علی احمد جان
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پندرہ اگست کی تقریر میں یہ تو کہہ دیا کہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت کے لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ شکریہ کیوں ادا کیا گیا ۔ تاہم شکریے کی وجہ جانے بغیر تجزیوں، تبصروں ، الزامات، جوابی الزامات اور خدشات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
ویسےمودی ہندوستان کے ایک انوکھے وزیر اعظم واقع ہوۓ ہیں پتہ نہیں ان کو ہندوستان کا ڈونلڈ ٹرمپ کہا جائیگا یا ثانی الذکر کو امریکہ کا مودی اس کا فیصلہ تاریخ ہی کرے گی لیکن بطور وزیر اعظم ان کے کئی کارہاۓ نمایاں ایسے ہیں جن پر وہ شکریٔے کے نہیں تو کم از کم لائق تحسین ضرور ہیں۔
بطور پاکستانی مودی کا ہندوستان کو پاکستان بنانے پر کا شکریہ سب کوادا کرنا چاہیٔے ۔ 1947 سے 1979تک پاکستان جناح کے پاکستان سے ضیاء کا پاکستان بنا مگر مودی نے گاندھی کے ہندوستان کو بال ٹھاکرے کا ہندوستان بنانے میں دو سال سے بھی کم عرصہ لگایا۔ اس سریع الرفتار زوال پر مودی شکریے کے نہیں تو کم از کم فقید المثال کارکردگی پر مبارکباد کے مستحق ضرور ہیں ۔
مودی کا شکریہ تو محمود قصوری کو بھی ادا کرنا چاہیٔے کہ ان کی کتاب کی مارکیٹنگ کے لیٔے مودی کے پیرکاروں یعنی شیو سینا کے جیالوں نے دنیا بھر میں مفت تشہیری مہم چلادی۔ کچھ سازشی ذہن رکھنے والے لوگ ہنوز شک میں ہیں کہ قصوری صاحب نے کسی بڑی مارکیٹنگ ایجنسی سے بھاری معاوضے پر خفیہ طور اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے میزبان کلکرنی کے منہ پر پینٹینگ کا انتظام کرواکر شہرت حاصل کی ہے۔
اگر اس بات میں صداقت نہیں ہے تو پھر قصوری صاحب کو مودی کا بر ملاشکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ کرشمہ سازی مودی کی ہی ہے کہ ان کی اس تقریب اور وجہ تقریب کتاب دنیا بھر کے بڑے بڑے میڈیا چینلز پر دکھائی گئی اور یوں مارکیٹنگ کے اخراجات میں کمی اور آمدن میں اضافہ ہوا ۔
مودی کا شکریہ تو ثناءاللہ زہری اور سرفراز بگٹی بھی ادا کرینگے کہ ان کے اس بیان کیساتھ ہی برہمداخ بگٹی نام کی آفت سے ان کی جان چھوٹی ورنہ کہیں اگر اصلی بگٹی کی بات چیت کسی سےہوتی تو ان بیچاروں کو واپس جاکر بکریاں چرانی پڑتیں جو ان کے اقتدار کی وجہ سے بھوکی مررہی ہیں ۔ اب یہ دونوں اقتدار میں اپنا بقیہ وقت سکون سے نہیں تو کم از کم بگٹیوں سے ہتھیار ڈلوانے اور فراری کیمپوں کے خاتمے کے جعلی ڈراموں کے سہارے آسانی سے گزارسکیں گے۔
بقول انڈین ٹریبیون کے مودی کا شکریہ تو کشمیری قوم پرستوں کے خلاف ہمیشہ سے دہلی سرکار کو ہی ووٹ دینے والے کارگل کے باسیوں نے بھی ادا کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سرحد پار گلگت بلتستان کے رہنے والے ان کے ہم مذہب بھائی زیادہ مشکلات کا شکار ہیں اور مودی کے اس بیان سے ان مشکلات میں کمی واقع ہوگی ۔
مودی کے مشکور تو متحدہ عرب امارات کے شیوخ بھی ہیں کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے آپس میں تناؤکے اضافے کا سب سے زیادہ فائدہ دوبئی اورابوظہبی کو ہوا ہے جہاں ان دو ملکوں کی آپس میں شادیوں سے لیکر کارپوریٹ میٹنگز کا کاروبار پھر سے عروج پر ہے۔ کراچی، لاہور۔ ممبئی اور دہلی کے لوگ آپس میں کاروبار براہ متحدہ عرب امارات کرنے پر مجبور ہیں اور ان لوگوں کی یہ معمولی سی مجبوری دبئی ، شارجہ اور ابوظہبی کی رونقوں میں اضافہ کررہی ہے ۔
اگر مودی نہ ہو تے تو شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم اب تک شاپنگ مال میں تبدیل نہ ہو چکا ہوتا ؟
شاید کسی کو علم نہیں مگر گلگت بلتستان میں پاکستان کی سب سے بڑی وفاقی جماعتوں کو بھی مودی کا مشکور ہونا چاہیٔے کہ ان کے اس بیان نے ان کو دوبارہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مو قع فراہم کیا۔ ورنہ وہ سابقہ و حالیہ کارکردگی پر لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں تھیں ۔ اب مودی کے پتلے جلا جلاکر ایک پارٹی اپنے دور میں کی جانے والی ریکارڈ توڑ کرپشن کی یاداشتیں لوگوں کے اذہان سے جلا رہی ہے تو دوسری اپنے انتخابی وعدوں کو مودی کے شکریے کے الفاظ میں لپیٹ کر سرد خانے کی نظر کر رہی ہے۔
مودی کے یاروں کو ایک دھکا اور دینے والے چیتوں کو بھی آزاد کشمیر میں اپنی بدترین شکست چھپانے اور خیبر پختونخواہ میں اپنی ناقص کارکردگی پر مٹی ڈالنے کےلیٔے مودی نے ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے جس پر مودی کے لیٔے ایک سپاسنامہ ان کی طرف سے بھی بنتا تو ہے۔
پاکستان کے سیاسی ملاؤں کی روزی روٹی کا دارومدار اسرائیل اور ہندوستان پر ہے ، چاہے ان کو ان ملکوں کے جغرافیہ کا معلوم ہو یا نہ ہو مگر یروشلم اور دہلی پر جھنڈا گاڑھنے کی بشارت ہر جمعے کے خطبے کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کی بہتری سے ان کا پائے خطابت متزلز ل ہوجاتا ہے ۔ مودی کی حالیہ تقریر کے بعد انکی گفتار میں دوبارہ روانی اور بادلوں کی سی گرج آئی ہے جس پر ان ملاؤں کو بھی مودی کا شکریہ ادا کرنا چاہیٔے۔
کبھی شیڈول چار میں اور کبھی سرکار کے گلے کا ہار بننے والے یہ اثاثے انڈیا سے جنگ نہ ہو تو جہاد باہم کو مذہبی فریضہ مان کر زرمِ حق و باطل کا فریضہ اپنے ہی ملک میں ادا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اس لیٔے ان کو بھی مودی کا شکریہ ادا کرنا چاہیٔے کہ انھوں نے غزوہ ہند کے نام پر ایک بار پھر ان کے لیٔے من و سلویٰ کی امیدیں جگادی ہیں ۔
مودی کا شکریہ تو سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور انتظامیہ کو بھی کرنا چاہیٔے کہ انہیں موسم گرما کی تعطیلات کے فوراً بعد بچوں کو مودی کیخلاف نعرے لگوانے کےلیٔے سڑکوں پر لاکر اپنی تدریسی کمزوریاں چھپانے کا موقع ملا ہے۔ورنہ انہیں اپنے شرمناک نتائج پر جواب دہ ہونا پڑتا کہ صرف دس فیصد بچے ای اور ڈی گریڈ میں کیوں پاس ہوۓ۔ اب ریاست کی طرف سے تفویض کردہ اس فریضے کے خاکی کمبل نے سب چھپا دیا ہے ۔
بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں صیغہ حاضر اور صیغہ غائب کے فرشتوں کو بھی مودی کی اس تقریر پر شکریہ نہیں تو شکرانے کے نوافل ضرور ادا کرنے چاہیں کیوں کہ اب لوگوں کو حاضر اور غائب کرنے کا قومی فریضہ لاحق ہوچلا ہے ۔اب انہیں طفیلی صحافیوں کی وساطت سے اپنی کارکرگی بالواسطہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اس تقریر کا کلپ ہر ہفتے چلانے سے کام چل جائے گا۔
سب سے بڑھ کر گلگت بلتستان، کشمیر اور بلوچستان کےموقع پرست، خود پرست اور تنگ نظرقوم پرست راہنما ؤں کو جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور دوسروں کے بچوں کو آزادی کی تحریک کے لیٔے تیار کر رہے ہیں مودی کا شکریہ دا کرنا چاہیٔے کہ مودی کو ان سے ملے بغیر ہی ان کے دل کا حال معلوم ہوچکا ہے۔ اب وہ دہلی کا چکر لگا لگا کر اپنی وفاداریوں اور کارکردگیوں کا یقین دلائینگے کہ اگر ان پر دہلی کی نظر کرم ہو تو صرف وہی ہیں جو ایشیا کے سب سے بڑے بدمست ہاتھی چین کے سا منے سیسہ پلائی دیوار بن سکتے ہیں ۔
ان راہنماؤں نے اس بیان پر شادیانے بجانے کے علاوہ ان سے اختلاف کرنے والوں کو دھمکیاں بھی دینا بھی شروع کردی ہیں کہ اگر قبلہ درست نہ ہو اتو بہت جلد کاروائی عمل میں لائی جائیگی۔
میری طرف سے ان سب کو شکریے کا موقع دینے پرنریندر مودی کا شکریہ !
♦
2 Comments