عامر علی خان
ترکی میں 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد عالم گیر سطح پر صدر ترکی رجب طیب اردغان کو تائید حاصل ہوئی۔ مغربی ممالک اور امریکہ نے بغاوت کو ناکام بنانے کے لئے صدر ترکی رجب طیب اردغان کے اقدامات کی تائید میں بیانات جاری کئے۔ صدر ترکی رجب طیب اردغان نے بغاوت کے بعد اس میں ملوث ہونے کے لئے امریکہ پر الزام عائد کیا۔ امیر جماعت اسلامی ہند مولانا جلال الدین عمری نے اپنے بیان میں کہاکہ بعض طاقتیں ایک طاقتور ترکی نہیں چاہتیں۔ مشرق وسطیٰ میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے سے دلچسپی رکھتی ہیں۔ یہ طاقتیں اسلحہ اور گولہ بارود کے سب سے بڑے تاجر ہیں اور اس علاقہ میں امن نہیں چاہتیں۔
ترکی کے ساتھ روس کے تعلقات میں روسی طیارہ واقعہ کے بعد کشیدگی پیدا ہوگئی تھی لیکن صدر اردغان نے امریکہ اور یوروپ کی سخت مخالفت کے باوجود روس کا دورہ کرکے صدر پوٹین سے ملاقات کی اور تعلقات بہتر بنانے میں کامیاب رہے۔ ناٹو نے جو مغربی ممالک کا فوجی اتحاد ہے، اپنے بیان میں کہاکہ ناکام بغاوت اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف ترکی کی کارروائیوں کی وجہ سے ترکی کی ناٹو کی رکنیت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 20 جولائی سے صدر رجب طیب اردغان نے تین ماہ کے لئے ایمرجنسی نافذ کرنے کی ترکی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرلی اور تین ماہ کے لئے ترکی میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ اس تناظر میں بغاوت کی ناکامی کے فوری بعد صدر اردغان کی تیز رفتار کارروائی، فوجیوں، فوج کے عہدیداروں، وکلاء اور ججوں کی کثیر تعداد میں گرفتاریوں سے ان کے عزائم کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے ۔
یہ شکوک و شبہات بے بنیاد بھی نہیں معلوم ہوتے۔ اقتدار ایک ایسا نشہ ہے کہ برسر اقتدار آنے والا شخص تمام اختیارات کو اپنے ہی ہاتھ میں مرکوز کرنا چاہتا ہے۔ وہ غیر معلنہ ڈکٹیٹر بھی بنتا ہے تو جمہوری اقدار کے تحفظ کے بہانے اور عوامی فلاح و بہبود کے نام پر۔ ترکی میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ صدر ترکی رجب طیب اردوغان نے 15 جولائی کی بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد 20 جولائی کو قصرِ صدارت میں ترکی کابینہ اور ترکی پارلیمنٹ کے دو علیحدہ علیحدہ اجلاس طلب کئے۔ ان کی زیر صدارت منعقدہ ان اجلاسوں میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کے ذریعہ ملک میں 22 جولائی سے 3 ماہ کے لئے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔ ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ ہنگامی حالات کے نفاذ کی مدت میں عوام کے تمام بنیادی اور دستوری حقوق معطل کردیئے جاتے ہیں۔ حکومت اپنی کارروائیوں کے لئے کسی کو جوابدہ نہیں ہوتی۔
ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی اندھا دھند گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ فوج کے ہزاروں سپاہیوں، ججوں اور وکلائے استغاثہ کو نذرِِ زنداں کردیا گیا۔ وجہ صرف یہ بتائی گئی کہ یہ تمام دہشت گرد عناصر ہیں جو حکومت کے عاملہ اور عدلیہ کے شعبوں میں در آئے ہیں اور بغاوت کی سازش میں یہی افراد ملوث تھے۔ ان کا اندھا دھند گرفتاریوں اور ملازمتوں سے برطرفیوں کا سلسلہ ابھی ختم بھی نہیں ہونے پایا کہ فتح اللہ گولین کے فلسفہ سے متاثر صحافیوں اور صحافت کے خلاف بھی کارروائی شروع کردی گئی۔ ان تمام افراد کو جنہوں نے حکومت کی ان جابرانہ کارروائیوں سے اختلاف کیا ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔اختلاف رائے اور اس کے اظہار کی آزادی جمہوریت کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ انقلاب کی ناکامی کے بعد منتخب حکومت کی اقتدار سے بے دخلی کا خطرہ تو ختم ہوچکا ہے ۔ چنانچہ ترکی حکومت کی ان کارروائیوں کو جابرانہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
صحافت ، جمہوریت کا ایک اہم ستون ہوتا ہے اس کے خلاف کارروائی واضح طور پر آزادی تحریر و تقریر کچلنے کی کوشش ہے۔ اسی طرح صرف انقلاب کے پسِ پردہ ہونے کا الزام عائد کرکے فوجیوں، فوجی عہدیداروں ، عدلیہ کی قابل احترام شخصیتوں جیسے ججوں اور وکلائے استغاثہ کی ان کے عہدوں سے برطرفی اور گرفتاری۔ حکومت کی رائے سے اختلاف کرنے والے اخبارات اور صحافیوں کے خلاف کارروائی، اخبارات اور خبر رساں چینلوں کا بند کردیا جانا کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر جمہوریت میں کسی برائی کے خلاف آواز اْٹھانے کا جواز ہے تو اس کو برائی سمجھنے والوں سے اختلاف رائے کرنے کا حق بھی اپنا جواز رکھتا ہے، اس لئے اس کو کچلنے کی کوشش کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔
جمہوریت اگر ان فلاح و بہبود کے کاموں کو نظر انداز کردے جو فتح اللہ گولین کی تنظیم اور ان کے پیروؤں نے کئے ہیں تو اس کو جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔ بے شک ہنگامی حالات کے نفاذ کی منظوری ترکی پارلیمنٹ میں ووٹوں کی غالب اکثریت سے حاصل ہوئی ہے۔ ہنگامی حالات کے نفاذ کی قرارداد ترکی پارلیمنٹ کے اجلاس میں جب پیش کی گئی تو اس کی تائید میں 346 اور مخالفت میں 145 ووٹ حاصل ہوئے چنانچہ ترکی میں 22جولائی سے تین ماہ کے لئے ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ عوام کے حقوق اور اختیارات معطل کردیئے گئے اور صدر ترکی رجب طیب اردغان نے جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا خون کردیا۔ حکومت اب اپنی کسی بھی کارروائی کیلئے عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت سے جو بھی اختلاف رائے کرتا ہے اس کی آواز دبادی جاتی ہے۔
ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ایک مضمون ’’ شہادتِ عظمیٰ ‘‘ میں ایک تاریخی جملہ تحریر کیا تھا: ’’ خونِ شہادت کے ہر قطرے میں حیات الٰہیہ کی روح ہوتی ہے۔ یہ سطح زمین پر گر کر اس میں جذب نہیں ہوجاتا بلکہ ایک سیلاب ہائے آتشیں پیدا کرتا ہے جس کے شعلوں میں جبر اور ظلم کی عالیشان عمارت جل کر خاکستر ہوجاتی ہے۔‘‘ مولانا آزاد کے یہ جملے بے شک ایک مختلف تناظر میں تحریر کئے گئے ہیں لیکن بحیثیت عمومی یہ ہر اِس صورتحال میں صادق آتے ہیں جبکہ اختلاف رائے کے اظہار کو جبر کے آہنی پنجہ سے کچل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
صدر ترکی رجب طیب اردغان کے عزائم کے بارے میں مغرب کے شکوک و شبہات ممکن ہے کہ حقیقت سے بعید صرف شکوک و شبہات ہوں۔ جیسا کہ صدر ترکی نے امریکہ اور مغربی ممالک کو ان کے تائیدی بیانات کے باوجود اس بغاوت کے پسِ پردہ ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں کے تبصروں اور تجزیوں میں صدر ترکی کے عزائم کے بارے میں جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے ، مغربی ممالک کی حکومتیں اس ادعا کے ذریعہ کہ ان کے پاس جمہوری اقدار کا احترام ہے چنانچہ ظاہر کردہ شکوک و شبہات ان کا اظہار کرنے والوں کے شخصی تاثرات ہیں اور آزادی تقریر کا ثبوت ہیں جو جمہوریت کا خاصہ ہے۔ چنانچہ ان کو حکومت سے منسوب کرنا غلط ہے، کہتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ سکتی ہیں۔
بہر حال صدر ترکی کی ان کارروائیوں پر شکوک و شبہات اس لئے بھی طاقتور ہوگئے ہیں کہ یہ بڑی تیز رفتار سے کئے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ترکی فوج، عدلیہ اور صحافت میں غیر سماجی عناصر کی دراندازی سے پہلے ہی سے واقف تھی بلکہ ان عناصر کو اچھی طرح شناخت کرتی تھی۔ اگر ایسا ہے تو اس نے اس بغاوت کے انسداد کی قبل از وقت کوشش کیوں نہیں کی؟
بہرحال حقیقت جو بھی ہو جلد ہی منظر عام پر آجائے گی ۔ تین ماہ کا عرصہ زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایمرجنسی کی مدت میں توسیع کی جاتی ہے یا اسے برخواست کیا جاتا ہے۔ اور کیا گرفتار شدہ افراد پرآزادانہ اور منصفانہ مقدمے چلائے جاتے ہیں؟۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا