہتی ہے مگر تھوڑے دن گزرنے کے بعد حالات پھر پرانی ڈگر پر آجاتے ہیں۔ اور نیپ کے حوالے سے پھر وہی خواب خرگوش کے مزے ۔ 

نیپ پر عملدرآمد میں کمزوری اور سستی کے کئی سیاسی ، سماجی اور معاشی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مگر بعض سیاسی مصلحتیں اور حکومت وقت کی قوت ارادی میں کمی ان میں سے اہم وجوہات ہیں۔ بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی نیپ پر عملدرآمد کی نگرانی اور مانیٹرنگ کا پراسس بھی کمزور اور غیر موثر رہا۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر اپیکس کمیٹیوں کے قیام کے علاوہ کئی ذیلی کمیٹیاں بھی قائم کی گئ تھیں ۔  صرف سندھ کی حد تک اپیکس کمیٹی کسی حد تک فعال نظر آئی باقی وفاقی اور صوبائی کمیٹیوں کے ابتدائی اکا دکا اجلاسوں کے بعد کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی اور ان کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی ہے۔

 نیپ کے حوالے سے خراب کارکردگی اور مسلسل تنقید کی بعد وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی جگہ نیپ کی نگرانی کی ذمہ داری اب وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ کو دی گی ہے۔  نیپ کے تحت کل ملا کر پندرہ کے قریب کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں ۔ جس میں سے گیارہ کمیٹیوں کی سربراہی وزیر داخلہ کے پاس تھی ۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خاطرخواہ کامیابی سے قطع نظر اس کے خاتمے کیلئے ریاستی اقدامات جامع اور مربوط نہیں۔ فوجی آپریشن، کریک ڈاؤن وغیرہ سے دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے مگر اس کے مکمل خاتمے کیلئے اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جسمانی بیماریوں کی طرح معاشرتی بیماریوں کا علاج صرف علامات یا اس کے اثرات کے علاج سے ممکن نہیں بلکہ اس کی وجوہات کا علاج بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ بیماری کا کچھ عرصہ بعد دوبارہ لگنے کا خطرہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ریاستی اقدامات بہت محدود ہیں۔

ایک  تو ریاستی اقدامات کا فوکس دہشت گردی ہے جبکہ انتہا پسندی جو دہشت گردی کو جنم اورفروغ دیتی ہے کی روک تھام اور حوصلہ شکنی کے لیے جامع منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ 

ابتدا میں کچھ نکات مثلا نفرت انگیز مواد کی روک تھام کیلئے پکڑ دھکڑ ہوئی اور اس کے نتیجے میں کچھ بہتری بھی آنی شروع ہوگئی تھی مگر اس عمل کو سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے جاری نہ رکھا گیا۔  

دوسرا زیادہ زور قوت کے استعمال یعنی فوجی آپریشنز ، کریک ڈاؤن اور دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ پر ہے۔ اور سیاسی ، تعلیمی، ثقافتی اور معاشی سطح پر مربوط اور ٹھوس اقدامات کی کمی ہے ۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو جنم اور فروغ دینے والے بیانیوں کی توڑ کیلئے متبادل میانہ رو اور امن پسند مذہبی، سیاسی ،سماجی اور ثقافتی بیانیوں کو بنانے اور رواج دینے کی ضرورت ہے۔

 تیسرا مدرسوں کی رجسٹریشن اور ریگولیشن ، کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی ، عسکریت پسندوں کی فنڈنگ اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام کا مسئلہ حکومت کی علماء یا دیگر انتہاپسند قوتوں کی دلجوئی اور مصلحت آمیز روئیے کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہے۔ مدرسہ رجسٹریشن اور ریگولیشنز پر مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے کام کی ضرورت ہے۔

 چوتھا اچھے اور برے طالبان کی تمیز کی ریاستی پالیسی کی موجودگی میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے مکمل انسداد اور خاتمہ ممکن نہیں۔ چاہے وہ ملک کے اندر کاروائیاں کر رہے ہو یا باہر مگر اچھے اور برے طالبان دونوں کی سوچ اور طریقہ کار آخری نتیجے میں تخریبی اور دہشت پر مبنی ہے۔  جو جانی او انسانی نقصانات کا باعث بنتے ہیں اور معاشرے میں خوف وہراس پھیلتا ہے۔ خیبر پختونخوا اور فاٹا کے کئی علاقوں میں بعض عسکریت پسند تنظیموں جن کا شمار اچہے طالبان میں ہوتا ہے کی نہ صرف سرگرمیاں جاری ہیں بلکہ مساجد وغیرہ میں چندہ کے ساتھ ساتھ دعوت جہاد دینے میں بھی مصروف ہیں۔  اچھے اور برے طالبان کی تمیز کی پالیسی بھی دہشت گردی کی مکمل بیخ کنی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کل کے اچھے طالبان آج کے برے طالبان ہیں۔ ایسی مثالوں کی کمی نہیں جہاں اچھے طالبان کی صفوں سے دہشت گرد پکڑے گئے ہوں اور ویسے بھی اچھے طالبان کو برے میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ دونوں میں کئی نظریاتی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ 

پانچواں  زیادہ کمیٹیوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کمیٹیوں کی تعداد بیشک کم مگر موثر ہونی چائیے۔ قومی منصوبہ عمل پر عملدرآمد میں مستقل مزاجی اور یکسوئی کیلئے اس کی کڑی نگرانی اور مانٹیرنگ کی ضرورت ہے۔ جس کیلئے ایک وسیع البنیاد قومی مانیٹرنگ کمیٹی کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی شراکت دار شامل ہوں۔

چھٹا اگر ماہانہ ممکن نہ ہو تو حکومت کو پارلیمان میں قومی منصوبہ عمل کی سہ ماہی کار کردگی رپورٹ عمومی بحث کیلئے پیش کرنی چا ہیے۔  

Comments are closed.