کشمیر میں جو کچھ رہا ہے اسے کوئی ذی شعور اور با ضمیر شخص درست نہیں کہہ سکتا۔کوئی ملک جس میں پختہ جمہوریت ہو۔قانون کی حکمرانی ہو۔پارلیمان کی بلادستی ہو۔وہ ملک اپنے ہی عوام کے خلاف ایسا وحشیانہ سلوک نہیں کر سکتا۔عوام کو اس طرح تشدد کا نشانہ نہیں بنا سکتا۔انسانی حقوق کی دھجیاں نہیں بکھیر سکتا۔اور نہ ہی ایسے افعال کا کوئی جواز فراہم کر سکتا ہے۔چنانچہ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
بھارت کے اس عمل سے یہ حقیقت مزید واضح ہوتی ہے کہ بھارتی جمہوریت کے عظیم حاصلات کشمیر تک اب بھی نہیں پہنچ سکے۔پنڈت نہرو کی عظیم آدرشیں اور گاندھی جی کا عدم تشدد کا فلسفہ کشمیر کے پہاڑ نہیں عبور کر سکا۔چنانچہ وہاں جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ انگریزوں کے زمانے سے بھی برا اور ڈوگروں کے زمانے سے بھی بدتر ہے۔اس کی واضح اور واشگاف الفاط میں مذمت ہونی چاہیے۔لیکن صرف مذمت کا فی نہیں۔تشدد اور اسکی مذمت کا یہ سلسہ تو گزشتہ ستر سال سے جاری ہے۔یہ ایک سائیکل بن گیا ہے۔ہم لوگ ایک داہرے میں گھوم رہے ہیں۔
ا ب ہماری تیسری نسل اس د ائرے میں داخل ہو چکی ہے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہماری انے والی کئی نسلوں کا مقدر بھی یہی دائرہ ہے۔اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس دائرے سے کیسے نکلا جائے ؟ یہ سوال کشمیریوں کو ایک دوسرے سے پوچھنا چاہیے۔ اور اس سوال کا جواب بھی صرف کشمیری ہی دے سکتے ہیں۔گویا مسئلہ کشمیر کے حل کی اگر کنجی کسی کے پاس ہے تو وہ خود کشمیری ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں۔بھارت، پاکستان اور کشمیری۔بھارت کا موقف یہ ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔اور کشمیر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔لیکن اگر پاکستان اسکو مسئلہ بنانا ہی چاہتا ہے تو پھر پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان خالی کر دے جس پر اس نے نا جائز قبضہ کر رکھا ہے۔پاکستان کا موقف یہ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔بھارت نے کشمیر پر نا جائز قبضہ کر رکھا ہے۔اور مسئلہ کشمیر کا حل یہ ہے بھارت کشمیر میں رائے شماری کرائے تاکہ اس کے ذریعے کشمیری اپنے حق خود ارادیت کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کا حصہ بن جائیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں کا موقف بالکل واضح ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔یہ بات غیر متعلق ہے کہ پاکستان اور بھارت کا یہ موقف درست ہے یا غلط۔بنیادی اور متعلق بات یہ ہے کہ کیا کشمیریوں کی مرضی کے بغیر پاکستان اور بھارت اپنے اپنے موقف پر قائم رہ سکتے ہیں ؟ اور اگر کشمیریوں کی مرضی کے بغیر وہ اپنے اس موقف پر اصرار کرتے ہیں تو اسکی کی کیا افادیت ہے ؟ دوسرے الفاظ میں اگر کشمیر میں بھارت اور پاکستان نواز سیاسی جماعتیں اور گروہ نہ ہوں تو کیا پاکستان اور بھارت کشمیر پر اپنا موقف برقرار رکھ سکتے ہیں۔
گویا یہ کشمیری عوام ہیں جو بھارت اور پاکستان کو اپنا موقف بدلنے پر یا مسئلے کا حل نکالنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔لیکن پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل تجویز کرنے سے پہلے خودکشمیری عوام کی اکثریت کو کسی حل پر اتفاق کرنا ہو گا۔ مسئلہ کشمیر شروع بھی یہاں ہی سے ہوتا ہے اور ختم بھی یہاں ہی ہوتا ہے۔اگر 1947 میں شیخ محمد عبداللہ، مہاراجہ ہری سنگھ اور چوہدری غلام عباس ااور سردار ابراہیم کشمیر کے مستقبل پر اتفاق کر لیتے تو مسئلہ کشمیر پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
آج بد قسمتی سے کشمیر میں اس قد کاٹھ کی لیڈر شپ نہیں ہے اس لیے بات چند افراد کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر کشمیر کی سب سیاسی جماعتیں نہیں تو کم از کم ان کی اکثریت ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کے سوال پر کسی ایک حل پر متفق ہو جائیں تو پاکستان اور بھارت کے پاس اس حل سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔اس کی عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کشمیر کی تمام بھارت نواز، پاکستان نواز اور قوم پرست جماعتیں اپنی مجلس عاملہ یا جنرل کونسل کے اندر مفصل بحث و مباحثے کے بعدپنے دو دو کلی طور پر با اختیارنمائندے نامزد کریں۔
یہ نمائندے ریاست کے مستقبل کے سوال پر ایک کھلی بحث کے بعد ایک مشترکہ حل پر اتفاق کریں۔اس حل کو کشمیری عوام کی طرف سے مشترکہ طور پر بھارت اور پاکستان کے سامنے پیش کیا جائے۔یہ حل پاکستان ، بھارت، کشمیر اور پورے خطے کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تجویز کیا جائے۔کشمیری عوام کے اندر اپنے مستقبل کے حوالے سے وسیع پیمانے پر اتفاق رائے کے بغیر اس مسئلے کا کوئی قابل عمل حل نہیں ہے۔
اس اتفاق رائے کی عدم موجودگی کشمیریوں کے مصائب و مشکلات میں دن بدن اضافے کا باعث ہے۔اس صورت حال سے مذہبی بنیاد پرست اور شدت پسند قوتیں فائدہ اٹھا کر نوجوانوں کو اشتعال دلا کر موت کے منہ میں دھکیل رہی ہیں۔یہ شدت پسندی ریاستی اداروں کو تشدد کا جواز فراہم کرتیں ہیں۔اس سے کشمیریوں کی آزادی کی منزل قریب ہونے کے بجائے دور ہوتی جا رہی ہے۔
چنانچہ تشدد کی غیر مشروط مذمت کی جانی چاہیے ۔خواہ یہ ریاستی اداروں کی طرف سے ہو یا اسلامی بنیاد پرست اور نام نہاد مجاہدین کی طرف سے ہو۔اس کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر مزید وقت ضائع کیے بغیرخود کشمیریوں کے اندر اتفاق رائے کے پراسس کا اغاز کیا جا چاہیے۔
♦