گمشدہ افراد کا عالمی دن اور سولِ سوسائٹی کی پراسرار خاموشی

Asif-Javaid4

آصف جاوید

تیس  30 اگست کوپوری دنیا میں گمشدہ افراد کا عالمی دن منا یا گیا ہے۔  دنیا  والے اس دن کو مِسنِگ پرسنز ڈے کے حوالے سے جانتے ہیں۔

مگر پاکستان جیسے بدقسمت ملک میں جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں،  نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں، ریاستی تشدّد، زیرِ حراست بہیمانہ تشدّد، ، ماورائے عدالت قتل اور مسخ شدہ لاشیں ، ریاست کا طرزِ حکومت سمجھی جاتی ہیں۔ وہاں یہ دن ریاستی جبر کی وجہ سے منانا بہت ہی مشکل کام ہے۔

انسانی حقوق کی آزادی اور بحالی کا کام کرنے والی تنظیمیں اس دن کچھ سرگرمیاں کرلیتی ہیں، مگر  سوِل سوسائٹی پراسرار طور پر خاموش رہتی ہے۔  اور چونکہ میڈیا میں زرخرید غلام ،  صحافیوں کے روپ میں بیٹھے ہیں، اس لئے ان سرگرمیوں کو مناسب پروجیکشن  بھی نہیں ملتی ہے۔  ٹاک شوز میں بھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کی جاتی ہے۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تو قیام پاکستان  کے بعد ریاستی اداروں کی خفیہ کارروائیوں کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ مگر  اکّا دکّا واقِعات کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی۔  جبری گمشدگیوں کے  واقعات میں تسلسل اور تیزی  اضافہ میں ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن کے بعد شروع ہوا،  ایک اندازے کے مطابق 1992 سے ایم کیو ایم کے خلاف وقفے وقفے سے ہونے والے ریاستی آپریشن میں اب تک 30 ہزار سے زائد نوجوان، گمشدہ یا قتل کئے جاچکے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مِسنِگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے۔ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چیئر پرسن بی بی گل بلوچ نے مسخ شدہ لاشوں کی تعداد کے بارے میں حکومتی دعوؤں کو قطعی مسترد کردیا ہے۔جبکہ سوات آپریشن کے بعد صوبہ پختونخواہ سے بھی جبری گمشدگیوں کے بہت سے شواہد ملے ہیں۔

یوں یہ تعداد کل ملا کر 50 ہزار  سے زائد بنتی ہے،  اور صورتحال پر نظر رکھنے والوں کے مطابق یہ سلسلہ  ختم ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ اور اس مسئلے  کا حل بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔   پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں جن علاقوں میں ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کام کرتی ہیں، یا ، کام کرتی رہی ہیں، جبری گشدگیوں کے اکثر واقعات ان ہی  مقامات پر ہوئے ہیں۔

بلوچستان میں، انسانی حقو ق کے لئے کام کرنے والے ایک کارکن کے انٹرویو کے مطابق لاپتہ افراد کے لئے جو عدالتی کمیشن کام کررہا ہے، وہ وقت کا زیاں  ہے اور ریاستی اداروں کی درپردہ  مدد کے لئے بنایا گیا ہے،  لاپتہ افراد کے کیسز کو خراب کرنے کے لئے  بنایا گیا ہے، کیونکہ اس کمیشن میں حکومتی اداروں ، ریاستی اداروں کے سربراہان جو کہ ایک فریق کا درجہ رکھتے ہیں، کمیشن کے ممبر کی حیثیت سے بیٹھتے ہیں۔  اور ان ہی اداروں پر بلوچستان سے نوجوانوں کو اٹھا کر گمشدہ کرنے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا الزام ہے۔

 انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی خاتون محترمہ حنا جیلانی کے مطابق ریاست جس طرح ردِّ عمل کرتی ہے وہ قانون کی پاسداری اور بالا دستی کے لئے نہیں ہے۔  بلکہ گمشدہ افراد کے لواحقین سے ڈیل کرنے میں بھی قانونی تقاضوں  کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ آپ پاکستان میں بھی گمشدہ افراد سے متعلّق کیسز کی سماعت کے دوران عدلت نے بھی ریاست کے عسکری اداروں کے خلاف سخت ترین ریمارکس دئے ہیں۔

بلوچ  گمشدہ افراد کے لواحقین اپنی مدد اپ کے تحت اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھا رہے ہیں، اس سلسلے میں  ماما عبدالقدیر  بلوچ  کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے،  ماما عبدالقدیر بلوچ نے 2013 میں بلوچ نوجوانوں کی گمشدگیوں کے مسئلے پر اپنے بیٹے کی  لاپتہ اور مسخ شدہ لاش برآمد ہونے کے بعد  ایک باقاعدہ مہم کے تحت پوری دنیا کی توجّہ اس مسئلے پر مبذول کرانے کی خاطر  بلوچستان سے اسلام آباد تک 2000 میل کا سفران متاثّرین کے ساتھ کیا جن کے بچّے لاپتہ ہوچکے تھے۔

ایم کیو ایم نے  بھی گزشتہ تین سال سے جاری آپریشن کے دوران اپنے گمشدہ کارکنوں اور ہمدردوں کی لسٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی ہے۔بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ  نے ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ  بنانے کے ساتھ ساتھ ، میڈیا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں پر بھی  شدید تنقید کی ہے۔

 بی بی گل بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کا مسئلہ جبری گمشدگی کے عالمی بڑے مسائل میں سے ایک ہے لیکن میڈیا نے اس مسئلے کو دنیا کے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس حوالے سے آواز اٹھا رہی ہیں۔

 پاکستان میں موجود سول سوسائٹی کی تنظیموں سے اس خالصتاً انسانی مسئلے پر پر اسرار انداز میں  چپ سادھ کر بیٹھے رہنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔   سوائے اس کے اور کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ اب سول سوسائٹی بھی تعصّب اور قومیت پرستی کا شکار ہوگئی ہے۔

 واللہّ عالم بالصواب

Comments are closed.