ایمل خٹک
پاک بھارت تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں ممالک کی حکومتیں ابھی تک قرون وسطی میں رہ رہی ہیں۔ وہی قبائلی رو یے ، انتقام جوئی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا وغیرہ وغیرہ۔ دونوں ممالک کی حکومتیں بعض انتہا پسند ریاستی اور غیر ریاستی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بنے نظر آرہی ہے۔ اور تعداد میں کم مگر اہم طاقتور مفادی حلقے موجود ہیں جو دونوں ممالک کے بیچ کشیدگی اور مخاصمت میں اپنا فائدہ ڈھونڈتے ہیں۔ جبکہ دونوں ممالک کی غالب اکثریت یعنی عوام بڑھتی ہوئی غربت ، معاشی بدحالی ، بیروزگاری ، مہنگائی ، انتہاپسندی اور بدامنی کی شکل میں اس جنگی جنون اور اس کے نتیجے میں جاری اسلحہ دوڑ کی شکل میں بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتحال اور بھارتی لب و لہجے میں حالیہ جارحانہ پن پاک بھارت تعلقات میں تناؤ اور کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ کی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی مذاکرات کی پیشکش کی کڑی شرائط کے ساتھ مشروط قبولیت اور وزیراعظم نریندرا مودی کی بلوچستان کے حوالے سے حالیہ بیان بھارتی موقف میں سختی اور جارحانہ پن کی عکاسی کرتی ہے۔
ایک دوسرے کی اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزامات اور جوابی الزامات کا ایک نا ختم ہونے والہ سلسلہ شروع ہے اور دونوں ممالک کی خارجہ وزارتوں نے لیٹر ڈپلومیسی یعنی گرما گرم خطوط کے تبادلے سے ایک دوسرے کی دکھتی رگوں کو چھیڑنا شروع کیا ہے۔ اس چھیڑ خانی کا سلسلہ کہاں جا کر ختم ہوگا اس سلسلے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ مگر علاقے کی تیزی سے بدلتی ہوئی سٹرٹیجک صورتحال کے پیش نظر ایک بات طے ہے کہ حالات خطرناک نہج پر جا رہے ہیں ۔
پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کی بلوچستان کے حوالے سے بیان کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا کھلا اعتراف قرار دیا ہے اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اٹھانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے مذکورہ حالیہ بیان پر پاکستان کے علاوہ خود بھارت میں بھی سخت تنقید ہو رہی ہے۔
سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے حال ہی میں اپنے بھارتی ہم منصب کو ایک خط کے ذریعے کشمیر کے مسئلے پر باضابطہ مذاکرات کی پیش کش کی ہے اور بھارتی سیکریٹری خارجہ جے شنکر کو اس سلسلے میں پاکستان دورہ کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔ اگرچہ بظاہر تو بھارت نے پاکستانی پیشکش کو قبول کیا ہے ۔ مگر مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں انڈیا نے پانچ نکات پر مشتمل پیشگی شرائط کا اعلان کرکے عملاً اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے مذاکرات کو مسئلہ کشمیرکے اھم مسئلے دہشت گردی پر مرکوز کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مذاکرات میں پاکستان کی آزاد جموں کشمیر پر غیر قانونی تسلط اور اسے خالی کرنے کے مسئلے کو بھی اٹھانے کا عندیا دیا ہے۔
پانچ نکاتی شرائط میں کشمیر میں سرحد پار سے دھشت گردی ختم کرنے، پاکستان میں قا ئم دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بند کرنے، ممبئ اور پٹھان کوٹ حملوں کی تحقیقات میں پیش رفت سے آگاہ کرنے اور بھارت سے مفرور دھشت گردوں کی حمایت اور انہیں پناہ دینا بند کرنے کی شرائط شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ بھارت کو مطلوب پاکستانی دھشت گردوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف کاروائی کی شرط بھی شامل ہے۔
پاکستان نے بھارتی خط کے جواب میں سیکریٹری خارجہ کو اقوام متحدہ کے قراردادوں کی روشنی اور کشمیری عوام کے امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر بات چیت کیلئے ماہ رواں کے آخر میں دورے کی دعوت دی ہے۔ اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنے اور زخمیوں کی طبی امداد کیلئے طبی ٹیم کو وہاں جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مودی سرکار کی اس جارحانہ پالیسی کے نتیجے میں علاقے میں عمومی اور دونوں ممالک کے بیچ خصوصی طور پر تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ ہوگا جو کہ انتہائی افسوسناک اور غیر ضروری عمل ہے ۔ بدقسمتی سے ایسے جارحانہ اور اشتعال انگیز بیانات اور پالیسی خطے میں جنگی جنون کو ہوا دے رہی ہے۔ ایک دوسرے کو سٹرٹیجک شطرنج میں مات دینے کیلئے فریقین کے تیور خطرناک نظر آرہے ہیں ۔ علاقے میں پراکسی وارز میں تیزی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
بدقسمتی سے لگتا یہ ہے کہ اندرونی سیاسی مسائل اور مصلحتوں کی وجہ سے دونوں ممالک کی حکومتوں کو محاذ آرائی کی فضا فائدےمند ثابت ہو ر ہی ہے۔ اگر تناؤ اور کشیدگی کی فضا اس طرح برقرار رہی تو امسال ماہ نومبر میں پاکستان میں ہونے والی انیسویں سارک سربراہی اجلاس کا انعقاد بھی خطر ے میں پڑ سکتا ہے۔
اس دوران امریکہ کی جانب سے دھشت گردی کے خاتمے کیلئے ڈو مور کی رٹ جو پہلے افغانستان فوکس تھی اب ریجن فوکس ہوگئی ہے۔ امریکہ کی سوچ میں یہ بنیادی تبدیلی واشنگٹن میں نئی پالیسی سوچ کی غمازی کر رہی ہے جس میں پاکستان کی بجائے اب بھارت کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور بعض امور میں پہلے سرکاری مجالس اور بند کمروں تک محدود اور دبے دبےالفاظ میں امریکی دباؤ اب زیادہ صراحت اور واضح شکل میں سامنے آرہا ہے۔ امریکی حکام اب اس کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں۔
بعض علاقائی ایشوز پر امریکہ اور بھارت کی خیالات اور مفادات کی بڑھتی ہوئی ہم آہنگی خطے میں نئی صف بندیوں کی غمازی کر رہی ہے۔ پاکستان کو امریکی امداد کے حصول میں مشکلات اور کڑی شرائط کا سامنا ہے ۔ امریکی حکام اسلام آباد پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام علاقے میں دھشت گردی کی روک تھام کیلئے کوششیں کریں ۔
پاکستان کی سفارتی تنہائی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی جس کی وجہ سے سفارتی چیلنجز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام عالم کی سیاسی یا سفارتی تاریخ میں اتار چڑھاؤ کوئی انہونی بات نہیں ۔ اور اقوام فراست ، تدبر اور برد باری سے اس کا مقابلہ کرتی ہیں اور اس سے نمٹنے کیلئے مناسب ذرائع اور طریقہ کار ڈھونڈتے ہیں ۔ مگر چیلنجزز کا صحیح ادراک اور اس سے نمٹنے کی منصوبہ بندی بھی بڑی اھم ہوتی ہے۔ پاکستانی پالیسی ساز ابھی تک مختلف خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کا شکار نظر آرہے ہیں ۔
سفارتی چیلنجوں کی حساسیت ، پیچیدگی اور اہمیت کے پیش نظر جس ھنگامی طور پر صورتحال کا نوٹس لینے اور منصوبہ بندی کی ضرورت تھی اس سلسلے میں ملک کے اندر کوئی خاص اور سنجیدہ سرگرمی نظر نہیں آرہی ہے۔ پارلیمان کو ابھی تک نہ تو بحث کیلئے اور نہ اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کی سمت متعین کرنے کیلئے اس کا بھرپور اور موثر انداز میں استعمال کیا گیاہے۔
درپیش گمبھیر اور سنگین سفارتی چیلنجز کے ساتھ ساتھ اس سے نمٹنے کا محدود اور تنگ نظر رویہ بھی زیادہ خطرناک ہے۔ محدود پالیسی سازی کا عمل سفارتی چیلنجز سے کم تشویشناک نہیں۔ جس سے ان چیلنجز کی سنگینی اور پیچیدگی بڑھ جاتی ہے۔ سفارتی چیلنجوں کی شدت اور پیچیدگی کے پیش نظر قومی سطح پر وسیع مشاورت اورتمام اہم شراکت داروں کی سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے مگر اس عمل میں ادارہ جاتی تعصب اور مفاد اڑے آرہاہے ۔
کچھ طاقتور حلقے پالیسی سازی پر اپنی اجارہ داری کو ختم کرنے یا دیگر اہم شراکت داروں کو مشاورت میں شامل کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ فوجی اور سول تعلقات میں عدم توازن اور ایک دوسرے پر بڑھتی ہوئی بد اعتمادی کے پیش نظر حقیقی مشاورت کا فقدان ہے۔ سویلین کو سٹرٹیجک معاملات سے لاعلم اور اس سے نمٹنے کی صلاحیتوں سے عاری اور سیکورٹی رسک سمجھنے کی ذہنیت ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں عسکری سے زیادہ سویلین اپروچ کی متقاضی ہیں۔ تاکہ ملک کو داخلی اور خارجی بحرانوں سے نکالا جا سکے۔ آئین پاکستان کے تحت ریاستی اداروں کو دیئے گئے مینڈیٹ کا احترام کرنا ہوگا۔ وزارت خارجہ کو خارجی پالیسیاں بنانے کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانا ہوگا اور پارلیمان جو قومی سوچ اور فکر کی نمائندہ فورم ہے کو قومی نوعیت کی حامل پالیسیاں بنانے میں شریک کرنا ہوگا۔ اس عمل میں مزید تاخیر سے داخلی اور خارجی بحرانوں کے مزید سنگین ہونے کا امکان ہے۔
علاقے میں امن اور سلامتی کیلئے علاقائی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جنوبی ایشیا کی انسانی اور مادی وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے علاقائی تعاون کی کافی گنجائش اور امکانات موجود ہے مگر پاک بھارت دشمنی کی وجہ سے نہ صرف یہ دو ہمسایہ ممالک بلکہ علاقے کے دیگر ممالک بھی ان وسائل اور امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔
ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے دہشت گردی ، انسانی اور منشیات کی اسمگلنگ ، مذہبی ، لسانی اور صنفی امتیاز کے مسلے پر علاقائی سطح پر مشترکہ کوششوں سے قابو پایا جاسکتا ہے اور علاقائی اقتصادی تعاون کے ذریعے غربت اور معاشی بدحالی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی مشترکہ سعی اور کوششیں کی جا سکتی ہیں۔
♦