آصف جاوید
یہ وہ سوال ہے جو اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آخر اسٹیبلشمنٹ کو اتنا غصّہ کیوں آتا ہے؟ اور اسٹیبلشمنٹ ریاست میں یہ ساری اکھاڑ پچھا ڑ کیوں کرتی ہے؟یہ سارے ڈرامے کیوں کھیلتی ہے؟ ریاستی زرخرید میڈیا کے ذریعے ریاست کی پروپیگنڈہ مشینری ہر دم تیّار اور کامران کیوں رہتی ہے؟۔ عوام کی سوچ اور فکر کا آزاد کیوں نہیں چھوڑا جاتاہے؟۔ سیاسی عمل کو اپنے قدرتی بہاومیں بہنے کیوں نہیں دیا جاتا ہے؟ ۔
پاکستانی معاشرے میں ریاستی اداروں کا عمل دخل اتنا ضروری کیوں ہے؟ ملکی سیاست کو ریاستی ادارے کیوں کنٹرول کرتے ہیں؟ تزویراتی اثاثے کیوں پالے جاتے ہیں؟مذہبی انتہا پسند پریشر گروپوں، اور جہادی تنظیموں کی ریاستی سرپرستی کیوں کی جاتی ہے؟فوج اور اسٹیبلشمنٹ تو دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہے، خفیہ ادارے تو دنیا کے ہر ملک میں ہوتے ہیں، مگر پاکستان کی سیاست میں ریاستی خفیہ ایجنسیوں کا کردار اتنا واضح اور کنٹرولنگ کیوں ہے؟
ان تمام سوالات کا جواب تلاش کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ موجودہ پاکستان میں اقتدار اور طاقت کا سرچشمہ فوج ہے۔ اگر فوج براہِ راست حکومت میں ہو، تب بھی اور اگر کٹھ پتلی جمہوری حکومت ہو تب بھی۔
اور پاکستانی فوج ایک قومی فوج ہرگز نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کا مطلب پنجابی فوج ہے، یعنی پنجابی تسلّط، پنجاب کا تسلّط۔ اس لئے پورا پاکستان عملا” پنجاب کے تسلّط میں ہے۔ سادے الفاظ میں پورا پاکستان پنجاب کا غلام ہے، کیونکہ ہماری معاشرتی روایت کے مطابق، جس کی لاٹھی ہوتی ہے، بھینس بھی اس ہی کی ہوتی ہے۔
اگر میری بات کا یقین نہ ہو تو دنیا کے کسی آزاد تفتیشی ادارے سے پاکستانی فوج کی مردم شماری اور فوجیوں کی لسّانیت کا ایک آزاد سروے کروالیں، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کا یقین بالکل نہ کریں۔ جنرلوں، افسران اور جوانوں کی سطح پر اگر آپ کو واضح پنجابی تسلّط نہ ملے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔
اگر یہ پاکستان سب کا ہے، پاکستان کی جغرافیائی حدود میں موجود ہر لسّانیت کا ہے، تو پھر پنجابی جو اس وقت پاکستان کی آبادی کا 52 فیصد ہے، فوج میں 52 فیصد سے زائد کیوں ہیں؟ جنرلوں کا شمار کرلیں اور ان کی لسّانیت کی پہچان بھی کرلیں، افسران کا شمار کرلیں اور ان کی لسّانیت کی پہچان بھی کرلیں، جوانوں کا شمار کرلیں اور انکی لسّانیت کی پہچان بھی کرلیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
اگر پاکستان بچانا ہے تو پھر اقتدار اور طاقت کے سرچشمے یعنی پاکستان کی فوج کو قومی فوج بنانا ہوگا، ہر لسّانیت کو متناسب نمائندگی دینی ہوگی، اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی مشرّف بہ پنجابی کے کفر سے نکال کر مشرّف بہ قومی کے اسلام میں داخل کرنا ہوگا۔ تاکہ اسٹیبلشمنٹ میں موجود فیصلہ ساز قوم کے مفاد میں فیصلے کریں، پنجاب کے مفاد میں نہیں۔ یہ ملک پاکستان، عوام نے بنایا تھا، فوج نے نہیں۔
فوج تو تقسیم کے وقت اپنی بیرکوں میں موجود اور جنرل گریسی کی کمانڈ میں تھی۔ آزادی کی جدوجہد میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ لہذا فوج ربِّ اعلی‘ بھی نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کی ساخت پر بات کرنا کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔ پاکستانی فوج میں ریفارم کی سخت ضرورت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں ریفارم کی سخت ضرورت ہے۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ البرٹ پنٹو یعنی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو غصّہ کیوں آتا ہے؟ تو بھیّا اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ جو بھی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر نہیں ناچے گا، اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر عمل نہیں کرے کا، اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت نہیں کرے گا، وہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرے گا، اور اسٹیبلشمنٹ کو غصّہ آجائے گا۔
مہاجر اور بلوچ بڑے شرارتی بچّے ہیں، ہر وقت کھلونے (یعنی حقوق حاصل کرنے) کی شرارتیں کرتے رہتے ہیں، کبھی چین سے نہیں بیٹھتے، کبھی یہ شرارت ، کبھی وہ شرارت، اسٹیبلشمنٹ کا ناک میں دم کردیا ہے، چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتے، اس لئے اسٹیبلشمنٹ یعنی البرٹ پنٹو کو غصّہ آجاتا ہے، اس کے علاوہ البرٹ پنٹو کے غصّے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
یہ مہاجر اور بلوچ واقعی بڑے شرارتی بچّے ہیں ان کو مار پڑنی چاہئے ، یہ تب ہی سیدھے ہونگے۔ بچّے رہیں یا نہیں رہیں، یہ ملک قائم رہنا چاہئے۔ البرٹ پنٹو کو ٹھنڈے پانی کا گلاس پلاو، اور بچّوں کو کمرے میں(معاف کیجئے گا غلطی ہوگئی )، بچّوں کو پنجروں میں بند کردو، بچّوں کا دانہ پانی بھی بند کردو، اور بچّوں کو ٹکا کر مار لگاو، یہ خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے، ہمارے ابّا بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
♦
2 Comments