اسی کی دھائی میں ابھی جب بھٹو کی شہادت کے زخم تازہ تھے، جنرل ضیا کے کوڑوں کی آواز آئے روز ملک کے مختلف شہروں کے چوراہوں پر جمع ہونے والے لوگوں کے کانوں کو چیرتی ہوئی سیاسی کارکنوں کی پشت پر اپنے نشانات چھوڑتی تھی۔
جب زبان عام کی تالابندی تھی۔ نظریہ پاکستان کا دور دورہ تھا۔۔ بھٹو کو پھانسی سے پہلے بھارتی ایجنٹ ثابت کرنے کی نیت سے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا تھا۔۔ اور ریڈیو پاکستان نے خبر دی کہ بھٹو کے گھر سے قابل اعتراض مواد ملا ہے۔۔ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔۔ ایک سیاہ رات تھی جو دس سال تک سویرے کی ہر امید کو روندتی رہی۔
یہ اسی شب سیاہ کے آغاز کے دنوں کی بات ہےجب الطاف حسین کو پاکستان کا پرچم جلانے کے الزام میں جیل بھیج دیا گیاتھا۔الطاف حسین کو دی گئی یہ سزا اس حوالے سے قابل فخر نہیں تھی۔ کیونکہ جن مہاجروں کے نمائندے کے طور پر وہ سامنے آئے تھے وہ سارے مہاجر تو پاکستان کے قیام کا ٹیگ ہی اپنے سینے پر سجانے کے دعویدار تھے، وہ اس میں کسی کو بھی حصہ داری دینے پر بھی تیار نہ تھے۔۔
وہ سندھ اسمبلی، جس نے جذبہ ایمانی سے سرشار ہوکر پاکستان کیلئے قرارداد پاس کی ، اپنے غیر مذہب ہم زبانوں کی جانب سے اس قرارداد میں معمولی سی ترمیم کی درخواست بھی مسترد کردی۔ اپنے ہم زبانوں کو اپنی زمین سے بے دخل کیا اور اپنی بانہیں کھول کر تقسیم شدہ بھارت سے مولانا ابوالکلام آزاد کی اپیل کو ٹھکرا کر آنے والوں کیلئے بانہیں کھول دیں۔۔ آؤ اور سماجاؤ، لیکن ستربرس گذر گئے وہ ابھی تک نہیں سما سکے۔۔ ایک نئی شناخت کی تلاش ان کا پیچھا کرتی رہی۔۔
لیاقت علی خان جن کے پاس اپنا کوئی حلقہ انتخاب نہ تھا، وہ کراچی میں ہندستان سے آنے والوں کو آباد کرتے رہے، اور مسلمان سندھی بھارت سے آنے والے اپنے بھائیوں کے قافلوں کو دیگیں پکاکر کھلاتے رہے۔۔ مرحوم لیاقت علی خان نے جس دن سندھیوں کو گھوڑے گدھ والی تہذیب کہا ۔۔ سندھیوں کو اس دن اندازہ ہوگیا کہ انہوں نے تو اپنے ساتھ ہی ہاتھ کردیا ہے۔۔ پاکستان میں جس رویے کی بنیاد ڈالی گئی اس کے نتائج آج وہ آبادی بھی بھگت رہی ہے ۔۔ ستر سال گذرنے کے باوجود وہ خود کو مہاجر کہلاتی ہے۔۔ اور اب تو مہاجر قوم اور صوبے کی بھی دعویداری ہے ۔۔
مہاجروں کی قیادت الطاف حسین کی صورت میں پاکستان کے خلاف نعرے لگاتی ہے۔ اسی فوج کے خلاف نہ جانے کیا کیا کہہ رہی ہے جس کیلئے ابھی ایک دو سال قبل ہی یکجہتی کے طور پر بڑے بڑے جلسے کیے گئےتھے۔
پاکستان کی سیاست میں پاکستان کے پرچم کو نذرآتش کرکے جیل جانے والے الطاف حسین نے باقائدہ مہاجر سیاست کا آغاز کیا۔ جنرل ضیا کو سندھ میں پیپلزپارٹی کا توڑ اس سے بہتر کہاں ملتا۔ آج کے مہاجر نئے سندھی بن کر پرانے سندھیوں میں ضم ہوتے جار رہے تھے، رشتہ داریاں ہورہی تھیں۔ لیکن پھر سندھی مہاجر فساد نے اتنی خلیج پیدا کردی کہ وہ اب ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔۔
اس بار بھی اگر سندھ میں الطاف حسین کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے وہ اصل میں ان چھاتیوں پر پیوست کیے گئے ’’جئےمہاجر‘‘ کے ٹھپوں کا رد عمل ہے جو سندھی عورتوں کے اغوا کے بعد لگائے گئے۔۔ سندھی مہاجر تنازع نے قوم پرست سیاست میں نئے لیڈر پیدا کیئے۔۔ جو آج دونوں فریقین میں ایک بڑی مالی حیثیت کے مالک بن گئے ہیں!
اسی کی دھائی میں جب ایم کیوایم نے عروج حاصل کرنا شروع کیا تو ان دنوں پہلی بار پاکستان کے میڈیا کو الطاف حسین نے یرغمال بنایا۔ کراچی ان دنوں ملکی صحافت کا مرکز تھا۔ تمام میڈیا مالکان، مدیران اور کالم نگاروں کو بھی نائین زیرو پر حاضری لگانی پڑتی تھی۔ ان دنوں یہی ریاستی ادارے بھی مہاجر قومی موو منٹ کے ساتھ کھڑے تھے۔
پاکستان کے بڑے اخبارات الطاف حسین کی پتوں اور پتھروں پر شبیہ ابھر آنے جیسی بے سروپا خبروں کو چار کالم ہیڈنگ میں چھاپتے تھے! لوگ قطار میں کھڑے ہیں اور الطاف حسین کی شبیہ کی زیارت ہورہی ہے۔۔ پھر اسے محسن انسانیت بھی قراردیا گیا۔۔ پیر صاحب تو وہ پہلے ہی تھے۔۔ اس طرح کی سیاست کے بنیاد رکھنے والا الطاف حسین جو خود کو ظل الہیٰ سمجھتا تھا۔ جسے یہ اختیار تھا کہ وہ جسے چاہے اسے زندگی سے محروم کردے۔ اس شہر کراچی نے اس سے پہلے ایسا خوفناک عروج کسی کا بھی نہیں دیکھا۔
اس عروج تکبر میں اس نے اس ملک میں رہنے والی ایسی کونسی سی قوم تھی جس کے خون کا ذائقہ نہیں چکھا، ہر کوئی اس کے در کی سلامی کرتا۔ لیکن اس نے اس کے ساتھ بے وفائی کی۔ اس نے اپنوں کو بھی نہیں بخشا۔ جس نے سر اٹھایا وہ سر کچلا گیا۔۔ وہ ملک کے سیاسی منظرنامے میں ایک خوف کی علامت تھا، اور شاید اب بھی !!
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میرا نکتہ نظر تھوڑا مختلف ہے۔ پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک بحث یہ چل نکلی ہے کہ پاکستان میں جیسا بھی ہو لیکن پارلیمانی نظام چلنا چاہیئے۔۔ یہی ایک بات ،جسے عام آدمی قبول بھی کرتا ہے، پاکستان کے سیاستدان جمہوریت کے استحکام کی خواہش تو رکھتے ہیں، لیکن اس کیلئے جو اقدام ہونے چاہیئں وہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھی یہ بحث آئے روز جاری رہتی ہے کہ اس ملک کے ایوان عوام کو مستحکم ہونا چاہیئے، لیکن یہ کرے گا کون؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔۔ اس بار جب کراچی پریس کلب سے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر کو ایک بڑی مونچھوں والے رینجرز کے افسر نے گرفتار کیا تو یہ ٹھاکر اسی رات سوشل میڈیا پر ہیرو کے طور پر ابھرا۔
اس کی تصاویر نے میڈیا پر لائک اور شیئر حاصل کرنے میں رکارڈ قائم کیا۔ لیکن کہیں سے کسی ایک پارلیمنٹیرین نے یہ نہیں کہا کہ ایک جماعت کا پارلیمانی لیڈر اس طرح بے عزت ہوکر گرفتار ہوتا ہے، آخر کیوں؟ چلیں اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں۔ لیکن جب دوسرے روز اسے آزاد کردیا گیا تو بھی کہیں سے کسی نے یہ نہ کہا کہ اگر فاروق ستار گناہ گار تھا تو اس پر مقدمہ داخل کیوں نہیں کیا گیا۔ اور اگر وہ بے گناہ تھا تو اسے گرفتار کیوں کیاگیا؟
ایک دو روز بعد رکن قومی اسمبلی آصف حسنین کو گرفتار کیا گیا۔ پھر اچانک وہ آزاد ہوکر منظرعام پر آگیا اور پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوگیا۔ کسی کو ڈرائی کلین کرکے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوانے سے کیا سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
لیکن ایک چپ سی لگی ہے۔ پہلی بار ایسا کچھ ہورہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا! سارے غدار پاک سرزمین پارٹی میں جاکر پاک ہورہے ہیں۔۔ کیا یہ فارمولا الطاف حسین کو اس سارے سیاسی منظرنامے سے تحلیل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا؟
جو الطاف حسین اپنے ڈیتھ اسکواڈوں کے ذریعے ایک خوف کی علامت بنا ہوا تھا۔۔ میرا خیال ہے کہ الطاف حسین اتنی جلدی جان چھوڑنے والا نہیں۔ وہ جو کل تک اس ملک کے بانیوں کی اولاد تھا آج پاکستان کی تاریخ کا بڑا غدار ہے جس کا اعتراف اس نے خود کیا۔۔ لیکن یہاں سوال الطاف حسین سے نہیں ان سے ہے جنہوں نے اسے طاقتور بنایا ۔
بتیس سال پہلے ہمارے ریاستی اداروں نے تزویراتی گہرائی کے نام پر جن مجاہدوں اور حق پرستوں کی داغ بیل ڈال تھی وہی جب ان پر چڑھ دوڑے ہیں تو اب بات قابل برداشت نہیں رہی۔۔ کاش بتیس سال پہلے جنرل ضیا نے یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا۔ اسلم بیگ اور مشرف نے ان کو طاقتور نہ بنایا ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔۔
لیکن ضیا، اسلم بیگ اور مشرف قابل سزا نہیں ۔۔ کیونکہ وہ ایک ایسی مقدس گائیں ہیں جن کا نام بھی بغیر وضو کے لینا گناہ عظیم ہے۔۔ رہا الطاف حسین تو اب اس کی کہانی کی پہلی قسط اپنے آخری صفحے کی آخری لائین پر ہے، دوسری قسط کا سب کو انتظار ہے!!
♦
One Comment