سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنا اور سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینا پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہ سلسلہشروع ہوگیا تھا ۔ سیاسی مخالفین کی پکڑ ھکڑ اور سیاسی سرگرمیوں کی حو صلہ شکنی کرنا وزیر اعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں قائم حکومت کی اولین ترجیح تھی ۔
سب سے پہلے تو حسین شہید سہروردی کو نہ صرف غدار بلکہ کتا تک کہا گیا تھا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ یہی غدار پاکستان کا وزیر اعظم بنا ۔ قیام پاکستان کے ایک ہفتے کے اندر ہی صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت کو ملک دشمن قرار دے کر توڑ دیا گیااور ایک ایسے شخص کو وزیر اعلی ٰ نامزد کر دیا گیا جو صوبائی اسمبلی کا رکن تک نہیں تھا ۔
مسلم لیگ کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا قیام ملک دشمنی اور اسلام دشمنی کے مترادف قرار دے دیا گیا تھا ۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری سجاد ظہیر ابھی پاکستان بھی نہیں پہنچے تھے کہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے تھے۔ 1954میں ’ملک دشمنی ‘کی آڑ میں کمیونسٹ پارٹی پر پابند ی عائد کر دی گئی تھی ۔
جہاں تک پارٹی قیادت کا تعلق تھا تو اس کو 1951میں راولپنڈی سازش کیس کی ملوث ہونے کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ گرفتار ہونے والوں میں فیض ا حمد فیض بھی شامل تھے ۔ 1954میں مشرقی بنگال میں یونائیٹڈ فرنٹ کی منتخب صوبائی حکومت کو بر طرف کر کے وزیر اعلیٰ اے۔کے فضل الحق کو نہ صرف گرفتار کر لیاگیا بلکہ اسے یک قلم ’غٖدار ‘ بھی قرار دیا گیا تھا ۔
جنرل ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابند عائد کر دی تھی اور مولانا مودودی کو سزاے موت دلائی تھی جو بعد ازاں سپریم کورٹ نے ختم کی تھی ۔ جنرل یحییٰ خان نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی اور 1970کے الیکشن کے بعد عوامی لیگ کو کالعدم قرار دے دیا تھا ۔
فوجی ایکشن کے نتیجے میں روپوش ہوجانے والے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں کوخالی قرار دے کر ان پر میجر جنرل راو فرمان علی خان نے ضمنی انتخابات بھی کر وادیئے تھے۔ ان صوبائی ’ا انتخابات‘ میں بھٹو کی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ بھٹو نے بر سر اقتدار آکر نیپ پر پابندی ہٹالی تھی لیکن 1974 میں اسلام آباد میں عراق کے سفارت خانے سے اسلحہ بر آمد کر کے نیپ پر ایک بار پھر پابندی عائد کر دی تھی اور بلو چستا ن میں قائم مینگل حکو مت کو ڈسمس کر دیا تھا اور ساتھ ہی وہاں فوجی ایکشن شروع ہوگیا تھا ۔
نیپ نے نئی شکل نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کی اختیا ر کر لی تھی ۔ شیر باز مزاری اس کے صدر اور محترمہ نسیم ولی خان کی اس نئی پارٹی کی نائب صدر بنی تھیں۔ حید ر آباد کیس کے خاتمے کے بعد جب پشتون اور بلوچ قیاد ت رہا ہوئی تو انھوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے نئی پارٹی بنا لی تھی جس میں این۔ڈی ۔پی ضم ہوگئی تھی۔
جنرل ضیا ء الحق نے مار شل لا نافذ کرنے کے بعد پہلا کام پیپلز پارٹی کو توڑنے کا شروع کیا تھا ۔ مولانا کو ثر نیازی نے پرو گریسو پیپلز پارٹی کے نام سے نئی پارٹی لانچ کی تھی جس کے وہ چیئر مین بنے اور بیرسٹر کمال اظفر جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے تھے ۔ اس پارٹی کا منشور مار شل لا حکومت سے تعاون اور پیپلز پارٹی کو بھٹو خاندان سے ’محفوظ‘ بنا نا بتایا گیا تھا ۔
جب یہ پارٹی اپنا طے شد ہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی تو سابق وزیر اعلی ٰ پنجاب حنیف رامے نے مساوات پارٹی کے نام سے پارٹی بنائی اس کے ذمہ بھی یہی ڈیوٹی تھی کہ پیپلز پارٹی کے کارکن توڑے اور بھٹو خاندان کی’ انتہا پسندانہ‘ سیاست سے پارٹی کو محفوظ بنائے ۔ یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی تو غلام مصطفے جتوئی کو میدان میں اتارنا پڑا، تاکہ وہ پیپلز پارٹی سے سندھ کارڈ چھین سکے لیکن شومئی قسمت وہ بھی ایسا کرنے میں ناکام رہے اور انھیں قومی اسمبلی کی اپنی نشست کے لئے نواز شریف سے بھیک مانگنا پڑی اور وہ نارووال سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔
جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی کو توڑنے کے لئے پیپلز پارٹی پٹریاٹ بنائی جس کے سہارے پانچ سال تک وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔ماضی میں جنرل آصف نواز جنجوعہ ایم کیو ایم حقیقی بنا چکے ہیں ۔اب شائد ایک اور ایم کیوایم ان میکنگ ہے ۔
یاد رکھیں کہ سیاسی جماعتوں کو جبر اور سازش سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ سیاسی جماعتوں کا اگر معاشی اور سیاسی جواز رہے گا تو وہ قائم رہیں گی خواہ ان کے خلاف جبر و تشدد کے کتنے ہی ہتھکنڈ ے کیوں نہ استعمال کئے جائیں۔ایم کیو ایم کا نام بدل سکتا ہے لیکن جہاں تک اس کی سیاسی حمایت کا تعلق ہے اس کو ختم کرنا کسی فوجی یا غیر فوجی انتظامیہ کے بس کی بات نہیں ہے۔
♦
One Comment