بیرسٹر حمید باشانی۔ ٹورنٹو
آزادکشمیر کے نئے صدر جناب مسعود خان نے حلف اٹھا لیا ہے۔حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کریں گے۔لفظ اجاگر کو اپ باٹم لائن یا کی۔ورڈ کہہ سکتے ہیں۔یہ لفظ سنتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آئندہ پانچ سال تک موصوف کے اس موضوع پر کس قسم کے بیانات آئیں گے۔موصوف کن کن ممالک کا دورہ کریں گے۔کن کن شخصیات سے ملاقات کریں گے۔کن کن کانفرنسزمیں شرکت کریں گے۔کن فورمز سے خطاب کریں گے۔
مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے اس عمل کے دوران دیگر کاموں کے علاوہ جو کام لازمی طور پر ان کو کرنے پڑیں گے ان میں کشمیر کے حوالے سے قومی اہمیت کے دن منانا بھی ہے۔ان دنوں میں یوم تاسیس، یوم شہدا کشمیر،یوم یکجہتی وغیر ہ کے دن شامل ہیں۔اس عمل کے دوران ان کو آزاد کشمیر کے چند شہدائے کرام کے مزاروں پر حاضری دینے کے علاوہ کئی عوامی اجتماعات سے خطاب کرنا پڑے گا۔
ان خطابات کے دوران موصوف یہ فرمائیں گے کہ اس دھرتی کی آزادی کی خاطر ہم لوگ صدیوں سے قربانی دیتے آئے ہیں۔اس دھرتی کی خاطر ہمارے آبا اجداد کی زندہ کھالیں اتروائی گئیں۔پھر ہمارے بزرگوں نے ڈوگروں سے لڑ کر آزادی حاصل کی۔اس علاقے کو آزادی کا بیس کیمپ بنایا۔اور ہماری آزادی کی یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ہمارے بھائی کشمیر میں بھارت کے خلاف سر بکفن ہیں۔ بھارت اب کشمیریوں کو زیادہ دیر تک غلام نہیں رکھ سکتا۔کشمیر کی آزادی کا وقت آ گیا ہے۔
اس طرح وہ ساٹھ سال سے دہرائے جانے والے مکالموں کو ایک بار پھر ان ہی الفاط میں دہرا کر آزاد کشمیر اور پاکستان میں مختلف مقامات پر مسئلہ کشمیر کر اجاگر کریں گے۔مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے ان کو بیرون ممالک کے اکثر دوروں کا کشٹ بھی اٹھانا پڑے گا تاکہ وہ مسئلہ کشمیر پر ہونے والی مختلف کانفرنسزمیں شرکت کر یں اور اعلیٰ شخصیات سے مل سکیں۔ان میں اوآئی سی کی کانفرنس سر فہرست ہے۔
اس کانفرنس میں وہ اسلامی ممالک کی اس تنظیم کو ایک سوبیسویں بار پھر اس بات کا یقین دلائیں گے کہ بھارت کشمیر ی مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے اس لیے بھارت کے خلاف قراداد مذمت منظور کی جائے۔اس کے بعد وہ چند شہروں کے ہنگامی دورے کے دوران پاکستانی سفارت خانوں کے تعاون سے منقعد ہونے والی کشمیر کانفرنسز میں شرکت کر کے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کریں گے۔ پھر کچھ ممبران پارلیمنٹ، انسانی حقوق کے نمائندوں اور کمیو نیٹی کے چیدہ چیدہ افراد کے ساتھ ملاقاتوں میں مسئلہ کشمیر پر بات کریں گے۔
گویا موصوف وہی کام کریں گے جو آزاد کشمیر کے سابق صدور یا وزرائے اعظم گزشتہ پچاس سالوں سے کر رہے ہیں۔ان سر گرمیوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا البتہ اجاگر ضرور ہو گا جیسا کہ یہ نصف صدی سے اجاگر ہوتا آیا ہے۔تنازعہ کشمیر کی شروعات میں کچھ لیڈر تھے جو مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے تھے یا عوام سے اس کو حل کرنے کا وعدہ کرتے تھے۔کچھ عرصہ بعد کشمیری لیڈروں نے حل کے بجائے اجاگر کرنے کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔
اس اجاگر کرنے سے نہ تو بھارت کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی کشمیریوں کے مصائب میں کوئی کمی آتی ہے۔اس کے برعکس اس عرصے میں بھارت نے تیز رفتاری سے عالمی برادری میں اپنی جگہ بنائی ہے اور وہ اب دنیا کی سپر پاورز کے ساتھ کندھا رگڑنے کی پوزیشن میں ا گیا ہے۔اجاگر کرنے کی اس پالیسی کے تحت جس عالمی سطح پر ہم یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں اس کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ عوام کے ساتھ ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔
یہ جو عالمی سطح پر کانفرنسز ہوتی ہیں ان سے عالمی رائے عامہ مکمل طور پر بے خبر ہوتی ہے۔ ان کانفرنسزمیں دیسی بنکویٹ ھالوں یا ریستورانٹوں میں دیسی لوگوں کو بار بار جمع کر کے وہی بات دہرائی جاتی ہے جو گزشتہ پچاس سال سے ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس کا اگر کسی کو فائدہ ہوتا ہے تو وہ اس بنکوئٹ ہال کے مالک کو یا کسی تصویر بنوانے کے شوقین خود ساختہ کمیونٹی لیڈر کو۔اس کانفرنس کی خبر نہ تو مقامی ذرائع ابلاغ کو ہوتی ہے نہ ہی مقامی لوگوں کو، مگر ہمارے نزدیک یہ کانفرنس عالمی ہوتی ہے اور مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کے لیے بلائی گئی ہوتی ہے۔
جن ممبران پارلیمنٹ سے بات کی جاتی ہے وہ اپنے ووٹر کو خوش کرنے کے لیے ملاقات کے دوران سر ہلاتے رہتے ہیں اور پھر اس موضوع پر کبھی کسی سے ایک لفظ تک نہیں کہتے۔مگر ہمارے لیڈر اس دورے کے بعد فاتحانہ انداز میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر پہنچ کر اپنے کامیاب دورے کی نوید سناتے ہیں جیسے کشمیر فتح کرکے آرہے ہوں۔ اجاگر کرنے کی یہ لا حاصل اور بے سود مشق نصف صدی سے جاری ہے۔ اور یہ جاننے کے لیے کوئی بہت زیادہ عقل مند ہونا ضروری نہیں کہ آئندہ سو سال تک بھی ایسی فضول مشق کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
یہ مشق بنیادی طور پر ایک ناکام اور بانجھ کشمیر پالیسی کی عکاس ہے۔آزاد کشمیر کے نئے صدر صاحب کو اپنے طویل سفارتی تجربے کی روشنی میں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس پالیسی کے تحت ہم کبھی کشمیر نہیں لے سکتے۔ یہ پالیسی عوام کے ساتھ سنگین مذاق اور ان کے وسائل کی لوٹ کے مترادف ہے۔چنانچہ وہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے اس رولر کوسٹر پر چڑھنے سے پہلے وزارت خارجہ میں اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی بات اٹھائیں۔کشمیر پالیسی کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرائیں۔
ایسا کیے بغیر اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔ یہ کوئی کریڈٹ کی بات نہیں ہے کہ ہم ستر سال سے مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔اس کے بجائے منطق اور جدید سفارتی تقاضوں کے مطابق یہ ڈس کریڈٹ ہے کہ ہم ستر سال سے ایسی بات پر اصرار کر رہے ہیں جو ناقابل عمل ہے۔ چنانچہ اگر مسئلہ کشمیر حل کرنا ہے تو اس کا غیر روایتی حل ڈھونڈنا پڑے گا ۔یہ ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔
One Comment