آئینہ سیدہ
آل پاکستان مہاجر آرگنائزیشن سے مہاجر قومی موومنٹ اور پھر مہاجر قومی موومنٹ سے ” متحدہ ” اور شاید آج پھر آل پاکستان مہاجر آرگنایزشن بننے کی منصوبہ بندی …. خیر سے ایم کیو ایم نامی اس سیاسی پارٹی نے سن ٧٨ سے جو سفر شروع کیا وہ سن ٢٠١٦ میں ایک عجیب و غریب کنفیوژن کا شکار ہے۔
چونکہ ہر گزرتا لمحہ حالات میں ایک تبدیلی لا رہا ہے اس لیے ہرسیاسی طور پر باشعور انسان کے لیے ضروری ہے کہ طو طے سے فال نہ نکلوائے اور نہ ہی ایسی کوشش کرے جس سے آپ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ثابت ہوں .ہم سب کے لیے بہتر ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اسکا تجزیہ ماضی کے تجربات اور مشاہدات پر کریں نہ کہ “الہامی ” کیفیات کا اظہار کر کے کراچی اور اسکے عوام کو مزید ہیجان میں مبتلا کریں
یہ تحریر لکھنے کا مقصدہرگز الطاف حسین کے “مزائیلی پیان ” کی تردید یا تصدیق کرنا نہیں کیوں کہ میرا تعلق یا ہمدردیاں نہ تو کبھی ایم قیو ایم کے ساتھ رہیں اور نہ ہی “مینڈک ” کی طرح اچھل اچھل کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والے محبان وطن کے ساتھ….. ریاست کے مظالم جس پر بھی ہوئے حتی المقدوراپنی زبان اور قلم کے ذریعے اسکی مذمت کی اور یوں فی زمانہ “غداروں ” کے زمرے میں پائی گئی۔
اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو بلوچستان میں پائی جانے والی پاکستان مخالف بےچینی کو متحدہ کے قاید کی منفی سیاست اور٢٢ اگست کی پٹاخے دار تقریر سے ملا رہے ہیں انکے ذہن سے یہ غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ بلوچستان پاکستانی ریاست کے مظالم کا ہمیشہ ہی سب سے بڑامرکز رہا ہے۔ پانچ تشدد آمیز ،بدترین فوجی آپریشنز اور اس دوران نہ کوئی شنوائی نہ میڈیا کوریج ….اور تواورجمہوری ادوار میں بھی فوجی ادوار کی طرح مظالم ،ناانصافیا ں ، اور کھلا استحصال جسکا جواز نہ ریاست آج تک دے سکی ہے نہ ہی باقی صوبوں کے عوام۔
اس وقت بھی بلوچستان میں فوجی مداخلت جاری ہے اسکے باوجود کے وہاں ایک “منتخب حکومت ” ہے جو کہ وفاق پر حکومت کرنے والی جماعت سے تعلق رکھتی ہے مگر حال یہ ہے کہ نہ گمشدہ ہونے والوں کے لیے ایف آئی آر کٹتی ہیں نہ انکے لواحقین کی آواز کسی بھی میڈیا کے بلیٹین یا ٹاک شوز تک پہنچتی ہے۔
ایک طویل سلسلہ ہے ناانصافی کا جس میں فوجی آپریشنز ، جبری گمشدہ افراد ، جمہوری منتخب حکومتوں کا توڑنا،گورنر راج ،فضائی بمباری ،پیدل فوج کے حملے ،گھروں کی مسماری ،فصلوں کی بربادی ،بچوں اورعورتوں تک کی جبری گمشدگی ،مسخ شدہ لاشیں ملنے کا ایک طویل سلسلہ اور پھر اس برباد چمن کے تابوت میں “اجتماعی قبروں ” کی آخری کیل ۔
اب آجائیں کچھ قومی مراعاتوں کی طرف جو بلوچستان کو اسکے باوجود نصیب نہیں کہ وہ پاکستان کا سب سے زیادہ معدنیات کی دولت سے مالا مال علاقہ ہے ۔
جوزمین قدرتی گیس سے لے کر سونا تک فراہم کرتی ہے اسکے اپنے بیٹے روزگار ،تعلیم اور زندگی کی بیشتر سہولتیں نہیں پاسکتے ، کیوں ؟؟ اسکا جواب بلوچستان ،سندھ اور پختونخواہ میں اس جواب سے بالکل مختلف ہے جو آپکو اسلام آباد راولپنڈی سے ملے گا اور ہوسکتا ہے جیسے کہ ایک بی بی سی کی ڈاکومنٹری میں دکھایا گیا کہ کالجوں کے شہر لاہورتک میں بلوچستان کے بارے میں پڑھے لکھوں کی معلومات صفر تھی اور عمومی مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ اسلا م آباد راولپنڈی سے فیصل آباد تک بلوچستان کے بارے میں معلومات کا عمومی رجحان یہی ہے۔
یوں کم آبادی ،کم مواقع ،مسلسل ریاستی جبر اور “غداری ” کی سٹمپ کے ساتھ بلوچستان سے نکلنے والا بلوچ پاکستان کے مین سٹریم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنی آواز پیدا نہ کر سکا ،سیاست میں جو بھی سردار ریاست کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے وہ اپنے مفاد کے تابع کچھ فوائد اٹھا سکے مگر عمومی طور پر جب کسی سردارنے بھی ریاست اوربلوچ عوام میں سے عوام کا انتخاب کیا تو اپنے عہدوں سے فارغ کیا گیا یا پھر جان سے گیا۔
انہتر سالہ پاکستانی تاریخ میں بلوچ جرنیل ،جج ،وزیراعظم ،صدر ،جرنلسٹس شاید آپ کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بھی کم ہونگے وکلاء جو اس سرزمین نے بڑی محنتوں سے پال پوس کر اس قابل کیے کہ زمین کا قرض چکائیں وہ گھڑی بھر میں کسی ظالم و جابر کی سازش کا شکار کر دیے گیے ایسی سازش کا جو دوسری تمام سازشوں کی طرح کبھی بےنقاب نہ ہو پائےگی۔
سوپچھلے ١٢ سال سے بلوچستان کا یہ حال ہے کہ مسلسل گمشدگیاں ،مسلسل مسخ شدہ لاشیں ،مسلسل بستیوں کا تہہ وبالا کیا جانا اوردوسری طرف مسلسل پاکستانی اداروں کے کان پر جوں تک نہ رینگنا۔
ان تمام مظالم کے جواب میں بلوچ سیاسی کارکنان اور گمشدہ افراد کے لواحقین کی طرف سے پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین لانگ مارچ کیا گیا جو پر امن احتجاج کی تاریخ کا ایک سنہری باب تھا۔ اسی طرح بھوک ہڑتالی کیمپ بلوچستان کے شہروں سے لے کر کراچی کے پریس کلب تک میں قائم کیے گیے مگر کیونکہ پر امن تھے اس لیے پاکستان میں کوئی خبر نہ بنا سکے۔
اب ایک نظر متحدہ اور پاکستان میں موجود اس لسانی اکائی پر ڈالیں جس کا موازنہ آپ بلوچستان اور اس میں موجود بے انصافیوں کا شکار لوگوں سے کرتے ہیں۔
کراچی …. پاکستان کا سب سے بڑا شہر ، متحدہ پاکستان کا پہلا دارلحکومت ، جہاں پاکستان بننے سے پہلے ہی ترقی اور تعلیم کے ادارے موجود تھےروزگار سے لے کر چھت تک اور ووٹ سے لیکر اختیار تک سب ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو حق کے طور پر ملا۔
ان ٦٩ برسوں میں اردو بولنے ولوں سے اتنی ہی ناانصافیاں ہوئیں جتنی کہ سندھ اور پختونخواہ سے ہو ئیں شاید انیس بیس کا فرق ہو مگر گوہر ایوب کا ان پر حملہ ایسا ہی تھا جیسے جمہوری تحریکوں کے دوران سندھیوں پر قاضی احمد اور تھوڑی پھاٹک میں کیا گیا اور پشتونوں کو بابڑا میں جلیانوا لہ سے بدتر قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔
اگر ایک مہاجر وزیراعظم کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا تو پاکستان بھر سے منتخب دو سندھ سے تعلق رکھنے والے وزرآ ئے اعظم کو بھی راولپنڈی میں قتل کیا گیا۔
اگر کہیں روزگار یا تعلیم میں مسائل تھے تو وہ سب پاکستانیوں کے لیے تھے اگر جمہوریت کا پھل ہجرت کر کے آنے والوں کو نصیب نہ ہوا تو اس خطے میں ہزاروں سال سے بسنے والوں کو بھی طویل عرصے تک جمہوریت کے فوائد نہ مل سکے۔
اگر آمریت نے کراچی سے دارلخلافہ ہونے کا اعزاز چھینا تو اسکا نقصان صرف سندھ کو نہیں بلکہ بنگال کو بھی ہوا ۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر ایک بنی بنائی بندرگاہ آپکے حصے میں آئی ،اکثریت نے آپکو گلے سے لگایا اپنے گھر بار خوشی سے آپکو دیے ،پہلے وزیراعظم سے لے کر پہلی خاتون گورنر تک آپکو سیاست میں نمایندگی ملی …ووٹ کی طاقت ملی تو آپ نے اپنی مرضی سے مذہبی جماعتو ں کو اپنا نمایندہ بنایا ،اکثریت کی زبان لاگو ہونا کچھ انہونی بات نہ تھی اسی طرح دس سال کے لیے کوٹہ سسٹم کے ذریعے اگر اس زمین کے بیٹے آپکے وہ بھائی جنہوں نے آپکو چھت دی کالج ،یونیورسٹیاں نہ ہونے کے با عث اگر کچھ زیادہ مراعات بھی لے لیتے تو دس سال کوئی بہت زیادہ عر صہ تو نہ تھا کہ زبان پر لاشیں گرائی جاتیں اور کوٹہ اپنی نفرتوں کا میعار بنا لیا جاتا ؟
اے پی ایم ایس او اور پھر مہاجر قومی موومنٹ انہی نفرتوں کو بنیاد بنا کر قا ئم ہوئیں مگر انکا رخ صرف سندھ کے مقامی افراد تک نہ رہا بلکہ سامنے آنے والے ہر اس شخص کو اس جماعت کے قیام کا خمیازہ بھگتنا پڑا جو بھی انکے مفادات اور انکے درمیان آیا۔ .
ملٹری چیف جیسے بااختیار عہدے سے لے کر وزیراعظم اور صدر ،اور سندھ کی تاریخ کا سب سے لمبا عرصہ گورنر رہنے کا اعزاز بھی آپکو حاصل ، پاکستان کے مالیاتی مرکز کی مئیر شپ ہو یا اقلیتی جماعت ہونے کے باوجود پورے سندھ کی وزارت داخلہ آپکو پانچ سال بلاشرکت غیرے سندھ پر حکومت کا مکمل موقع ملا …. مگر شکایات ہیں کہ اسی زمین سے جس نے آپکو اس وقت تک شہریت ،ووٹ اور حکومت کرنے کے اختیارات دیے جب تک کہ آپ خود اسکو ٹھوکر مار کر دوسرے دیس کو اپنانے نہیں چلے گئے۔
اور پھر پاکستان کی اس لسانی اکائی کو یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ دوسری لسانی اکائیوں سے آبادی میں کم ہونے کے باوجود “زبان و بیان ” کی برتری کے باعث پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں انکا طوطی بولتا ہے۔
کالم نگار ہوں یا اینکرز یا “سینیر تجزیہ کار ” ہر ایک نے متحدہ قومی موومنٹ اوراردو بولنے والوں کے لیے ہمیشہ پہلی “ڈیفنس ” لائین کا کردار ادا کیا جسکا انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا۔
اب ہر باشعور مگر غیر جانبدار شخص موازنہ کر سکتا ہے کہ بلوچ ناانصافی اور ظلم و زیادتی کی کس معراج سے نبرد آزما ہیں، انکی آواز کیسے اٹھے اورکہاں اٹھے؟؟ ایسے میں نفرت سمجھ آتی ہے مگر متحدہ کے قاید یا متحدہ کے کارکنان اور سپورٹرز کی پاکستان یا سندھ سے نفرت و حقارت کسی غیرجانبدارذہن کو سمجھ آ ہی نہیں سکتیں۔
پاکستان کو ناسورکہنے کا حق ہم اس ماں کو تو دے سکتے ہیں جسکو پچاسال تک نہ وہ قدرتی گیس دی گئی جو اسکے ہمسائےسے برآمد ہوئی اور نہ اسکو صاف پانی فراہم کیا گیا جواسکا بنیادی حق تھا۔ مگر اسکا جوان بیٹا جو اس نے مشکلوں اور مصیبتوں کو برداشت کر کے ٢٦ سال تک پالا اسی پاکستان نے اسکا وہ واحد سہارا اس سے چھین کر نجانے کہاں غا ئب کردیا کہ ماں یہ بھی نہیں جانتی کہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔
اب اگرایسے میں وہ مردہ باد کا نعرہ نہ لگائے تو مجھے حیرت ہوگی مگر الطاف بھائی کی تو یہاں ٢٨ سال تک مختلف حکومتوں کے ساتھ اختیارات کی ریل پیل رہی ؟ ایک اشارے پر کبھی پاکستان کی شہ رگ بند کر کے اپنے مطالبات منظور کروائے جاتے اور کبھی “کام اتار ” کر…….. ایسے میں اسی ملک کو مردہ باد کہنا اور ایک بار نہیں بار بار کہنا بلکہ اپنے حواریوں سے زور زبردستی کہلوانا ….مجھے تو سمجھ نہیں آتی آپ کو آتی ہے تو بتائیں ؟؟؟؟؟
♦
One Comment