انگریزوں کی غلامی کے دور میں بھی ہم نے انگریزی کا طوق اپنے گلے میں اس طرح سے نہیں ڈالا تھا جس طرح اب آزادی کے بعد ڈال لیا ہے اور اس پر فخر کرتے ہیں۔انگریزوں کی غلامی میں ہم نے بڑی دلیری سے اورشان اور آن بان سے اپنی زبان کو زندہ رکھا تھا اور اس پر انگریزی زبان کے سائے قبول نہیں کئے تھے ۔یہ دور تھا جب اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی ایک کہکشاں تھی جس سے اردو کا افق جگمگا رہا تھا۔ ان کے نام گنوانے شروع کیے جائیں تو پوتھیاں کی پوتھیاں بھر جائیں۔
اردو پر انگریزی کی یلغار ابھی یہی دو دہائیوں سے شروع ہوئی ہے لیکن اس کی اصل وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ انگریزوں کی حکمرانی ایک وجہ بن سکتی تھی لیکن اسے ختم ہوئے بھی اب 68سال ہونے کو آئے ہیں ۔ ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی اپنے ذہنوں پر یہ طاری کر لیا ہے کہ بات چیت میں جگہ جگہ انگریزی کے الفاظ کا استعمال ہمارے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت سمجھا جائے گا اور لوگ ہم سے مرعوب ہوں گے۔
ہم نے مذہبی عقیدہ کی طرح اس پر یقین کر لیا ہے کہ انگریزی ہی ہماری راہ نجات ہے اور یہی ہمیں اپنے ملک میں اور غیر ممالک میں روزگار کے روشن مواقع فراہم کرسکتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ انگلش میڈیم اسکولوں کا ایک جنگل کھڑا ہو گیا ہے۔ گھروں میں بچوں سے اردو میں بات چیت واجبی سی رہ گئی ہے ۔ بہت سے نوجوان توبڑے اترا کر کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں تو اردو صرف ماسیاں بولتی ہیں۔ پاکستان کے ٹیلی وژن چینلز کے بعض اینکر پرسنز کی زبان اس بات کی چغلی کھاتی ہے کہ انہوں نے باقاعدہ اردو نہیں پڑھی ہے وہ صرف سنی سنائی اردو بول لیتے ہیں۔ بحث و مباحثہ میں بے دھڑک انگریزی کی بیساکھی استعمال کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک انگریز صحافی نے جو ایشیائی امور سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں مجھ سے نہایت حیرت سے پوچھا کہ کیا کوئی خاص وجہ ہے کہ پاکستان کے اردو چینلز کے بیشتر پروگراموں کے ٹاٹیلز انگریزی میں ہیں۔آف دی ریکارڈ، پاور پلے، آن دی فرنٹ۔کیپیٹل ٹاک۔ بریکینگ نیوز وغیرہ ۔ ان کا سوال تھاکہ کیا پاکستان میں ان پڑھ افراد ان ٹاٹیلز کے معنی سمجھتے ہیں اور دوم کیا ان کے متبادل اردو میں نام نہیں ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے برطانیہ میں ٹیلی وژن پروگراموں کے نام فرانسسی یا جرمن میں رکھے جائیں۔ پوچھنے لگے اس کے پیچھے کیا نفسیات ہے ؟
میرے پاس سوائے خفت کے کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر وہ بولے کہ پچھلے دنوں میں کراچی میں تھا وہاں میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہر جگہ سائین بورڈ انگریزی میں ہیں۔ حتی کہ ایک قصائی کی دکان پر بورڈ لگا ہوا تھا ۔۔کراچی مٹن شاپ۔کہنے لگے کہ پاکستانی اتنے شاہ پرست کیوں ہیں؟ ہر جگہ بے دھڑک رائل کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ برطانیہ میں جہاں بادشاہت ہے اور ملکہ فرماں رواہے یہاں بھی یہ لفظ بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔
کہنے لگے کہ وہ ٹیلی وژن پر نئے تعمیر ہونے والے علاقوں کے نام سن کر دنگ رہ گئے مثلا کنگز ریذیڈنسی۔ گلستان جوہر کے قرب میں کہنے لگے انہوں نے ایک علاقہ دیکھا نام تھا اس کا ہارون را ئل ٹاون۔ اس کی سڑکوں اور فٹ پاتھ پر اس قدر گندگی اور غلاظت بکھری ہوئی تھی کہ یہ نام دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ اس کا عمدا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
نجم سیٹھی اور منیب کا بہت مقبول پروگرام آپس کی بات ہے ۔ جب بھی میں یہ پروگرام دیکھتا ہوں انگریزی کی بھر مار کی وجہ سے کڑھ کے رہ جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ نجم سیٹھی کو یہ تجویز پیش کروں کہ یہ پروگرام وہ انگریزی میں پیش کریں تو بہتر ہوگا کیونکہ پروگرام میں ساٹھ فی صد الفاظ انگریزی کے استعمال کیے جاتے ہیں اور بعض جگہ تو جملے کے جملے انگریزی کے بولے جاتے ہیں۔نجم سیٹھی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ناظرین بھی ان کی طرح پڑھے لکھے انگریزی دان ہیں۔ اپنی اس نادانی کے ہاتھوں کس تیزی سے ہم اردو کو مسخ کر رہے ہیں اور اپنی شناخت کو مٹا رہے ہیں۔
اس وقت ہمارے ٹیلی وژن چینلز اردو کو مسخ کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس تیزی سے چینلز کا پھیلاؤ ہوا ہے کہ نہ تو صحافیوں کو تربیت دینے کا وقت ملا اور نہ زبان پر زیادہ توجہ دی گئی۔خبریں سنانے والے خبریں سنانے سے پہلے کہتے ہیں کہ اب بات کریں گے۔ ایسی بھیڑ چال ہے کہ اب ہر چینل پر خبروں کے لیے یہی کہا جاتا ہے اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہر خبر پیش کرنے والا کہتا ہے ہیڈ لائنز آپ نے جانیں۔
اردو کی تازہ ترین خبر کی اصطلاح کا گلا گھونٹ کر اس کی جگہ بریکنگ نیوز اپنا کر ہم ایسے اترانے لگے ہیں جیسے مانگے کے اجالے کو اپنا اجالاسمجھنے لگیں ہیں ۔نہ جانے اینکر یہ سوال کرنے کے بجائے کہ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے یہ کیوں کہتے ہیں کہ اس پر آپ کا ٹیک کیا ہے۔ پھر گفتگو اور بحث و مباحثہ میں حصہ لینے والے رٹے رٹائے جملے نہ ادا کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کو تسلی نہیں ہوتی مثلا مائنڈ سیٹ، اسٹیک ہولڈرز،اکراس دی بورڈ اور یہ ایک پیج پر ہیں۔ دل کڑھتا ہے کہ ایک پیج کے لیے اردو میں اتنے اچھی اصطلاحات ہیں ۔ مثلا ہم خیال،یک ر ائے ،ہم نوا وغیرہ۔
ان کو ترک کر کے ہم ایک پیج سے کیوں چمٹ گئے ہیں ۔ اردو پر انگریزی کی یلغار کا یہ عالم ہے کہ ایک ممتاز اینکر یہ کہہ رہے تھے کہ یہ پروبلم ہماری اٹنشن کو گرپ کیے رکھے گا۔ آپریشن کا کریڈٹ پرائم منسٹر لے رہے ہیں۔ قانونی مشوروں کے ایک پروگرام میں اینکر خاتوں یہ مشورہ دے رہی تھیں کہ۔۔ ڈییسین میک کرنے میں ہری نہ کریں۔۔
انگریزی واقعی ایک جاندار اور مالدار عالمی زبان ہے اور ہمیں اور ہمارے طالب علموں کو اس میں پوری دست رس حاصل کرنی چاہیے لیکن اسی طرح جس طرح چینی جاپانی جرمن فرانسیسی اطالوی اور دوسری قومیں انگریزی سے فیض حاصل کرتی ہیں لیکن اپنی زبانوں کو انگریزی کے لئے قربان نہیں کرتیں۔ ہم اپنی زبان کواور اپنی ثقافتی روایات کو قربان کر کے انگریزی کے پیچھے دیوانہ وار بھاگے جارہے ہیں ۔
داناوں کا کہنا ہے کہ زبان ثقافت اور شناخت کی سب سے بڑی محافظ ہے ۔ اگر زبان پر حملہ ہو تو پھر ثقافت کے تباہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسا لگتا ہے کہ ہماری ثقافت اور شناخت کو تباہ کرنے کے لئے زبان پر حملہ ہو رہا ہے۔
♥
2 Comments