منیر سامی۔ ٹورنٹو
ایک لکھنے والے کی حیثیت میں ہم ایک لحاظ سے خوش قسمت fکہلائے جاسکتے ہیں کہ ہمیں بارہا اپنی رائے کے اظہار کے مواقع ملتے ہیں۔ ہم نسبتاً آزادی کے ساتھ پاکستان سے باہر اردو انگریزی جرائد میں پاکستان اور پاکستان سے باہر کے مسائل پر لکھ سکتے ہیں، اور ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر مکالمے بھی کر سکتے ہیں۔اس ضمن میں ہمیں اپنے جرائد کے مدیران کا تعاون بھی حاصل رہتا ہے جو عموماًمغرب میں آزادیئ اظہار کی روایتوں کے تحت اپنے لکھنے والوں پر زیادہ قدغن نہیں لگاتے۔
گزشتہ بیس سال کے دوران کینیڈا میں صرف دو بار ایسا ہوا ہے کہ ایک اخبار کے مدیر نے ہم سے مشورہ کیئے بغیر ہماری تحریر کے ایک حصہ کو قلم زد کردیا تھا، اور ایک مدیر نے ہمار ا ایک کالم شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہم نے ان جرائد سے قطع تعلق کر لیا اور ان جرائد میں لکھنا شروع کر دیا جو ہماری تحریر کو سنسر کرنے کے بجائے مشورہ کو فوقیت دیتے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ ہم جیسے دیگر لکھنے والے بھی بیرون ِ پاکستان اپنی رائے کے اظہار کے لیئے قدرے آزاد ہیں۔ اب تک ہم نے قدرے اور نسبتاً آزادی کی اصطلاح اس لیئے استعمال کی ہے کہ آمرانہ اور جابرانہ نظام والے ملکوں کے سابقہ یا بیرونِ ملک مقیم شہری مغرب میں تمام تر آزادیوں کے باوجود اپنے سابقہ ممالک کے نظام کے نشانے میں رہتے ہیں۔
آج کی تحریر پاکستان کے ان باہمت قلم کاروں کے نام ہے جنہیں ہماری طرح کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ یہ وہ ہیں کہ جن کے لیئے فیضؔ نے ’دستِ تہہِ سنگ ‘ کی ترکیب لکھی تھی، اور جن کے لیے غالب نے ایک لازوال شعر لکھا تھا کہ ’حالِ دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلاؤں۔۔انگلیا ں فگار اپنی ، خامہ خونچکاں اپنا‘۔ چند روز پہلے ہمیں غالب کا یہ شعر ، پاکستان کے اہم شاعر احمد فرازؔ کی ایک نظم ’پیشہ ور قاتلو، تُم سپاہی نہیں‘ سن کر یاد آیا ۔
فرازعموماً ایک رومانی شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں لیکن انہوں نے کئی معرکہ آرا، احتجاجی نظمیں بھی لکھی ہیں جو بے مثل ہیں۔ اگر موقع ملے تو آپ فراز کی یہ نظم یوٹیوب پر تلاش کرکے خود سن لیں۔ اس کی چند سطریں یوں ہیں:’میں نے اب تک تمہارے قصیدے لکھے۔۔اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں۔۔ اپنے شعروں کی حُرمت سے ہوں منفعل ۔۔ اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں۔۔ اپنے دلگیر پیاروں سے شرمندہ ہوں‘۔۔
وہ اس نظم میں آگے لکھتے ہیں کہ، ’ جن کے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا۔۔ ظُلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے۔۔مرگِ بنگال کے بعد بولان میں۔۔شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے۔۔ آج سرحد سے پنجاب و مہران تک۔۔ تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو۔۔ اتنی غارت گری کس کے ایما پہ ہے۔۔کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو؟‘
نظم کو ختم کرتے ہوئے فراز نے لکھا کہ، ’’کل تمہارے لیئے پیار سینوں میں تھا۔۔ اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں۔۔آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے۔۔اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں۔۔ خون اترا تمہارا تو ثابت ہوا۔۔پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں۔۔اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیے ۔۔ اب فقط مسئلہ تختِ شاہی نہیں ۔‘
فرازؔ سے ظلم کی روایت کے خلاف یہ احتجاجی نظم سنی تو ہمیں پاکستا ن کے با ہمت قلم کاروں کی روایت پر فخر ہوا جو ہمیشہ ہی ظلم سے الجھتے رہے ہیں اور دشوار ترین حالت میں بھی ’جنوں کی خونچکاں حکایات لکھتے رہے ‘ہیں ، اور اس جرم میں ان کے ہاتھ اصلاً قلم ہوتے رہے ہیں۔ فراز کی نظم سن کر ہمیں ایک اور نظم یاد آئی جو شاید اب سے کئی پہلے خالد علیگؔ نے مزدوروں پر گولیا ں چلنے کے بارے میں لکھی تھی۔
اس کے چند مصرعے ہمیں اس طرح سے یاد ہیں، ’ پیشہ ور قاتلو یہ جواںخون ہے۔۔محسنو !غازیو ! قوم ممنون ہے۔۔ بے نمو بے نشاں ، بے ثمر،سر بسر ۔۔تیرہ و تار تھا کس قدر یہ نگر۔۔ تم نے ظلمت کدے کو فروزاں کیا ۔۔کیسا پاکیزہ تر یہ چراغاں کیا۔۔۔۔‘
آج کی تحریر ان کےنام بھی ہے جنہوں نے ہمیشہ مجروح سلطان پوری کی اس پکار پر لبیک کہا ہے کہ ’ ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ۔۔جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے‘۔جو ظلم و جبر کی سیاہ رات کے سامنے اپنے قلم کی مشعل جلائے یوں سینہ سپر رہتے ہیں کہ ان کو سُروُرؔ بارہ بنکوی بار بار یہ تلقین کرتے رہتے ہیں کہ، ’رات کا انجام بھی معلوم ہے ہم کو سرور۔۔ لاکھ اپنی حد سے گزرے تا سحر جائے گی رات‘۔
ہم میں سے وہ لوگ جو پاکستان جیسے ملکوں سے دور مادر ہائے وطن کے حالات پر غمگین و آزردہ رہتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہاں دیانت دار، جرات مند، اور قلم کی حرمت کے علم بردار لکھنے والے مشکل ترین حالات میں بھی مٹی کا اور قلم کا قرض اتارے جاتے ہیں۔ بلکہ مٹی کی محبت میں یہ آشفتہ سر وہ قرض اتارتے رہتے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں ہوتے ہیں۔
ہم میں سے وہ لوگ جو کبھی کبھار اپنے وطن کے حالات اور وہاں کے لوگوں کی کس مپرسی پر اگر کچھ لکھتے بھی ہیں، تو بھی ہمارا حصہ ان لوگوں کے بارے میں کہیں کم تر ین ہے جو حصارِ ظلم میں ، شیر کی کچھار میں ، اور زہریلے سیا ہ ناگوں کے حلقہ میں گھرے ، مستانہ نعرہِ حق بلند کرتے رہتے ہیں ، اور اس کی قیمت بارہا اپنی جان تک سے ادا کرتے ہیں۔ہم تو صرف ان کی آواز میں آواز ملاتے ہیں ، اور ان کی تحریروں اور ان کی با ہمت آوازوں کے ارتعاش کی لہر کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی ہمارا فرض اور ہماری ذمہ داری ہے۔
♦